پانامہ پیپرز اور اس کے پاکستانی سیاست پر اثرات

930

جرمنی کے ایک اخبار نے ایک ایسی خبر بریک کی ہے جس کاچرچے اس وقت پوری دنیا میں ہو رہے ہیں ۔پانامہ پیپرز کے نام سے سامنے آنے والے یہ انکشافات دراصل ایک قانونی فرم سے لیا گیا ڈیٹا ہے جو اس کے گاہکوں کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ایک کروڑ پندرہ لاکھ فائلز پر مشتمل اس ڈیٹا میں تین لاکھ سے زائد کمپنیوں کی تفصیلات ہیں ۔ پانامہ کی ایک قانونی فرم Mossack Fonsecaجو کہ سمندر پار( Offshore)فرضی اور جعلی کمنیاں بنانے میں مہارت رکھتی ہے اس کا ڈیٹا کیسے لیک ہوا یہ تو ایک راز ہے تاہم اس کی زد میں دنیا کے بڑے بڑے لیڈراور سیاستدان آچکے ہیں ۔جن میں روسی صدر پیوٹن ، سعودی بادشاہ سلیمان ، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سمیت 140 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے مالک اپنے اپنے ملکوں میں اہم سرکاری عہدے رکھتے ہیں ۔

140 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے مالک اپنے اپنے ملکوں میں اہم سرکاری عہدے رکھتے ہیں ۔

سمند رپار کمپنیاں، در اصل ٹیکس بچانے کی خاطر قائم کی جاتی ہیں ۔ ۔پانامہ پیپرز کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کا بیٹا حسن ، حسین اور بیٹی مریم یا تو ایسی کمپنیوں کے مالک ہیں یا پھر وہ ایسی کمپنیوں کی صوابدید پر مالیاتی اختیارات چلانے میں خود مختار ہیں ۔مریم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ورجن آئی لینڈ میں قائم ایک فرم Nielsen Enterprisesکی مالکہ ہیں۔ اس  کمپنی کا پتہ سرور پیلس جدہ سعودی عرب درج ہے۔ کمپنی نے برطانیہ میں کچھ جائیداد بھی خریدی ۔اس کے بعد مریم اور حسین نواز نےجنیوا میں ڈوئچے بنک سے ایک کروڑ 38 لاکھ ڈالر کا قرضہ بھی لیا ۔حسن نواز شریف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ فروری 2007میں قائم ہونے والی ایک فرم Hangon Property Holdings Limited کے مالک ہیں جس نے لائبیریا کی ایک فرم Cascon Holdings Establishment Limited  کو ایک کروڑ 12 لاکھ ڈالر میں خرید لیا ۔

حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ سنیٹر عثمان سیف اللہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اصلاحات کے لئے قائم کئے جانے والے کمیشن کے ممبر بھی ہیں۔

