خلیج کا بدلتا ہو ا منظر نامہ اور پاکستان

پاک ا نسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام سمینار کی روداد

1,995

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز گزشتہ دس سال سے مختلف فکری و نظری مسائل پر بحث مباحثوں اور علمی تحقیق میں مصروف عمل ہے ۔پاکستان کا رشتہ خلیجی ممالک سے صرف جغرافیائی ہی نہیں بلکہ مذہبی ، سیاسی اور معاشی بھی ہے ۔ خلیج کی صورتحال روز بروز نئی شکل اختیار کر رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان براہ راست متاثر ہو سکتا ہے ۔اسی پس منظر میں ادارے نے 26جولائی کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک سمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان ’’خلیج کی بدلتی ہوئی صورتحال اور پاکستان پر اس کے ممکنہ اثرات ‘‘ تھا ۔ سیمینار میں خلیجی  امور کے ماہرین سمیت ،مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور صحافیوں نے شرکت کی ۔ سیمینار کی صدارت سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے کی ۔ جبکہ شرکا میں عرب صحافیوں ہیتم نصیر ، عبد الرحمٰن مطار ،ابو فضل محمد امین ، ادارہ فکر و عمل کے ایگزیکٹوڈائریکٹر آصف لقمان قاضی ، کالم نگار و اینکر خورشید ندیم ، عرب سکالر ڈاکٹرابو محمد یزید ،ثاقب اکبر، ارشاد محمود اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا شامل تھے ۔

پاکستان کا خلیج کی بدلتی ہوئی صورتحال سے براہ راست تعلق ہے داعش سمیت کئی عسکری تنظیموں کے پاکستانی عسکری تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں، محمد عامر رنا

محمد عامر رانا نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ خلیج کی صورتحال غیر یقینی ہے اور یہ لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے۔وہاں غیر ریاستی عناصر متحرک ہیں ۔داعش پر فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں مگر اس کے ساتھ نئے عناصر بھی جنم لے رہے ہیں ۔ پاکستان کا خلیج کی بدلتی ہوئی صورتحال سے براہ راست تعلق ہے داعش سمیت کئی عسکری تنظیموں کے پاکستانی عسکری تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں۔ وہاں داعش کی شکست کے بعد نئے عناصر متحرک ہو رہے ہیں پاکستان کو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خو دکو تیار کرنا ہو گا ۔

پاکستان  خلیج میں اپنے فوجی اڈے قائم کرے ۔کیونکہ پاکستان کی بڑی ورک فورس خلیج میں کام کر رہی ہے اگر ترکی امریکہ اور یورپی ممالک کے خلیج میں فوجی اڈے ہو سکتے ہیں تو پاکستان کے کیوں نہیں ؟ عرب صحافی عبد الرحمٰن مطاہر

 عرب صحافی عبد الرحمٰن مطاہر نے کہا کہ مسلم دنیا عرب و عجم میں تقسیم ہو چکی ہے ۔خلیج میں اسرائیل کے قیام کے بعد عدم استحکام ہے ۔ عرب اسرائیل کے خلاف چار جنگوںمیں شکست کھا چکے ہیں ۔اسرائیل اپنے وسائل اور ڈپلومیسی سے خلیج کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے ۔اس میں پاکستان سب سے اہم ملک ہے ۔پاکستان فوجی حوالے سے ایک طاقتور ملک ہے  اگر پاکستان نے خلیج میں اپنے مفادات کا تحفظ نہ کیا تو صورتحال اس کے دشمنوں کے ہاتھ میں جا سکتی ہے ۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان  خلیج میں اپنے فوجی اڈے قائم کرے ۔کیونکہ پاکستان کی بڑی ورک فورس خلیج میں کام کر رہی ہے اگر ترکی امریکہ اور یورپی ممالک کے خلیج میں فوجی اڈے ہو سکتے ہیں تو پاکستان کے کیوں نہیں ؟انہوں نے کہا کہ داعش افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے اگر خلیج کا نقشہ بدلتا ہے تو پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہو گا ۔اس لئے پاکستان خلیج میں فوجی حوالے سے مؤثر پالیسی بنائے ۔

