مغرب اور علوم انسانی

1,981

ثاقب اکبرکا شمار نامور مفکرین میں ہوتا ہے ۔البصیرۃ کے صدر نشین ہیں اور اس پلیٹ فارم سے امہ کی علمی و فکری آبیاری کے علاوہ ہم آہنگی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔انہوں نے زیر نظر مضمون میں علم کے ارتقائی سفر کاجائزہ لیتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔علم کا تقاضا ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا بلکہ غور و فکر کے در وا کرنا ہوتا ہے ۔امید ہے کہ یہ مضمون اس مظہر کو پورا کرے گا ۔(مدیر)

پس منظر
مغرب میں علم کی روایت کو عام طور پر قبل از مسیح کی یونانی علمی روایت سے مربوط کیا جاتا ہے۔ جہاں تک یونان میں مختلف مکاتب فکر کا تعلق ہے تو اسے ایک اعتبار سے دو بنیادی نظام ہائے فکر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک سوفسطائیوں کا نظام فکر اور دوسرا ارسطو اور افلاطون کا نظام فکر۔
تاہم اگلے مرحلے میں یونانی فلسفہ مسیحی الٰہیات میں تبدیل ہو گیا۔ مسیحی الٰہیات کے کردار کو مغرب کے علوم انسانی کی تشکیل اور ظہور میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وگرنہ تاریخی لحاظ سے علوم انسانی کے بہت سے مسائل قابل فہم نہ ہوں گے۔ مسیحی الٰہیات(Christian Theology) اپنے آپ کو ایسے علم کے طور پر پیش کرتی ہے جس کا موضوع ایمان ہے۔ یہی ایمان رفتہ رفتہ مذہبی پیشوائیت کے افکار کی حتمیت کی شکل اختیار کر گیا۔ اس مرحلے میں عقل و خرد، بحث و مباحثہ اور مذاکرہ کی گنجائش ختم ہو گئی۔ اس کا نتیجہ پہلے تو فکری جمود کی صورت میں نکلا اور پھر آزاد اندیشوں کے لیے استبداد اور تشدد کی صورت میں، آخر کار ایک بغاوت پیدا ہوئی اور گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس گیا۔ یہاں سے ایک نیا تصور کائنات ابھرا جو علوم کی بنیاد کو تجربی قرار دیتا ہے لیکن انسان اوراس کا معاشرہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے ریاضی کے فارمولوں کی طرح سمجھ لیا جائے۔ روشن فکری اور آزاد اندیشی نے ایک نئے جہان کی تخلیق شروع کی۔ کائنات اور انسان کی شناخت کو نئی فلسفی بنیادیں عطا ہونا شروع ہوئیں اورپھر نئے علوم ابھرنے لگے۔ معاشروں کی تشکیل نو نے بھی علم کے نئے نئے موضوعات کا تقاضا کیا۔ نئی یونیورسٹیاں اور نئی دانش گاہیں معرض وجود میں آئیں جن میں علوم کے نئے نئے شعبے قائم ہونے لگے۔
علم کی تعریف
یہاں ذرا رک کر یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ تصور کائنات کے اختلاف سے علم کی تعریف، موضوعات اور حدود بھی مختلف ہو جاتی ہیں۔
بنیادی طور پر علم کا اطلاق ہر آگاہی پر ہوتا ہے۔ عالم دراصل اسے کہتے ہیں جو جاہل نہ ہو۔(ورنہ مطلق طور پر کسی کو عالم کہنا شایدمناسب نہ ہو)۔ اس لحاظ سے علم کی تعریف میں تمام انسانی علوم شامل ہو جاتے ہیں، چاہے وہ تجربے کی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے فکر ونظر کی دنیا سے۔ اس اعتبار سے ریاضیات، فلسفہ، طبیعیات، سوشیالوجی، نفسیات، معاشیات وغیرہ سب علوم ہیں۔ انگریزی میں (Knowledge) کا لفظ ہمارے لفظ ’’علم‘‘ کا مترادف ہے۔
البتہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ’’علم‘‘ فقط ان معلومات یادریافتوں پر اطلاق رکھتا ہے جو بلاواسطہ تجربے کے ذریعے سے حاصل ہوں۔ اس تعریف کے اعتبار سے فلسفہ، منطق، اخلاق، فقہ، علم کلام اور عرفان علم کی حدود سے باہر ہو جائیں گے البتہ ہمارے ہاں پھر اسے علم نہیں بلکہ سائنس سے تعبیر کرتے ہیں۔
علوم انسانی کی تعریف
علم کے اسی تصور کو سامنے رکھتے ہوئے علوم انسانی کی تعریف میں بھی یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا علوم انسانی میں انسان، عالم طبیعت اور عالم ماورائے طبیعت سے متعلق تمام علوم شامل ہیں یا انسان اور عالم طبیعت ہی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
