نوازشریف گلگت بلتستان کے لوگوں سے کئے گئے وعدے نہیں نبھا سکے

1,470

پانامہ کیس نے جس طرح ملک بھر میں سیاسی درجہ حرارت کو انتہائی حد تک گرمایا ہوا ہے اسی تناظر میں اب گلگت بلتستان میں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے۔ اس حوالے سے قانون سازاسمبلی کے اندر اور اسمبلی سے باہر بھی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے لگی ہے۔دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماوں کی جانب سے گلگت بلتستان کے ایشوز سے متعلق بیانات دینے اور گلگت بلتستان کے لوگوں سے ہمدردی کا جذبہ اچانک ان کے سینوں میں جاگنے لگا ہے۔پانامہ کیس میں پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث وزیر اعظم کا گلگت بلتستان کا مجوزہ دورہ ایک بار پھر منسوخ ہوا ہے۔ دورے کی یہ منسوخی مسلم لیگ ن کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ وزیر اعظم کے اس دورے کے دوران گلگت بلتستان کے اہم منصوبوں میں پیش رفت متوقع تھی۔ بالخصوص اُنھوں نے جگلوٹ سکردو روڈ منصوبے سنگِ بنیاد رکھنا تھا۔کیونکہ وزیر اعظم نے اس روڈ کے منصوبے کا سنگِ بنیاد گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے مرحلے پر ایک انتخابی جلسے کے موقعے پر چودہ اپریل2015 کو رکھا تھا ۔اس منصوبے کی بنیاد پر بلتستان ریجن کے چار اضلاع کے لوگوں نے مسلم لیگ ن کو بھرپور انداز میں ووٹ دے کر کامیاب کرایا ۔ گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان ڈویژن سے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی یہ پہلی کامیابی تھی ۔اس کامیابی کی بڑی وجوہات میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کا نفاذ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو ملکی سطح پر مختلف فورمز پر نمائندگی دیتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا ساتھ ہی بلتستان ڈویژن کے لئے دیگر اعلانات کے ساتھ جگلوٹ سکردو روڈ کی توسیع و تعمیر کے منصوبے پر کام کا نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ وزیر اعظم نے اس منصوبے پر کام کا افتتاح کیا تھا۔اب بہ وجوہ ان دونوں اعلانات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکے ہیں ۔اگرچہ وزیر اعظم کے دیگر کئی بڑے اعلانات پر عمل درآمد ہوچُکے ہیں لیکن کیونکہ یہ جو دو مطالبات جن پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکے ہیں ان کی اہمیت اورافادیت کے پیش نظر دیگر جن اعلانات پر عمل درآمد ہوچُکے ہیں وہ پسِ منظر میں چلے گئے ہیں ۔گلگت بلتستان کے لوگ بجا طور پر میاں نواز شریف کی حکومت سے گلگت بلتستان کو حسبِ وعدہ آئینی حقوق دینے ، گلگت بلتستان کو سی پیک منصوبے میں دوسرے صوبوں کی طرح بلکہ سی کا گلگت بلتستان گیٹ وے ہونے کے ناطے دوسرے صوبوں سے زیادہ حصّہ دئے جانے اور جگلوٹ سکردو روڈ کے منصوبے پر کام کئے جانے کی توقع رکھتے تھے ۔مگر حقیت یہ ہے کہ حکومت ابھی تک گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق دینا تو دور کی بات پیپلز پارٹی کے دور میں دئے گئے سیلف گورننس آرڈر میں ایک چھوٹی تبدیلی لانے کی توفیق نہیں ہوئی ہے۔

سی پیک منصوبے میں بھی گلگت بلتستا ن کو دوسرے صوبوں کی طرح حصہ دینے کے دعوئے اُس روز دم توڑ گئے تھے جب وزیر اعظم نے اسی ؎منصوبے سے متعلق اپنے دورہ چین کے موقعے پر گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو ساتھ لے جانے سے معذوری ظاہر کی۔

اسی طرح خود وزیر اعظم کے ہاتھوں جگلوٹ سکردو روڈکے توسیعی منصوبے کا دو سال سے زائد کا عرصہ گذرنے کے باوجود اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہونا بھی غیر معمولی واقعہ ہے۔ حتٰی کہ اس منصوبے کا ایک بار پھر سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے وزیر اعظم نے خود گلگت بلتستان کا دورہ کرنا تھا لیکن دو بار تاریخیں دینے کے بعد وزیر اعظم کا یہ دورہ نہیں ہو سکا جس کے باعث اس اہم ترین منصوبے پر بھی کام شروع نہیں ہوسکا ہے ۔ اس صورتِ حال میں مسلم لیگ ن کی قیادت اور مرکزی و صوبائی حکومت کو عوام کی جانب سے شدید تنقید اورغیض و غضب کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پانامہ کیس میں حکومت کی پوزیشن کمزور ہونے کے بعد سیاسی میدان میں بھی مسلم لیگ ن اور حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ حال ہی میں قانون ساز اسمبلی کے ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ اسلامی تحریک کے اُمیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حلقے کے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کو کامیاب کرایا جس سے حکومتی جماعت کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اب اسمبلی میں اپناقائد حزب اختلاف لانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ان کا موقف ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی سے بھر پور انداز میں اسمبلی میں حکومت کو ایک مظبوط اپوزیشن کا سامنا رہے گا۔یہ صورتِ حال بھی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