گزشتہ بیس سال سے پاکستان کا خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ بھی نہیں ہو سکا ۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان خلیج کی بدلتی ہوئی صورتحال سے مطابقت نہیں پیدا کرے گا تو حالات اس کے مخالف بھی ہو سکتے ہیں ، عرب صحافی ہیئت النصیر

عرب صحافی ہیئت النصیر نے کہا کہ خلیج میں حالیہ تبدیلیاں ٹرمپ کے دورے کے بعد آئی ہیں اس لئے پاکستان ان پر گہری نظر رکھے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ؟ پاکستانی وزارت ِ خارجہ خلیج کو ماضی کے آئینے میں دیکھ رہی ہے جبکہ حالیہ حرکیات قطعی طور پر مختلف ہیں جو بڑی حد تک ڈرامائی ہیں ۔مثال کے طور پر ماضی کی نسبت عرب ممالک بھارت کے قریب ہو رہے ہیں متحدہ عرب امارات نے بھارت کے ساتھ 76ارب ڈالر کے معاہدے کئے ہیں ۔سعودی عرب نے 18ارب ڈالر کادفاعی معاہدہ کیا ۔اگر بھارت ،عرب ممالک سے اتنے فائدے اٹھا سکتا تو پاکستان کیوں نہیں ؟انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مشرق َ وسطی ٰ کے حوالے سے کوئی انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے نہ ہی یونیورسٹیوں کے مطالعاتی مراکز ہیں اس لئے پاکستانی خلیج کو گہرائی سے نہیں جانتے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ بیس سال سے پاکستان کا خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ بھی نہیں ہو سکا ۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان خلیج کی بدلتی ہوئی صورتحال سے مطابقت نہیں پیدا کرے گا تو حالات اس کے مخالف بھی ہو سکتے ہیں ۔

پاکستان سیاسی طور پر مشرق ِ وسطی ٰ کا ہی حصہ ہے اس لئے یہ صورتحال  میں خاموش نہ رہے بلکہ اپنا کردار ادا کرے ، عرب سکالر ڈاکٹر محمد یزید

 عرب سکالر ڈاکٹر محمد یزید نے  سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے توانائی کے 70 فیصد ذرائع مسلم ممالک کے پا  س ہیں ۔اس لئے مغربی ممالک  ہمارے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ۔ان تمام تنازعات کے پیچھے اصل مسئلہ توانائی کا ہے۔انہوں نے کہا مسلم ممالک تہذیبوں کے تصادم کے نظریئے پر یقین نہیں رکھتے مگر  ان کے دشمن اس پر یقین رکھتے ہیں نئے تنازعات کا ایک پس منظر یہ بھی ہے ۔عرب ممالک کو آپس کے مسائل کا حل مزاکرات سے نکالنا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سیاسی طور پر مشرق ِ وسطی ٰ کا ہی حصہ ہے اس لئے یہ صورتحال  میں خاموش نہ رہے بلکہ اپنا کردار ادا کرے ۔پاکستان عربی چینل کھولے تاکہ وہ اپنا مؤقف عرب دنیا اور مغرب تک پہنچا سکے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم

ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے ۔لیکن ہم ابھی تک مسلم امہ کے تناظر میں مسائل کو دیکھ رہے ہیں ۔مسلم امہ کا تصور روحانی طور پر توہو سکتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے ۔پاکستان کو امت کے نام پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، خورشید ندیم