خود اس سوال کا جواب معرفت انسان اور تصور کائنات سے مربوط ہے۔ البتہ ماورائے طبیعت کو علم کی دسترس یا علم کی حدود میں سمجھنے والا کوئی دانشور عالم طبیعت سے متعلق علوم کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ علمِ معرفت یا ذرائع علم کی بحث میں اہل دانش نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ امام باقر الصدر کی کتاب فلسفتنا، استاد مطہری کی کتاب مسئلہ شناخت اور استاد سبحانی کی کتاب علم المعرفہ میں اسی موضوع پر اظہار نظر کیا گیا ہے۔
دینی دانش بنیادی طور پر تصور توحیدکے گرد گھومتی ہے اور انسان کی ہستی کا تعین بھی اسی تصورکے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اسلامی نظریے کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ہے اور انسانی معاشرہ ایک ہم آہنگ مجموعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان علماء و فلاسفہ کی نظر میں معاشرہ، تاریخ اور انسان ایک ہی پیکر کے اجزا ہیں اور ہر کسی کا اپنا ایک کردار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر جز اپنی حد تک دیگر اجزا سے معین روابط رکھتا ہے۔ کائنات میں وجود کے مختلف مراتب ہیں اور انسان کا وجودی مرتبہ ان میں سب سے بلند ہے۔ مسلمان حکماء نے مراتبِ عالم کی بحث کو علوم طبیعی و انسانی میں داخل کیا ہے۔ اس سلسلے میں فارابی کا ابتدائی کردار خاصا اہمیت رکھتا ہے۔
دینی تصور کائنات کے مطابق انسان ایک با ہدف مخلوق ہے۔ انسان مرکز دائرہ ممکنات ہے۔ انسان خلیفۃ اللہ ہے۔ انسان چونکہ با ارادہ اور فاعل مختار ہے اس لیے دیگر مخلوقات سے مختلف ہے۔ انسان مسؤل اور جواب دہ ہے۔ انسان کا مطالعہ اسی لیے دیگر طبیعی مظاہر کے مطالعے سے بنیادی اور جوہری فرق رکھتا ہے۔
مغرب میں بھی علوم انسانی کے مطالعے میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار ہی کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے، اس کی فزیکل حیثیت علوم انسانی میں زیر بحث نہیں آتی۔ انسان کے فاعل مختار ہونے ہی کی وجہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طبیعی مظاہرے کے بارے میں قانون بنانا آسان ہے انسان کے بارے میں مشکل ہے۔ انسان کی شناخت کے بارے میں مختلف نظریات کی وجہ سے علومِ انسانی کی حیثیت اور مقام کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
علم پر ثقافت کے اثرات
علم اگرچہ کسی خاص علاقے اور جغرافیے سے متعلق نہیں ہوتا لیکن ثقافت سے اس کا تعلق ضرور ہوتاہے اسی طرح آئیڈیالوجی سے بھی۔ علوم چونکہ ایک خاص ثقافت کے اندر تشکیل پذیر ہوتے ہیں اس لیے وہاں کی فکری روح ان کے آہنگ میں ضرور کار فرما ہوتی ہے اور وہ ایک خاص ثقافت ہی سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ مغرب کی ثقافت میں پروان چڑھنے والے علوم انسانی مغربی فلسفے، مغرب کی تاریخِ ثقافت اور مغربی تجربوں سے خاص مناسبت رکھتے ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علوم مشرق میں پروان چڑھے ہوں یا مغرب میں، انسان کی عقل و فطرت ان کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اسی طرح سے انسان کی مشترک جبلت بھی ناقابل انکار ہے لہٰذا زمان و مکان کے عناصر اور ایک خاص تصور کائنات کے علی الرغم انسان کی عقلی اور فکری دریافتوں میں مشترک سرمائے سے سب کو استفادہ کرناچاہیے۔
مغربی علوم، انسانی تہذیب کا اثاثہ ہیں
