اردو ناول نگاری اور حلقہ ارباب ذوق کی تحریک

2,839

اردو میں امراؤجان ادا کے بعد سے اب تک سوا سوسال کے عرصہ میں عالمی ادبی معیار کے اعلی درجہ کے ناول اتنی کم تعداد میں سامنے آئے کہ انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے

ناول کی صنف اردو زبان میں باقی اصناف سخن کے مقابلے میں کم توجہی کا شکار رہی۔ اس کی متعدد سیاسی تہذیبی سماجی و ادبی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ قصہ گوئی کی روایت برصغیر کی زبانوں میں طویل تاریخ رکھتی ہے اور دیومالاؤں اور قصوں کہانیوں کی صورت میں یہ ہمیشہ سے یہاں کے کلاسیکی ادب کا حصہ رہی ہے۔ ناول کی صنف ا س روایت کی ایک ترقی یافتہ صورت قرار دی جا سکتی ہے۔

اردو میں پہلا باقاعدہ ناول امراؤجان ادا کو قرار دیا جاتا ہے جو 1899 میں شائع ہوا۔یہی وہ دور تھا جب ڈپٹی نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار کے ناول بھی منظر عام پر آئے۔ سو انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اردو میں ناول نے بطورصنف اپنے خدوخال واضح کیے۔ ان اولین ناولوں کو قدیم داستانوں اور قصوں ہٹ کر ناول نگاری کی مغربی روایت کی طرز میں لکھنے کا تجربہ کیا گیا تھا۔جب کہ مغرب میں دو صدیاں پہلے یہ صنف اپنا ظہور کر چکی تھی۔ وہاں پہلا بڑا ناول ڈان کیخوتے کو مانا جاتا ہے جو سترھویں صدی کی اولین دہائی میں منظرعام پر آیا۔

اردو میں امراؤجان ادا کے بعد سے اب تک سوا سوسال کے عرصہ میں عالمی ادبی معیار کے اعلی درجہ کے ناول اتنی کم تعداد میں سامنے آئے کہ انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسی ہی بات اردو ناول پر تنقید کے باب میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ کوئی ایک کتاب اس صنف پر ایسی نہیں ہے جسے ایک مثالی نمونے کے طورپر اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ نہ ہی کسی ایک نقاد کا نام پوری ذمہ داری کے ساتھ لیا جا سکتا ہے جس نے اردو میں ناول نگاری کی صنف اور اس کی روایت پر جم کر کام کیا ہو، اور مغرب میں ناول نگاری کی روایت کے تناظر میں اس کے خدوخال واضح کیے ہوں جنھیں معیار بنایا جا سکے۔

 اردو میں پہلا باقاعدہ ناول امراؤجان ادا کو قرار دیا جاتا ہے جو 1899 میں شائع ہوا۔یہی وہ دور تھا جب ڈپٹی نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار کے ناول بھی منظر عام پر آئے۔

تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ گذشتہ دہائیوں میں ناول نگاری کے شعبے میں قابل ذکر اضافے ہوئے ہیں۔قرة العین حیدر اور پریم چند سے لے کر عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، اکرام اللہ اور مرزا اطہر بیگ تک اور اس کے بعد بھی ایسے ناولوں کی ایک مناسب ضخامت کی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جن کی تخلیقات کو اردو کی آبرو قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اردو میں ناول نگاری کے شعبے میں کام کے اضافے کی ایک وجہ عالمی سطح پر بھی اس صنف کی غیر معمولی پذیرائی کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ موجودہ صدی میں نوبل انعام کرنے والوں میں اکثریت ناول نگاروں کی ہے۔ اس عالمی پذیرائی نے اثرات اردو پر پڑے اور یہاں نہ صرف تخلیقی اذہان ناول کی طرف راغب ہوئے بلکہ پہلے سے موجود ناول نگاروں کے کام کی بھی تنقیدی تحسین میں اضافہ ہوا۔

