اقتدار و اختیار کی کشمکش

1,353

جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے عملدرآمد بنچ نے5سماعتوں کے بعد 21جولائی کو سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ فیصلہ کب تک محفوظ رہتا ہے ؟
پانامہ پیپرز کے بعد ہونے والی سیاسی کشمکش و عدالتی کارروائی پر نظری سیاسی تناظر میں مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ ارادی یا مفاداتی تناؤ کی بنیاد پر داخلی کشمکش و کھینچا تانی میں الجھی ہوتی ہے اور ایک دوسرے فریق یا بہ الفاظ دیگرحکمران کلب کے رفیق کے خلاف زور و شور سے چور چور کا واویلا کرکے اپنے حصے کی دولت،طاقت و مراعات میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس حمام میں کوئی ایک بھی صادق و امین نہیں نہ لغوی معنوں میں نہ ہی ان غیر مبہم آئینی تفسیر و تعریف کے پس منظر میں جو کتاب آئین میں درج ہے۔

معاملہ لوٹ مار یا کرپشن کا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں یہ یقین دلانا ہے کہ اس کھیل کے سبھی کھلاڑی یکساں طور پر ایک جیسے کردار کے مالک ہیں اور ان کے پاس کوئی موقع یا مواقع نہیں کہ کسی ایک کو دوسرے پر محض شخصی کردار و اوصاف حمیدہ کی بنا پر ترجیح دے سکیں۔

دوران سماعت عملدرآمد بنچ کا رویہ،جے آئی ٹی کے معاملات اور اس پر ہونے والے اعتراضات و توصیفی کلمات،مزید یہ کہ گارڈ فادر اور مافیا قرار دینے والے تبصرے سبھی کچھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ سب کردار اسی کھیل کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہیں اور دیدہ و نادیدہ ہر کوئی اپنے مال و متاع کا تحفظ چاہتا ہے۔باقی سب کچھ چور مچائے شور کے زمرے میں آنے والا واویلا ہے۔
اس کھیل میں درمیانی طبقے کا کردار بھی بہت اہم ہے۔مارکس کے الفاظ ہیں اس طبقے  کے پاؤں ہمیشہ کیچڑ میں مگر نظریں آسمان کی جانب لگی ہوتی ہیں اور یہی طبقہ جمہوری عمل کے موقع پراپنے اسی کردار کا اعادہ کرے گا۔دیکھنا یہ ہوگا کہ اگلے مرحلے میں کون سی جماعت یا شخصیت آسمانی قوتوں کی نمائندگی کررہی ہوگی۔
عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات کی تفصیل سامنے رکھتے ہوئے ماضی قریب و بعید کے زیر التوا یا خارج مقدمات سے لے کر این آر او سے مستفید ہونے والے افراد تک،حالیہ مہم میں بڑھ چڑھ کر شریک ہیں اور اسے وہ احتساب کا نام دے رہے ہیں۔کیا ہمیں اس خود فریبانہ دھوکے کا شکار ہوجانا چاہیے؟یا ان  مسائل کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے گندے انڈے دینے والی اس مرغی(معاشی نظام) کو ختم کرنے کی  جدوجہد کرنی چاہیے جوناگزیر طور پر مالی بدعنوان،اجارہ داری،بالادستی اور ارتکاز کے ذریعے معاشی و سماجی عدم مساوات پیدا کرتا اور انسانوں کو تقسیم کرکے مختلف درجوں میں بانٹ کر ان کی تذلیل کا سامان پیدا کرتاہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر فوری طور پر ملک میں کوئی ایسی قوت نمودار ہو جائے جو رائج معاشی نظام کو جو فرسودہ ہو چکا ہے جڑ سے اکھاڑ دینے کے عزم اور نظریات پر یقین رکھتی ہو تو پانامہ پانامہ کھیلنے والے سبھی کھلاڑی فوراً متحد ہو کر اپنے طبقے کی بالادستی و ثروت مندی کیلئے چیلنج بننے والے اس حقیقی خطرے کے خلاف ،اسلام اور پاکستانی خطرے میں ہے کہ نعرے و پرچم تلے یکجا ہو جائیں گے ۔
سیاسی پس منظر میں اس مسئلے کا جائزہ ثانوی طور پر مختلف ہوسکتا ہے مگر بنیادی تصور کی حدود سے مختلف نہیں۔
مقتدرہ حلقے میں موجود کمی و بیشی اور توازن میں تفسیر سے خدشہ ہے کہ اقتدار کے ساتھ اختیار بھی،پارلیمانی حلقے کی جانب لڑھک سکتا ہے۔اس کا آغاز سینیٹ کے انتخابات کے نتائج سے ہوگا۔موجودہ صوبائی اسمبلیاں اگر سینیٹ کے52 ریٹائرڈ ہونے والے ارکان کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو امکان غالب یہ ہے کہ مقتدر سیاسی کلب میں سے جدید صنعتی و تجارتی طبقے کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ کو ایوان بالا میں بالادستی میسر آجائے گی۔مرکنٹائل کلاس کے ہاتھ میں ایوان بالا کی قوت،اگلے عام انتخابات میں ایوان زیریں میں اپنی دستیاب سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے امکانات کے واضح تصور کے ساتھ مل کر طاقتوروں کیلئے ایک ممکنہ بھیانک منظر نامہ مرتب کرتا ہے۔خدشہ ہے کہ نئی صورتحال میں نواز شریف جو ملک میں مرکنٹائل طبقے کا سیاسی ترجمان ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد تمام تر اختیارات کا صرف طلب گار نہیں ہوگا بلکہ شاید وہ آئینی و قانونی ذرائع بروئے کار لا کر اقتدار کے مرکزی سانچے کے خدوخال ہی بدل دے گا۔
فطری امر یہ ہے کہ تجارتی و صنعتی سرمایہ کاری،بمعہ صنعتی کارکنان،آخری تجزیے میں معیشت کو پیداواری بنانے پر متفق ہو جاتے ہیں۔پیداواری صنعتی ساختہ مارکیٹ،خام مال اور صارفین کی تلاش میں سرگرم ہوتا ہے چنانچہ پاکستان میں ابھرتی ہوئی معاشی و سیاسی قوت،عالمی سرمایہ کاری میں اپنا حصہ لینے کیلئے پرامن ماحول اور معاشی مسابقت،علاقائی تعاون و باہمی تجارت کے امکانات بڑھانے والی،قومی سلامتی پالیسی کو ترجیح دے سکتی ہے ایسے میں نادیدہ اور پیوستہ معاشی مفادات،مراعات پر ضرب پڑ سکتی ہے۔اسی دور دراز خدشے نے طاقتوروں کو مفلوج اور معلق پارلیمنٹ قائم کرنے پر آمادہ کر رکھا ہے چنانچہ مختلف مراحل و مشکلات پیدا کرکے ایک ایسی نئی منتخب جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کی جارہی ہے جو اقتدار پر اکتفا کرلے مگر اختیارات کی اہل ہو نہ طالب۔
پانامہ کیس سے نکلنے والے تمام خدشات و امکانات کی یہی مختصرتوجیح ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...