ہماری رائے میں علوم ومعارف نیز مغربی تجربات آئندہ کی انسانی تہذیب کے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے تصور کائنات کو انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسے کس طرح اہل مغرب کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے عقیدے، نظریے اور آئیڈیالوجی کوئی زبردستی کا سودا تو ہے نہیں، اس کے لیے خود اپنی دنیا کو اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرکے اس کی کامیابی کے بعد اسے دلیل بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے خود اس وقت مغرب کا دعویٰ ہے کہ ان کے تصور کائنات نے انسان کی جو خدمت کی ہے وہ ماوراء الطبیعہ پر اصرار کرنے والوں سے نہیں ہو سکی۔ ثانیاً انسانوں کے تجربے اگر ناکام ہو گئے ہیں تو پھر اس ناکامی کو ثابت بھی کرنا ہوگا اور ناکامی کو علمی نارسائی کی دلیل بنانا ہوگا۔ علاوہ ازیں عقل و فطرت مغرب و مشرق کے انسان کا ایک مشترکہ سرمایہ ہے توپھر یہ آج بھی مشترکہ نظام فکر و تہذیب کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے مذہبی علماء مغرب کے علوم انسانی کو تجربی سمجھتے ہیں اور انھیں دین کی حدود سے مکمل طور پر خارج جانتے ہیں۔ نیز ان علوم انسانی کو مغربی ثقافت کا حاصل قرار دیتے ہیں۔ انھیں وہ مغربی معیارات ہی سے ہم آہنگ جانتے ہیں۔ ان کے اس نقطۂ نظر کی صداقت کے ایک پہلو کو ہم پہلے ہی تسلیم اور بیان کر چکے ہیں، البتہ ہر لحاظ سے اس نظریے کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
کاشان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسن رضا زادہ کی رائے میں:
جن مذہبی دانشوروں کی رائے ہے یہ علوم اسلامی ثقافت سے کاملاً بیگانہ ہیں اس لیے علوم انسانی کو معارف اسلامی کی بنیاد پر ہمیں نئے سرے سے تشکیل دینا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسے دانشور بھی موجود ہیں کہ جن کا نظریہ یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر باطل ہے کیونکہ سب کچھ جو علوم انسانی کے عنوان سے موجود ہے نہ بالفعل تجربی ہے اور نہ بالقوہ، علوم تجربی تو انسانی معارف کے پورے نظام کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ ثانیاً اسلامی ثقافت، مغربی ثقافت سے بنیادی اختلاف تو رکھتی ہے لیکن علم میں اسلوبِ تحقیق تمام ثقافتوں میں ایک سا ہے۔
مغربی دانش نے ایک جہان نو آباد کردیا ہے
اس واشگاف حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے تصور کائنات کے مطابق مغربی دانش وروں نے ایک جہان نو آباد کردیا ہے۔ ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ ایک ایک ملک میں ہزاروں دانشگاہیں کام کررہی ہیں اور ایک ایک یونیورسٹی میں سینکڑوں شعبے ہیں۔ ہر شعبے میں ماہرین اور پی ایچ ڈی سکالرز کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ گویا علم و دانش کا ایک سمندر ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے یا بہتا چلا آرہا ہے۔ مغرب نے جو بھی نظام فکر اختیار کیا اس کے مطابق تعمیر عالم کے منصوبے بنائے اور اس کی طرف پیش رفت کی۔ فزیکل علوم کے مظاہر تو ٹیکنالوجی اور سائنس کی طلسم ہوشربا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک افسانوی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں۔ مشرق و مغرب کے نونہالوں کو بھی اس کی مصنوعات نے اپنا گرویدہ نہیں بلکہ اسیر کر رکھا ہے۔ ایسی نئی ایجادات ہر گھر میں پہنچ گئی ہیں کہ جن کے بغیر اب ہر کسی کو اپنی زندگی ادھوری لگتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ایجادات نے انفرادی اور اجتماعی مشکلوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے لیکن پھر معاشروں کو چلانے کے ذمہ داروں کو بھی تو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ مسائل تو انسانی بدن سے وابستہ فطری یا جبلی میلانات و خواہشات کے مظاہر و وسائل کے بارے میں بھی درپیش رہے ہیں۔ ان کے استعمال کے لیے اخلاقی اور قانونی ضوابط کی تشکیل اور ان کا نفاذ ایک الگ اجتماعی اور عمرانی معاملہ ہے لیکن بہر حال نئی انسانی ایجادات، سہولیات اور آسائشات اپنے ساتھ مشکلات اور مصائب لے کر آئی ہیں اور ان سب کے پیچھے کائنات کے رازوں کا سراغ لگانے والے ان تھک ’’خدمت گزاروں‘‘ یا ’’سراغ رسانوں‘‘ کی زحمات کارفرما ہیں۔