سمندر پار بنائی گئی ایسی کمپنیوں کے مالک پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں ۔ان میں سیاستدانوں کے علاوہ ریٹائرڈ سویلین اور فوجی افسران ، میڈیا مالکان ، پراپرٹی ٹائیکون ، صنعت کار اور تاجر سبھی شامل ہیں ۔دی نیوز اخبار میں عمر چیمہ کی خبر کے مطابق ابتدائی طور پر 200ایسے پاکستانیوں کا پتہ چلا لیا گیا ہے جبکہ مزید عمل جاری ہے۔شہباز شریف کا خاندان ، بینظیر بھٹو ، جاوید پاشا، رحمٰن ملک ، سنینٹر عثمان سیف اللہ کا خاندان ، چوہدریوں کے رشتہ داراور سابق ایم این اے  وسیم گلزار،یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے ساتھ حج سیکنڈل میں مشہور ہونے والے زین سکھیرا،میریٹ اور پی سی ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی ، ملک ریاض کا بیٹا علی ریاض، حسین داؤد فیملی ، شفائر ٹیکسٹائل کی عبداللہ فیملی ، لکی ٹیکسٹائل کے گل محمد ٹبہ، ذولفقار علی لاکھانی اور ذولفقار پراچہ کے علاوہ عدلیہ سے وابستہ جسٹس فرخ عرفان ، ملک قیوم ، ہلٹن فارما کے مالک شہباز یٰسین ملک، اے بی ایم گروپ آف کمپنیز کے چئیرمین اعظم سلطان ، پزا ہٹ کے مالک عقیل حسین ، صورتی انتڑ پرائزز کے چئیرمین عبدالراشد صورتی اور دیگر شامل ہیں ۔ لکی مروت کا سیف اللہ خاندان34 آف شور کمنیوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔سینیٹر عثمان سیف اللہ، انور سیف اللہ ، سلیم سیف اللہ ، ہمایوں سیف اللہ ، ڈاکٹر اقبال سیف اللہ، جاوید سیف اللہ اور جہانگیر سیف اللہ کی کمپنیوں کے بنک اکاؤنٹس اور جائیدادیں ہانک کانگ، سنگا پور، آئیر لینڈ اور برطانیہ میں ہیں ۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ سنیٹر عثمان سیف اللہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اصلاحات کے لئے قائم کئے جانے والے کمیشن کے ممبر بھی ہیں۔عراق میں تیل کے بدلے خوراک میں سکینڈل میں سامنے آنے والی کمپنی پیٹرولائن انٹر نیشنل انک کی بینظیر بھٹو، ان کے بھانجے حسن علی جعفری اور سینیٹر رحمٰن ملک کے نام بھی شامل ہیں ۔ شہباز شریف کے رشتہ داروں کی چار کمپنیاں ہیں ۔ہائی لینڈیل لمیٹڈ بھاماس میں 24جولائی2003کو رجسٹر ہوئی،جس کے مطابق حبیب وقاص گروپ ، الیاس معراج ،کریڈٹ سوئس لائف اینڈ پنشن ،ہائی اوکٹین فنڈ اور مائیکل میٹس کے ساتھ شراکت دار ہیں ۔ثمینہ درانی کی بھی تین آف شور کمپنیاں ہیں ۔ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض کی ویسٹ ہارپ انٹرنیشنل کمپنی ہے ۔حبیب بنک کے چیئرمین سلطان علی الانہ ،این آئی بی بنک کے سابق صدرخواجہ اقبال حسن کا نام بھی ان میں شامل ہے ۔جنگ گروپ کے شکیل الرحمٰن کی میرین پراپرٹیز22اکتوبر2002ء کو رجسٹرڈ ہوئی ۔چینل 24 کے فنانسرگوہر اعجاز بھی ان افراد میں شامل ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں ۔

نواز شریف کے لئے کتنا مشکل ہو گا کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کرسکیں ۔بالخصوص مریم  نواز کا جسے وہ اپنی سیاسی جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں ؟ 

پانامہ پیپرز میں امریکہ کے کسی سیاستدان یا ممبر پارلیمنٹ کا نام شامل نہیں ہے ۔ جبکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اس فہرست میں پہلے نمبر پرہیں ۔ سمندر پار ایسی کمپنیاں بنانا کسی بھی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں مگر اخلاقی طور پر معیوب ضرور ہے کہ قومی خزانے کی رکھوالی کا فرض نبھانے والے خود کیا کرتے ہیں ۔حکمران اگر خود ٹیکس چھپانے کے راستے تلاش کریں گے تو پھر باقیوں سے ٹیکس لینے کا تقاضا کیسے کریں گے پانامہ پیپرز کی اشاعت پاکستانی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گی ؟ نواز شریف کے لئے کتنا مشکل ہو گا کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کرسکیں ۔بالخصوص مریم  نواز کا جسے وہ اپنی سیاسی جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں ؟

ان سب سوالوں کے جواب کے لئے ہمیں آپ کی رائے درکار ہے جو انہی صفحات پر شائع کی جائے گی

نوٹ : آپ کی رائے جامع، واضح ، با مقصد اور مختصر ہونی چاہئے۔اپنی رائے اور الفاظ کے استعمال میں انتہائی احتیاط کیجئےتاکہ کسی بھی فرد کے جذبات مجروح ہونے کا خدشہ نہ  ہو ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...