معروف کالم نگار ، دانشور اور اینکر پرسن خورشید ندیم نے کہا کہ پاکستان میں خلیج کے مسئلے پر کافی ابہامات پائے جاتے ہیں ۔پہلا ابہام تو یہ ہے کہ مسلم امہ کوئی سیاسی قوت ہے اور اس کے مفادات بھی ایک جیسے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں توایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔مسلم  ممالک دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد قومی ریاستوں میں تقسیم ہوئے ،انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مشرق ِ وسطی ٰ کے بارے میں رائے مسئلہ فلسطین اور انقلاب ِ ایران کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان نے اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی نہیں بدلی حالانکہ کئی عرب ممالک بدل چکے ہیں ۔ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں ایک لہر اٹھی کہ جیسے کوئی عالمگیر انقلاب آ گیا ہو ۔پاکستان کی جماعت اسلامی اور مصر کی اخوان المسلمین نے اسے اسلامی انقلاب گردانتے ہوئے اس کا ساتھ دیا ۔حالانکہ یہ اسلامی انقلاب نہیں بلکہ شیعہ انقلاب تھا ۔اور اس کے بعد مشرق ِ وسطی ٰ کی کئی ریاستوں نے اس سے خوف زدہ ہو کر اس کو فرقہ وارانہ شناخت دی  اور ہمیں بتایا گیا کہ شیعہ اور سنی ایک نہیں بلکہ متضاد ہیں  ۔خورشیدندیم نے کہا کہ جہاد افغانستان میں جو تنظیمیں  شریک تھیں وہ اصلا ً سنی اور سلفی تنظیمیں تھیں جو ا س کے بعد فرقہ وارانہ ہو گئیں ۔زرقاوی کی تحریک دراصل شیعہ مخالف تھی جو القاعدہ سے اٹھی اور داعش کی شکل اختیار کر گئی  ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اسی طرح کاایک ملک ہے جس طرح کہ سعودی عرب ہے ۔ہر  ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے ۔لیکن ہم ابھی تک مسلم امہ کے تناظر میں مسائل کو دیکھ رہے ہیں ۔مسلم امہ کا تصور روحانی طور پر توہو سکتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے ۔پاکستان کو امت کے نام پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مفاد ات مسلم امہ کے تناظر میں نہیں بلکہ قومی ریاستوں کے تناظر میں ہیں ۔پاکستان اس جنگ میں کرائے کے سپاہی کا کردار ادا نہیں کر سکتا ۔ یمن ہو یا افغانستان یا قطر ،ہمیں قومی مفادات کے تناظر میں سوچنا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ عموماً ہماری پالیسی اور ہوتی ہے اور لوگوں کے جذبات دوسری سمت ہوتے ہیں ہماری ریاست اور معاشرے کو وحدت ِ فکر کی ضرورت ہے ۔

دنیا میں  دہشت گردی کے پیچھے بیرونی مداخلت کار فرما ہے اسرائیل مسلمانوں اور اسلام کا تصور تباہ کر رہا ہے ۔

پاکستان میں فرقہ واریت میں دوسرے ممالک کے ساتھ پانچ مسلم ممالک بھی ملوث ہیں ۔ عرب بہار کو بھی فرقہ واریت کا رنگ دےکر دبا دیا گیا ہے ،آصف لقمان قاضی

ادارہ فکر و عمل کے سربراہ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ خلیجی ریاستوں کا اخلاقی جواز نہیں ہے وہ استعمار کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں ۔وہاں جمہوریت کی ضرورت ہے ۔عرب ممالک کے عوام نے اخوان المسلمین کے حق میں ووٹ دیا تو آمرانہ حکومتوں میں خطرے کی گھنٹیا ں بج اٹھیں ۔چنانچہ خطے میں ایک نئی گیم شروع کر دی گئی ۔شیعہ سنی تصادم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔انہوں نے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت میں دوسرے ممالک کے ساتھ پانچ مسلم ممالک بھی ملوث ہیں ۔انہوں نے کہا کہ عرب بہار کو بھی فرقہ واریت کا رنگ دے کر دبا دیا گیا ہے ۔مصر میں مرسی حکومت کے خاتمے پر ہمیں کھڑا ہو نا چاہئے تھا مگر سوائے اردگان کے کسی مسلم حکمران میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کھڑا ہوتا ۔