علوم انسانی کی ایک مثال:علم قانون
علوم انسانی کے ویسے تو بہت سے شعبے ہیں جن پر تفصیل سے بات کی جاسکتی ہے لیکن اس مختصر مقالے میں ہم بطور مثال آئین اور قانون کے حوالے سے علمی ارتقاء کی طرف کچھ اشارہ کرتے ہیں۔
قومی ریاستوں کا تصور جوں جوں گہرا اور قوی تر ہوتا رہا اس کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کا تصور بھی وسیع اور عمیق ہوتا رہا۔آئین سازی بذات خود علم کی ایک اہم شاخ کے طور پر سامنے آئی اور پھر ریاستوں کے آئینی ڈھانچوں اور اس کے راہنما اصول و ضوابط کی روشنی میں قانون سازی کا عمل زیادہ منظم اور مربوط ہوتا چلا گیا۔ آج دنیا بھر میں قانون کی تعلیم دینے والے ادارے موجود ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں تو قانون کی فیکلٹیز کام کررہی ہیں لیکن خود قانون ہی کی تعلیم کے لیے مختص یونیورسٹیاں بھی بے پناہ ہیں۔ دنیائے دانش میں آئین و قانون کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی شاید کوئی جامع فہرست اب تک مرتب نہیں کی گئی۔
قانون کا تصور ریاستی حدود سے نکل کر بین الاقوامی ہو چکا ہے۔ عالمی اداروں نے مختلف شعبوں میں قانون سازی کی ہے۔ بعض قوانین کا تعلق تمام ریاستوں سے ہے۔ جنگ اور امن کے قوانین، ریاستوں کے مابین تنازعات کے حل کے قوانین، صحت اور تعلیم سے متعلق قوانین، ماحولیات سے متعلق قوانین، انسانی حقوق سے متعلق قوانین، یہاں تک کہ ثقافت، زبان، آثار قدیمہ، دریاؤں اورسمندروں کے استعمال کے بارے میں قوانین بنائے گئے ہیں اور بنائے جارہے ہیں۔ ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے الگ الگ ادارے بنا دیے گئے ہیں اوران اداروں کے اپنے ضوابط اور اہداف ہیں۔
اخلاق اور علم
جوں جوں علم فروغ پذیر ہے یہ سوال مغرب میں زیادہ اہم ہوتا جارہا ہے کہ کیا ’’آزادی‘‘ اور’’علم‘‘ کے تصورات کو’’اخلاقی‘‘ پابندیوں کی ضرورت ہے یا نہیں۔ طاقتور ریاستوں کے ظہور، انفرادی اور گروپس کے سرمائے میں بے پناہ اضافہ، نئے نئے مہلک ہتھیاروں کی ایجاد، صنعتوں کے فضلے، دھوئیں، گیس اور بدبو کے ماحولیات پر تباہ کن اثرات اور بے رحم و مقتدرسرمایہ داری نظام کی گرفت کے پیش نظر مغرب کے بہت سے دانشور فرد اور معاشرے کے لیے کسی اخلاقی نظام کی ضرورت پر زیادہ زور دینے لگے ہیں۔ ہماری مذہبی روایات تو پہلے ہی ایک نظام اخلاق کی ناگزیریت پر زور دیتی چلی آئی ہیں۔ علم الاخلاق اور فلسفہ اخلاق ہمارے علوم کا حصہ رہا ہے۔ اسلامی تصور انسان کے مطابق انسان لائق تربیت بھی ہے اور قابل تربیت بھی لیکن اس کا یہ تصور ماورائے طبیعت کے عقیدے سے قوت حاصل کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علوم کی انفرادی تعلیم اور اخلاق کا انفرادی تصور زوال پذیر معاشروں میں کوئی بڑا کرشمہ نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے اصل سوال مغرب کے لیے یہ ہے کہ کیا فقط قانونی اخلاقیات ان خرابیوں کی اصلاح پرقادر ہے کہ جو انسانی معاشروں اورخود ہمارے گلوب میں درآئی ہیں اور کیا قانونی اخلاقیات ہماری دنیا کو درپیش خطرات کا مقابلہ کر سکیں گی یا نہیں۔ اس سلسلے میں تبلیغی اور علمی حوالے سے اگرچہ بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے، عالمی اور ریاستی سطح پر قانون سازی بھی کی گئی ہے اور اس دائرے میں دنیا کے تمام ممالک کو شامل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس حقیقت کو مانے بغیر چارہ نہیں کہ تباہی کا خطرہ وسیع اور ہمہ گیر ہوتا جارہا ہے۔ دانشوروں کو اپنے فلسفۂ علم پر بھی غورکی ضرورت ہے۔
