عسکریت پسندوں کی واپسی اور بحالی

969

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک روزہ ورکشاپ کا احوال

پاک انسٹی ٹیوٹ  فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام انسداد شدت پسندی  پر مشاورت کے لیے تشکیل دیے گئے  دوسرے گروپ   کی  ورکشاپ 27 مارچ 2017ء   کواسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل  میں   بعنوان” عسکریت پسندوں کی واپسی اور بحالی ” منعقد ہوئی جس میں عامر رانا، طارق کھوسہ ، طارق پرویز ،لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) مسعود عالم ، ڈاکٹر خالد مسعود ،خالد عزیز اصغر چوہدری، افراسیاب خٹک ،برگیڈئیر (ر) محمد فیاض ،خورشید ندیم ،سید عارفین ،ایم ضیاءالدین ،کالعدم تنظیموں کے نمائندگان کے علاوہ  چند ابزرورز(سامعین)  نے شرکت کی۔مہوش رانی نے   ورکشاپ کا پس منظر بتاتے ہوئے  پوری دنیا میں  عسکریت پسندوں کی واپسی کے لیے  رائج ماڈلز پر پریذنٹیشن دی۔

پاک انسٹی ٹیوٹ  فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹرمحمد عامر رانا نے      اپنی پریذنٹیشن کے دوران کہا کہ  فرقہ واریت ہی عسکریت پسندی کی جڑ ہے،جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہو گا انتہا پسندی کوایندھن فراہم ہوتا رہے گا، انہوں نے،سعودی ماڈل،انڈونیشیا ماڈل، اور الجزائر ماڈل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی  اپنے  زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی انداز میں کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 237 مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں اور شدت پسندی کے حوالے سے ملک کا منظرنامہ بڑا پیچیدہ ہے۔ایک دور میں ڈاکٹر فاروق  مرحوم  عسکریت پسندوں کی واپسی کے حوالے سے انفرادی طور پر بڑا اہم کام کر رہے تھے لیکن انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔عامر رانا کے مطابق  جن گروپوں کے   پاکستان میں انفراسٹرکچر  بھی ہیں ان کو پریشرائزڈ کیا جا سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی اپنے انفراسٹرکچر کی قربانی نہیں دینا چاہتا۔

صدر مجلس طارق  پرویز  نے کہا کہ   انسداد شدت پسندی کی بات کرنے سے قبل  شدت پسندی کی بات  کرنا ضروری ہے،ہمارا خیال تھا کہ  سارے انتہا پسند مدرسہ سے آتے ہیں لیکن ایک مرتبہ ہم نے سروے کیا تو   معلوم ہوا کہ مدرسہ سے آنے والوں کی تعداد تیس فیصد تھی،پھر باقی کہاں سے آتے ہیں؟ اس لیے جو بھی پالیسی بنائی جائے  وہ سائنٹیفک ریسرچ کی بنیاد پر  بنائی جائے۔

جنرل(ر) مسعود عالم نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جڑوں کو اکھاڑنے کی بجائے  پتوں کو جھاڑ رہے ہیں،اگر کوئی انتہاپسند لیڈر اپنی پارٹی ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ماتحت نیا گروپ بنالیں گے،اس لیے  جب تک ہم معاشرے کو ٹارگٹ نہیں کریں گے یہ مسئلہ یوں ہی کھڑا رہے گا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین خالد مسعود نے کہا کہ دارالافتاء  کو عدالت کے ماتحت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا،انہوں نے کہا کہ  تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی  ریاست نے دارالافتاء کو اپنی تحویل میں لیا تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا  گیاجس کی وجہ سے معاشرے کو نقصان پہنچا۔ مذہبی  انٹرپریٹیشن مذہبی طبقہ کی ہی مؤثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ    مذہب عقیدے کا نام ہے لیکن آپ نے اسے  پروفیشن بنا دیا ہے،اسلام تو یہ لے کر نہیں آیا کہ کسی ایک طبقے کے ساتھ فیتھ کو خاص کر دیا جائے،نمازیں پڑھانا اور نکاح پڑھانا ہر مسلمان کا کام ہے لیکن ہم نے یہ سب کام مولوی کو سونپ کر  مولوی ازم کو فروغ دیا،اس لیے ہمیں اپنے آپ سے ڈی ریڈیکلازیشن کی ابتدا کرنی چاہیے۔

دوسرے سیشن   میں دو کالعدم تنظیموں کے عہدے داران  نے اپنی اپنی جماعت کی پوزیشن واضح  کرنے کی کوشش کی اور  ورکشاپ کے کہنہ  مشق پینل  کے تلخ سوالات  کا سامنا کیا۔کالعدم  گروہوں   کے نمائندوں کو مکالمے  میں شریک کرنے کا  مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی پالیسی  طے کرنے سے قبل  ان کا نقطہ نظر بھی سامنے آ جائے تاکہ  جو بھی حکمت عملی  طے   پائے وہ پریکٹیکل  ہو۔

