انتشارساانتشار ہے
عالمِ اسلام ایک مرتبہ پھر افتراق میں ہے ۔جوش ٹھاٹیں مار رہا ہے اور دماغ کھول رہا ہے ۔قطر کے بحران کا کوئی ایک منطقی سبب ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا ۔الزام در الزام اور ان کے پیچھے بیٹھی عرب اشرافیہ کی بھاری بھرکم انائیں ۔سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت نے اپنے ہی دوستوں کو بے اعتبار کر دیا ہے اور دیگر دوستوں سے اعتبار کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے ۔پاکستان سے پوچھا جارہا ہے کہ آپ کس طرف ہیں ؟
یہی سوال امریکی صدر بش نے ہمارے ایک طالع آزما سے پوچھا تھا اب اسی زبان میں یہ مطالبہ ایک دوست دوہرا رہا ہے ۔پاکستان کے لئے امتحان ہے ،بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے کڑا وقت ہے ۔پہلے مذہب کی بنیاد پر ایک سیاسی حمیت کھڑی کی گئی ، ملت اور امت کے نام پر سیاسی اداروں کی تشکیل ہوئی ۔تیل کی دھار سے مسلم معاشروں کی فرقہ وارانہ تشکیلِ نو کی گئی ۔مسلم افرادی قوت کو اپنی معیشت کا ایندھن ہی نہیں بنایا بلکہ کمزور مسلم معیشتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا اور اب وفاداری کے ثبوت طلب کئے جا رہے ہیں ۔
مشرقِ وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ان کی اپنی معیشت ، دفاعی صلاحیتوں اور سیاسی مفادات کے حق میں نہیں ہے ۔بیشتر غیر جانبدار تجزیہ نگار متفق ہیں کہ یہ خلفشار خطے کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دے گا ۔ایک بڑی جنگ کا امکان مسترد نہیں کیا جا رہا ۔یہ صورتحال کس کے حق میں ہے ؟امریکی اسلحہ کی فیکٹریاں چل پڑی ہیں ۔اسرائیل ایک تماشائی کی حیثیت سے سارے تماشے کو دیکھ رہا ہے ۔
کیا یہ وہی منظر نامہ نہیں ہے جوداعش اور القاعدہ بہت پہلے کھینچتی آئی ہیں؟کیا یہ دہشت گرد گروہ مسلم اشرافیہ اور اہل اقتدار کے بارے میں یہ دعوی ٰ نہیں کرتے رہے کہ یہ قیادت کے اہل نہیں ؟ کیا یہ گروہ خود بھی حالات کو اس نہج پر لانے کے لئے دہشت اور تشددکو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرتے رہے ؟ تو پھر اس بحران میں فاتح کون ہے ؟
بٹا ہوا عالمِ اسلام انسدادِ دہشت گردی کے خلاف اتحاد بنا رہا ہے اور انہیں دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ،اس صورتحال میں پاکستان کے پاس کیا راستہ بچا ہے ؟
پارلیمنٹ کی رائے بالکل صائب ہے کہ غیر جانبداری اختیار کی جائے لیکن خارجہ تعلقات میں غیر جانبداری ایک پلِ صراط ہے جس پر چلنے کے لئے مہارت درکار ہے ۔پاکستان کی عسکری سیاسی اشرافیہ کا جھکاؤواضح رہا ہے اور اب اس سے یک دم نکلنا خارجہ پالیسی کے نئے چیلنجز سامنے لائے گا ۔مسلم ممالک کے ساتھ ایک متوازن معاشی اور سیاسی تعلق ضروری ہے لیکن اس کے لئے رہنما اصول درکار ہیں اور پارلیمنٹ یہ کام بخوبی سرانجام دے سکتی ہے ۔
اہم ضرورت یہ ہے کہ پاکستان نئی اقتصادی منڈیا ں تلاش کرے اور اپنی افرادی قوت کھپانے کے لئے مشرقی ایشیا میں مواقع پیدا کرے ۔چین پاکستان اقتصادی راہداری اپنے اندر بھرپورمواقع لئے ہوئے ہے اس پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کا سٹریٹیجک کردار خطے میں اہم ہے اور شنگھائی آرگنائزیشن کارپوریشن کی مکمل رکنیت کے بعد یہ کردار مزید بڑھا ہے ۔پاکستان کوافغانستان اور خطے میں دیرپا امن کے لئے اپنے اہداف اور مقاصد پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
اس سارے تناظر میں پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ میں ایک حد سے زیادہ دلچسپی اور کردار اس کے اپنے اندرونی اور علاقائی مفادات کے لئے ضرررساں ہو سکتا ہے پاکستان میں عرب اور عجم کے حمایتی گروہ ریاست کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو اپنی ریاست ،آئین اور پارلیمنٹ کے بجائے سخت گیر ملوکیت اور نیم ملوکیتی نظاموں کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے مسلکی اور فکری رویوں سے پاکستان کے قومی تشخص کو مجروح کرتے ہیں ۔
فیس بک پر تبصرے