اگر اہل مشرق کے بعض دانشوراس عمل کا ادراک رکھتے ہیں تو پھر انسانیت کی مدد کے جذبے کے تحت بات کی جاسکتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف بھی اس جذبے کا احترام کیا جائے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے پروفیسر ڈاکٹرمحمد رفعت اس حوالے سے لکھتے ہیں:
جہاں تک اس دائرہ علم کا تعلق ہے جس کو انسانی علوم سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہاں علمی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے تصور کائنات کے علاوہ اخلاقی قدروں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ چنانچہ اصل سوال یہ ہے کہ وہ آفاقی تصور کائنات کیا ہے جس پر تحقیق کرنے والے باہم اتفاق کرسکیں وہ اقدار کون سی ہیں جن کو وہ سب تسلیم کرلیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
انسان میں عقیدے کے اختلاف کے باوجود اخلاقی اقدار کے سلسلے میں ان کا متحد الخیال ہونا ممکن ہے اور باہمی تعامل کے لیے ضروری بھی ہے۔ معروف و منکر کے تصورات اس اتحاد کی بنیاد ہیں۔ انسانی معاشرے کو تباہی اور انتشارسے بچانے کے لیے اخلاقی اقدار کی آفاقیت پر زور دینا ضروری ہے۔
ہمارے کرنے کا کام
مغرب کے علوم انسانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہماری نظر اس سوال کی طرف بھی جاتی ہے کہ اسلامی علماء کو مجموعی طور پر مغرب کے علوم انسانی کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم جناب محمد نجات اللہ صدیقی کی رائے سے متفق ہیں۔ ان کے نزدیک دو کام کرنے کے ہیں ان میں سے ایک کام موجودہ علمی سرمائے کا مفید استعمال ہے اور دوسرا کام یہ ہے کہ مغرب کے موجودہ علمی سرمائے میں اضافہ کیا جائے۔ نئی معلومات فراہم کی جائیں اور تخلیقی صلاحیت سے کام لے کر علم کے دائرے کووسیع کیا جائے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے آزاد فضا درکار ہے جہاں دماغوں اورذہنوں کو سوچنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی آزادی ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد رفعت کہتے ہیں:
دونوں کاموں کی اہمیت مسلم ہونے کے باوجود ان میں سے موخر الذکر کام زیادہ ترجیح کا مستحق ہے۔
ڈاکٹر رفعت مزید لکھتے ہیں:
علم کے دائرے کو وسیع کرنے کا کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے آفاقی ہے، یعنی اس کام کی انجام دہی میں انسانیت کے مختلف گروہوں کا باہمی تعاون ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ دین اور عقیدے کا اختلاف یا اخلاقی نقطہ نظر کا اختلاف اس تعاون میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
ان کی یہ رائے بھی بڑی جاذب نظر ہے:
علم کو حصول قیادت یا حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھنا محل نظر ہے۔ علم کا یہ تصور منفی رویوں کو جنم دیتا ہے۔
ہم ڈاکٹر رفعت کی اس بات پر اپنے اس مقالے کو ختم کرتے ہیں:
یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ انسان کی صلاحیت محدود ہے، وہ سب کچھ نہیں جان سکتا اور انسانی علم کا ہر جز یکساں قطعیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ انسانی معلومات کا ایک بڑا حصہ ظنی ہوتا ہے اور اس میں ابہام پایا جاتا ہے۔ چنانچہ قطعیت کا دعویٰ کرنے کی بجائے علم کی جستجو کرنے والوں کے لیے انکسار کا رویہ زیادہ مناسب ہے۔
مزید تفصیل کے لیے رجوع کیجیے:
۱۔ ڈاکٹر حسن زادہ (کاشان یونیورسٹی):جایگاہ علوم انسانی در فرہنگ و فلسفۂ اسلامی
۲۔ ڈاکٹر محمد رفعت (پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی):سماجی علوم کی اہمیت اور ناگزیریت
۳۔ ڈاکٹر محمد رفعت (پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی): اسلامی اساس پر علوم کی تدوین نو
۴۔ محمد علی مرادی: ظہور و تکوین علوم انسانی در غرب
۵۔ سید محمد باقر الصدر: فلسفتنا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...