نگر کے ضمنی انتخابات میں اسلامی تحریک کا مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود نہ صرف اسلامی تحریک کو اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ اب اسمبلی میں حکومت کوٹف ٹائم دینے کے لئے پیپلز پارٹی کا اپوزیشن لیڈر لانے کے لئے بھی اسلامی تحریک کے ارکانِ اسمبلی کا بھر پور تعاون حاصل ہے

اس ضمن میں وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے لئے بھی تیار ہیں بلکہ اسلامی تحریک کے ٹیکنو کریٹ رکنِ اسمبلی اس معاملے میں اس حد تک آگے جانے پہ آمادہ ہیں کہ اُنھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر جو ایک نامور قانون دان بھی ہیں کو اسمبلی میں لانے کے لئے اپنی نشست کی قربانی دینے کی بھی آفر دی ہے۔یہ صورت جہاں ایک طرف اسلامی تحریک کیلئے انتہائی پریشان کُن بات ہے وہاں حکومت کے لئے بھی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا ۔ اس ساری صورتِحال سے پیپلز پارٹی بھر پور انداز میں فائدہ اٹھانے کی تیاری میں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے عہدہ داروں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی ۔بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں نگر کے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے راہنما جاوید حسین سے بڑے تپاک انداز میں ملے۔ اس موقعے پر چیرمین پیپلز پارٹی کاکہنا تھا کہ ہم گلگت بلتستان پر بھر پور توجہ مرکُوز کرینگے۔ اس بار گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنائیں گے اور سی پیک کے منصوبے میں بھی گلگت بلتستان کو ان کا جائز حق دینگے۔ انھوں نے گلگت بلتستان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کا کیمپس کھولنے اور صوبہ سند ھ کے مختلف تعلیمی اداروں میں میں گلگت بلتستان کے لئے مختص تعلیمی نشستوں میں اضافے کا بھی اعلان کیا ہے۔ا نھوں نے سندھ میں مقیم طلبا و طالبات کے لئے صوبے میں مذید سہولتیں دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ وہ گلگت بلتستان کا دورہ کریں گے جہاں اہم اعلانات کرینگے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان میں کارکردگی مایوس کُن رہی جس کا خمیازہ اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی بھگت چُکی ہے ۔لہذا پیپلز پارٹی کو ابھی اپنی ساکھ بحال کرنے کئے لئے ابھی سخت محنت کرنا ہوگی ۔ابھی پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں حکومت کے لئے ایک سخت چلینج بننے میں وقت لگے گا لیکن حکومت کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو اس وقت خود اندرونی طور پر بھی تنظیمی بحران کا سامنا ہے ۔ بظاہر کوئی بڑی وجہ سامنے آئے بنا سکردو سے پیپلز پارٹی کے صدر شیخ نثار حسین کا پارٹی عہدہ اور پارٹی کی بنیادی رکنیت کو چھوڑنے کا اعلان کرنا پیپلز پارٹی کے لئے ایک بڑئے دھچکے سے کم نہیں ۔مذید یہ کہ پاکستان تحریک انصاف ابھی دعوہ کررہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مذید عہدہ دار بھی پارٹی چھوڑنے جا رہے ہیں ۔ایسا اگر ہوتا ہے تو یہ پیپلز پارٹی کے لئے موجودہ مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کو گلگت بلتستان میں اس وقت جو زیادہ مشکلات آرہی ہیں تو وہ اس کی ذمہ دار خود حکومت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جب ستمبر 2009 ء میں جب گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا تھا تو اسکو ایک ایکزیکٹیو آرڈر قرار دے کر اس کو ہدفِ تنقید بنانے میں مسلم لیگ ن پیش پیش تھی۔پھراپریل2015 ء میں وزیر اعظم نے اور انتخابی جلسوں میں وفاقی وزرا اور مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت نے تواتر کے ساتھ یہ اعلانات کئے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ بنایاجائے گا۔لیکن بعد میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ بھی سننے کو ملا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ بنانا مسلم لیگ ن کی انتخابی منشور کا حصہ نہیں۔اس سے بڑھ کر یہ کہ گلگت بلتستان کی تاریخ ، آئینی و قانونی حقایق و واقعات کے برعکس گلگت بلتستان کے بٹوارے اور اس خطے کی وحدت کو بھی پارہ پارہ کرنے کی درپردہ کوششیں کیں گئیں ۔لیکن وفاق میں جب حکومت ایک طرف اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے جارہی ہے اور دوسری جانب پانامہ مقدمے کا فیصلہ جو کہ محفوظ ہے اس کے کسی بھی لمحہ سنائے جانے اور امکان ہے اور ماہرین قانون کی اکثریت قومی میڈیا میں اس راے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ وزیر اعظم کے نااہل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں ۔اب اس مرحلے پر گلگت بلتستان کے اوپر ذکر کئے گئے بڑے مسائل کے اس حکومت سے حل ہونے کے امکانات دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں مسلم لیگ ن کو آئندہ آنے والن انتخابات میں بھی عوام کے غیض و غضب کا سامنا رہے گا ۔ ان کی ساکھ کی رہی سہی کسر پانامہ کیس میں مبینہ مالی بدعنوانی پوری کررہی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...