سعودی قیادت ناپختہ ہاتھوں میں ہے جو ملک پہلے ہی سوا سو ارب ڈالر کے خسارے کا بجٹ پیش کرتا ہے وہ امریکہ کے ساتھ 360رب ڈالر کے معاہدے کر لیتا ہے ۔سعودی عرب میں وہ علاقہ جہاں تیل نکلتا ہے وہاں شیعوں کی اکثریت ہے جہاں کسی  بھی وقت آگ بھڑک سکتی ہے، ثاقب اکبر

البصیرۃ  کے سربراہ ثاقب اکبر نے کہا کہ  اسرائیل کا قیام برطانیہ کہ وجہ سے ہوا مگر ایران کے انقلاب کو خطے میں امریکہ کی شکست سے موسوم کیا جاتا ہے ۔جب تہران میں اسرائیل کے سفارتخانے کو یاسر عرفات کی تنظیم الفتح کے حوالے کر دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ آج شام میں امریکہ کو الگ کر کے دیکھا جا رہا ہے عراق میں داعش کے پاس بہت کم علاقہ رہ گیا ہے ۔اب امریکہ عراق ، شام ،ترکی اورایران میں  کرد ریاست بنانا چاہتا ہےچنانچہ یہ سارے ممالک بالآخر کردستان کے مسئلے پر اکھٹے ہو جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت ناپختہ ہاتھوں میں ہے جو ملک پہلے ہی سوا سو ارب ڈالر کے خسارے کا بجٹ پیش کرتا ہے وہ امریکہ کے ساتھ 360رب ڈالر کے معاہدے کر لیتا ہے ۔سعودی عرب میں وہ علاقہ جہاں تیل نکلتا ہے وہاں شیعوں کی اکثریت ہے جہاں کسی  بھی وقت آگ بھڑک سکتی ہے ۔انہوں نے کہا پاکستان میں سعودی فوجی اتحاد کی قیادت کے خلاف پارلیمنٹ میں کھل کر آوازیں اٹھی ہیں ۔داعش اور افغانستان کے مسئلے پر پاکستان ،روس ، چین اور ایران ایک نظر آتے ہیں اور وہ خطے میں امریکہ کو منفی کر کے معاملات دیکھ رہے ہیں ۔ خلیج اور پاکستان میں امریکہ کو منفی کر کے پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں یہ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔

مقبوضہ کشمیر میں پچھے تیرہ ماہ میں تحریکِ آزادی نے ایک نئی کروٹ لی ہے مگر کتنے خلیجی ممالک ہیں جنہوں نے خود یا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے مقابلے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، ارشاد محمود

سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ ریفارمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور معروف تجزیہ نگار ارشاد محمود نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھے تیرہ ماہ میں تحریکِ آزادی نے ایک نئی کروٹ لی ہے مگر کتنے خلیجی ممالک ہیں جنہوں نے خود یا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے مقابلے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔گاندھی کے نواسے راج موہن گاندہی یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’کشمیری عوام نے ایک طرح سے رائے شماری کر دی اور بھارت کے خلاف فیصلہ دے دیا ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے مودی کا پاکستان کے خلاف رویہ جارحانہ ہو گیا ہے انہوں نے پاکستان میں علی اعلان گلگت بلتستان اور بلوچستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کی مدد کا اعتراف کیا ہے ۔سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔صرف چھ ماہ کے دوران کنڑول لائن کی 600سے زائد بار خلاف ورزی کی گئی ۔

سعودی عرب کی جانب سے چالیس مسلمان ممالک کا اتحاد کاغذی ہے اس کا نہ تو کوئی سیکرٹریٹ ہے نہ ہی اس کے اصول وضوابط بنے ہیں اس لئے اس اتحاد کا مستقبل خطرے میں ہے، انعام الحق