کالعدم اہلسنت ولاجماعت کے سربراہ  مولانا احمد لدھیانوی نے اپنے مفصل  خطاب میں   کالعدم سپاہ صحابہ  کی بنیاد کا پس منظر بتایا اور اسے انقلاب ایران سے جوڑا، انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی جماعت تکفیریت کی مرتکب رہی لیکن  یہ رد عمل تھا نہ کہ عمل۔ اور 2003 سے  ان کی  جماعت  نے اپنے پلیٹ فارم سے تکفیری نعرے لگانے بھی  ترک کر دیے۔کالعدم جماعت کے سربراہ نے  لشکر جھنگوی سے اختلافات  بھی واضح کیے اور بتایا کہ  یہ جماعت کس طرح ان کے لیے    نقصان دہ ثابت ہوتی رہی اور نوبت بہ ایں جارسید کہ  سپاہ صحابہ کے ایک رہنما کے قتل میں بھی لشکر جھنگوی ہی ملوث تھی۔

انہوں نے کہا کہ  اب  حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم  بھی قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں،  اگر بلوچوں  کو پیسے دے کر  قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں  تو ہمیں    کیوں قبول نہیں کیا جاتا؟ ہمیں بھی جینے کا حق حاصل ہے،ریاست ہمارے لیے  جو بھی ضابطہ طے کرے گی ہم اس کی پابندی کریں گے۔

خورشید ندیم کے اس سوال  کہ  تکفیر کا نعرہ ترک کرنے کے بعد   اب جماعت کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ کے جواب میں مولانا نے کہا  کہ  اس سلسلہ میں ہماری  جے یو آئی سے بات چل رہی ہے اور حال ہی میں جھنگ سے ضمنی الیکشن جتنے والا ہمارا رکن اسمبلی    مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں شامل ہوا ہے،ہم نے  مولانا فضل الرحمن  سے کہا ہے کہ اگر وہ مذہب  و سیاست کو ساتھ لے کر چلیں تو ہم ان کے ساتھ ضم ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔

عامر رانا کے ایک سوال کے جواب میں  مولانا لدھیانوی نے کہا   کہ کفر کا فتویٰ لگانا اور کفر کا نعرہ لگانا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں،فتوی ٰدینا مفتیوں کا اختیارہے ہمارا نہیں،اس لیے اگر کہیں سے کفر کا فتوی آتا ہے تو اس کے لیے مفتی حضرات ہی جوابدہ ہوں گے،ہمارے اختیارمیں اتنا ہے کہ  ہم تکفیر کے نعرے کو کنٹرول کریں جو کہ ہم کر رہے ہیں۔

 جماعت الدعوہ کے رہنما اور حافظ سعید کے بھائی  مسعود کمال الدین   نے اپنی  گفتگو میں  جماعت کی  تعلیمی  اور رفاہی  خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ    ہم سمجھتے ہیں کہ شدت پسندی کے فروغ میں  اہم عنصر تکفیر  اور خارجیت کا ہے اور ان کی جماعت نے  تکفیر کے اسباب کو اسلامی نقطہ نظر سمجھنے کے لیے اس پر علمی کام کیاہے،اور خدمت خلق میں ہمارا ذیلی ادارہ فلاح انسانیت پیش پیش ہےکشمیر ایشو  پر اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف وہی ہے جو  ریاست پاکستان کا ہے،ہمارے خلاف انڈیا اور میڈیا  کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر  عالمی پابندیاں لگوئی گئیں۔

خورشید   ندیم نے  جماعت الدعوہ رہنما کی گفتگو پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت  مسئلہ  کشمیر پر اخلاقی  و سیاسی حمایت تک محدود نہیں ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جماعت کشمیر کا حل جہاد میں سمجھتی ہے اور اسی لیے کشمیر میں شہید ہونے والوں کے  جنازے  جگہ جگہ پڑھاتی ہے۔انہوں نے یہ استفسار کیا کہ  جماعت کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا یہ فلاحی جماعت ہے یا سیاسی ؟

اس کے جواب میں  مسعود کمال الدین نے کہا کہ  ہمارا ایک شعبہ تو ریلیف کا کا کرتا ہے لیکن  ہم نظریاتی اور اصلاحی سیاست پر بھی یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے جماعت لدعوہ اور لشکر طیبہ کو دو الگ الگ جماعتیں قرار دیا اور کہا  کہ اول  الذکر جماعت پاکستان کی ہے  اور ثا نی الذکر  جموں کشمیر کی۔

جنرل (ر) امجد شعیب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ  جس ملک میں 17 علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہوں  اسے کمزور کرنے کے لیے کسی حافظ سعید کی ضرورت نہیں رہتی،انہوں نے کہا کہ 2003 کے بعد پاک آرمی نے کسی بھی جہادی گروپ کو سپورٹ نہیں کیا،پٹھانکوٹ حملے کے بارے میں خود انڈیا اعتراف کر چکا ہے کہ اس میں پاکستان کسی طرح بھی لوث نہیں،یہی حال اڑی حملے کا بھی ہے۔

آخری سیشن   میں   عسکری گروہوں کی واپسی کے لیے  متفقہ طور پر حکمت عملی طے کی گئی اور  درج ذیل سفارشات مرتب کی گئیں ۔

  • عسکریت پسندی کو فروغ دینے والے اسباب کا جائزہ لیا جائے
  • کالعدم تنظیموں کے معاملات کا جائزہ نیکٹا لے،
  • انسداد دہشت گردی کے قوانین کا ہر تین سال بعد جائزہ لیا جائے

آخر  میں  جناب طارق پرویز نے صدارتی خطبہ میں  موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی،انہوں نے  ورکشاپ کے میزبان  اور پپس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا  کی کوششوں کو سراہا اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم موضوع تھا جسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے،یہ موضوع چلتا رہے گا اور اس پر اٹھنے والے  سوالات کے جوابات آتے رہیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...