تاریخ ، انسان اور ہم

1,512

معاشرہ وہی کامیاب ہوتا ہے جہاں عدل اور انصاف اساس کے طور پر شامل ہوتا ہے۔ سستا اور فوری انصاف ہی انسانوں کے احساس تحفظ کو بڑھاوا دیتا ہے اور انہیں وہ اعتبار دیتا ہے جس پر ایک انسان دوسرے انسان کے لیے مفید اور ہمدردانہ وجود رکھنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔

اس دنیا میں بہت سی اقوام ایسی ہیں جن کی تاریخ کو سیاہ ترین اوراگریہ کہا جائے کہ شرمناک رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔دوسری اقوام پر ظلم الگ لیکن انہوں نے اپنوں میں اور اپنوں پرسیاسی سماجی سطح پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے ہیں کہ الامان و الحفیظ، ایسی تاریخ کو ہر طالب علم بخوبی جانتاہے۔آج جو بھی اقوام ہمیں ترقی یافتہ نظر آتی ہیں انہیں یہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی آسان سفر طے کرنا نہیں پڑا بلکہ معاشرت ، معیشت،سیاست اور ثقافت کے ایسے مراحل سے گزرنا پڑا ہے کہ اگران صعوبتوں کو ضبط قلم میں لایا بھی جائے تو افسانہ لگے۔
معاشرہ امن اور سکون کا حامل ہو اور لوگ مثالی زندگی گزار سکے، سوال یہ ہے کہ یہ ہوتا کیسے ہے؟ میری دانست میں اس سوال اور تجسس کے پیچھے اگر اس کی شدید طلب بھی ہو تو کچھ بات بنے وگرنہ اپنی اپنی انفرادی جان بخشی تو حیوان بھی چاہتا ہے۔اپنے اور اپنے بچوں کا تحفظ کسی حد چرند پرند بھی کامیابی سے کرتے رہے ہیں۔یہ تو ایک خالصتاً فطری عمل ہے جو حالت اضطرار میں بھی سرزد ہوجاتا ہے۔جبلت ایک ودیعت شدہ خصوصیت ہے چونکہ عموم کو یہ صلاحیت حاصل ہے تو اتنی اہمیت کے ساتھ اس پر بحث نہیں کرتے ۔چونکہ دنیا میں جانداروں میں جو جاندار اپنے ہم جنسوں کو جس حد پر جاکر نقصان پہنچا سکتا ہے وہ انسان ہے۔بہتر ہے ہم انسان کے بارے میں کچھ بات کریں، سمجھیں اور  سوچیں ۔
فی زمانہ انسان ایک پیچیدہ موضوع بنتا جا رہا ہے۔ آن کی آن میں چھوٹی سی ایجاد کے ساتھ اربوں انسانوں کی جان بچاتا ہے تو دوسری طرف محض خالی خولی نعروں سے لاکھوں کی جان بھی لے لیتا ہے۔ اپنے دوست پر جان دیتا ہے تو اپنے د شمنوں کی جان بھی لیتاہے۔موجودہ تناظر میں دنیا کے گوش و کنار سے ہم خیال لوگوں کے گروپ تشکیل پاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع سمجھ کر اپنے سے ہر مختلف انسان کو تہہ تیغ کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ کسی کی زندگی کو تنکا برابر نہیں سمجھتے ۔ جیسا کہ معمولی سا مائیکرواسکوپک وائرس سے متاثرہ مریض بہت ہی مہنگے اور بڑے علاج کا متقاضی اور محتاج ہوتاہے ایسے ہی ایسے افکار پر خط بطلان کھینچنے کے لیے ساری دنیا کی اجتماعی دانش کا نفوذ درکار ہوتا ہے۔
سو سال کے لگ بھگ علامہ اقبال کی ایک نظم ہوتی ہے ’’محاورہ مابین خدا و انسان‘‘یعنی خدا اور انسان کے بیچ گفتگو، اس نظم میں زیر بحث ایسے نکات کو قریب قریب شعر کے پیرایے میں بیان کیا گیا ہے ۔چونکہ ہماری عادت ہی بگڑی ہوئی ہے کہ جب تک شعر یا کہانی نہ سنائی جائے بات پلے نہیں پڑتی۔ سوعرض خدمت ہے ہمارے دوست محمد وارث صاحب کے ترجمہ کے ساتھ:
محاورہ مابین خدا و انسان
’’خدا‘‘
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔

من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
تو نے اس (فولاد) سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔
’’انسان‘‘
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
تو نے جنگل، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔
علامہ محمد اقبال ۔ پیامِ مشرق
اس نظم کا مقصد یہ لیا جائے کہ انسان عجب تماشا ہے اورخود ہی تماشا گر ہے۔جو اپنی زندگی اور موت کے بارے میں مکمل شعور رکھتا ہے۔ بات شروع میں ان انسانوں کی ہورہی تھی جنہوں نے فیصلہ کیا کہ جینا ہے اور جینے دینا ہے۔انہوں نے امن اور انصاف کو معاشرے کا موٹو بنایا او ر قانون فقط زندگی کو سہل بنانے کے لیے بنائے نہ کہ کسی چودھراہٹ اور ظلم در ظلم سلسلوں کے لیے۔ معاشرہ وہی کامیاب ہوتا ہے جہاں عدل اور انصاف اساس کے طور پر شامل ہوتا ہے۔ سستا اور فوری انصاف ہی انسانوں کے احساس تحفظ کو بڑھاوا دیتا ہے اور انہیں وہ اعتبار دیتا ہے جس پر ایک انسان دوسرے انسان کے لیے مفید اور ہمدردانہ وجود رکھنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔اجتماعی زندگی کی خاصیت ایثار اور اخلاص ہوتی ہے۔
نکتہ یہ ہے یہی ایثارانہ جذبہ اور خلوص کا مادہ کسی بھی انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ کمترین وسائل پر بہترین محنت کرے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنائے۔ہمارے معاشرے کے ارکان ایک بار ضرور سوچے کہ وہ بھی روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی طرح کا انسان ہیں صرف زندہ رہنا ہے تو یہ ممکن ہے لیکن کیسے اورکس طرح کی زندگی بسرکرنا ہے تو یہ کارے دارد۔۔۔ یہ محض خواہش نہیں ہونی چاہییے بلکہ شدید ترین خواہش ہونی چاہیے ۔۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...