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے چالیس مسلمان ممالک کا اتحاد کاغذی ہے اس کا نہ تو کوئی سیکرٹریٹ ہے نہ ہی اس کے اصول وضوابط بنے ہیں اس لئے اس اتحاد کا مستقبل خطرے میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 56ہے مگر ان میں سے او آئی سی کی  فیس دینے والوں میں صرف 16ممالک ہیں ۔تما م مسلمان ممالک اپنے ذمہ اقوام ِ متحدہ اور دوسری عالمی تنظیموں کے واجبات باقاعدگی سے دیتے ہیں مگر وہ او آئی سی کے نہیں دیتے اور نہ ہی ان کی شرکت بھی عملی طور پر کوئی معنی رکھتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مشرق ِ وسطی ٰ کی سرحدیں مصنوعی ہیں جس کی وجہ سے کئی قومیں مختلف ممالک میں تقسیم ہو گئی ہیں جن میں کرد بھی شامل ہیں  ۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل فوجی لحاظ سے اتنا طاقتور ہے کہ اس کی فوج اکیلے تمام عرب ممالک کا مقابلہ کر سکتی ہے  ۔ خلیج میں 2001سے غیر یقینی حالات ہیں ۔ پہلے عراق کو تباہ کیا گیا پھر 2005میں اسرائیلی فوجیں لبنان میں گھس گئیں اور امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کی ۔پھر لیبیا کی باری آئی اور جسے عربوں میں سب سے مظبوط ملک تصور کیا جاتا تھا اسے تباہ کر دیا گیا ۔پھر شام کی باری آئی اور اب تک وہاں پر تین لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں ایک چوتھائی ملک سے ہجرت کر کے پناہ گزین بن چکے ہیں ۔پھر سعودی عرب نے یمن پر حملہ کر دیا وہاں بھی شیعہ سنی لڑائی میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں ۔ٹرمپ کے دورے کے بعد قطر جہاں پر امریکی فوجی اڈا بھی ہے اور وہاں دس ہزار امریکی فوجی موجود ہیں  اس کا ایک طرح سے محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔ ٹرمپ بھی کہہ رہا ہے کہ قطر دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے ۔جو مطالبات سعودی اتحادی قطر سے کر رہے ہیں وہ ایک خود مختار ملک سے نہیں کئے جا سکتے ۔آج کے خلیج میں فلسطینی کاز کہیں موجود نہیں ہے ۔جو عرب اسرائیل کے خلاف اکھٹے تھے اب وہ آپس میں دست و گریبان ہیں ۔سعودی ولی عہد جنگ کو ایران کے اندر لے جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہاں پر عرب دوستوں نے تجویز دی کہ پاکستان خلیج میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرے ۔انہوں نے کہا کہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے ا س نے اپنا پہلا فوجی اڈہ حال ہی میں افریقی ملک جبوتی کے اندر قائم کیا ہے ۔جبکہ پاکستان کی معیشت 32ارب ڈالر کے خسارے میں چل رہی ہے 80ارب ڈالر کا بیرونی اور 230ارب ڈالر کااندرونی قرضہ ہے ۔ہم اپنے سفارتی مشن نہیں چلاپا رہے فوجی اڈے کیسے چلائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عرب معیشتیں بحران کا شکار ہیں وہاں سے پاکستانی افرادی قوت واپس آ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ عرب میڈیا نے  مودی کے حالیہ دورہ اسرائیل پر بھارت کے خلاف کتنا لکھا ہے وہاں کی حکومتوں نے کتنا رد عمل دیا ہے ۔اسرائیل بھارت کو اسلحہ بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔عرب ممالک پاکستان کو برادر مسلم ملک نہیں بلکہ اپنے سے کم تر درجے کا سمجھتے ہیں اس لئے ان حالات میں پاکستان  کو خلیج میں فوجی اڈے بنانے کے مشورے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...