ناول واحد ادبی صنف ہے جس میں غزل یا اس کے مزاج سے موافق اصناف شعر اور افسانہ کے مختصر اور محدود قلمی سٹروک کے ساتھ بیانیہ قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ بیانیہ ہی ناول کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ بیانیہ کی بنیاد وسیع تر ذہنی آزادی، سماجی علوم کی ترقی، مائل بہ منطق تخیلاتی اٹھان اور زندگی کے متنوع تجربے پر قائم ہوتی ہے۔کچھ یہ شرائط تھیں جنھوں نے ناول لکھنے والوں کے حلقے کو محدود رکھا۔ ایک پوری زندگی کو اس کے منطقی ڈھانچے کے ساتھ لکھنے کے لیے جس قدر اعلی تر تخلیقی جوہر ،تجربہ کے تنوع اور فن کارانہ گرفت کی ضرورت ہے، وہ ایسے سماج میں ممکن نہیں ہے جہاں انفرادی ذہنی آزادی پر قدغنوں کی وجہ سے سماجی و فطری علوم کی پرورش انجماد کا شکار ہو۔

ناول واحد ادبی صنف ہے جس میں غزل یا اس کے مزاج سے موافق اصناف شعر اور افسانہ کے مختصر اور محدود قلمی سٹروک کے ساتھ بیانیہ قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ بیانیہ ہی ناول کی سب سے بڑی طاقت ہے

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ادب کی تین بڑی تحریکوں میں سے، جن کا اردو ادب مرہون منت ہے، ناول نگاروں کی بڑی تعداد جس ادبی تحریک یا رویے سے وابستہ ہیں، وہ حلقہ ارباب ذوق کی ادبی تحریک ہی ہے۔

سرسید کی تعلیمی تحریک جو خاص طورپر شاعری میں ہیئت اور موضوع کی سطح پر انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنی، ڈپٹی نذیر احمد کے سوا کوئی قابل ذکر ناول نگار اپنے ساتھ وابستہ کرنے میں ناکام رہی۔ترقی پسند تحریک جس نے اردو ادب کے منظر نامے میں شاید سب سے زیادہ ہلچل پیدا کی اور اشتراکیت کے زیر اثر ادب میں ایسے موضوعات زیر بحث لانے پر اصرار کیا، جس پر اس سے پہلے اردو کی حد تک توجہ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی، سے وابستہ لکھنے والوں میں پریم چند، کرشن چندر اور شوکت صدیقی ہی نمایاں ہوپائے جنھوں نے ناول نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔

ناول نگاری کی صنف کی نشوو نما اور بڑھوتری کے لیے جس انفرادی آزادی کی ضرورت ہے، اس پر سب سے زیادہ اصرار حلقہ ارباب ذوق کی تحریک ہی نے کیا۔ شاید اسے تحریک کا نام دینے میں ناقدین معترض ہوں کیوں کہ اس کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ اس سے وابستہ لکھنے والے کسی خاص فلسفہ حیات کے پرچار ک نہیں تھے۔ انھوں نے کسی موضوع کو خارج از ادب قرار دینے کا اعلان نہیں کیا اور نہ موضوعات کے کسی خاص سیٹ پر بات کرنے پر اصرار ہی کیا۔ ادب کی جمالیات پر بات کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔

بھلا اس سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ ادبی نگارش کو ادبی جمالیات چاہے وہ قدیم جمالیاتی نظام سے جڑی ہوئی ہوں، یا جدید جمالیاتی انحرافات پر مبنی ہوں، سے وابستہ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی سادہ کھلا پن حلقہ ارباب ذوق کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوا۔ انفرادی ذہنی و تخلیقی آزادی پر اصرار ہی اس ادبی تحریک یا رویے کا مرکزی نقطہ اور اس کا طرہ امتیاز بنا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی بنیادی نقطے کو نظر انداز کرنے یا اسے رد کرنے کے رویے کے خلاف ہی اس ایک ردعمل کی صورت میں حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کی آغاز کی صورت بنا۔ یہ ردعمل بنیادی طورپر شاعری میں ظاہر ہوا۔ جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کے بانیان میں سبھی شاعر ہی تھے۔ لیکن اس کا حقیقتاً سب سے زیادہ فائدہ ناول نگاری کو ہوا جس میں یہ آزادی لکھنے والے کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرة العین حیدر،عزیز احمد، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین، انیس ناگی، سے لے کر مرزا اطہر بیگ تک ناول نگاروں کی ایک کہکشاں ہے جو حلقہ ارباب ذوق کی چھتر چھایہ تلے پروان چڑھی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...