کیا نواز شریف بچ گئے؟

1,016

قیاس آرائیوں اور خدشات کے باوجود جمہوری سفر پٹڑی پر آ گیا ہے اور اب تک بظاہر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں کوئی بڑی دراڑ بھی نہیں پڑی۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے تین مرتبہ وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالا لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت پوری نہ کر سکے۔

اگرچہ پہلے دو ادوار کے مقابلے میں اس مرتبہ نواز شریف زیادہ مدت یعنی چار سال تک وزیراعظم رہے، لیکن ایک عدالتی فیصلے کے سبب اُنھیں اپنے منصب سے سبکدوش ہونا پڑا۔

پاناما لیکس سے متعلق عدالتی جنگ کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں نہ صرف اُن کی جماعت کو ایک بڑا دھچکا لگے گا بلکہ شریف خاندان کی گرفت اپنی جماعت پر کمزور ہو جائے گی کیوں کہ ماضی کی طرح حکومت میں شامل کئی سیاست دان نواز شریف کو خیرباد کہہ دیں گے۔

تاہم 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے اب تک یہ ہی لگتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہدایت اور حکم نواز شریف ہی کا چلتا ہے۔کابینہ کی تشکیل ہو یا حکومت کی پالیسی، موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی واضح کر دیا ہے کہ رہنمائی نواز شریف ہی کریں گے۔

عدالتی فیصلے کے حق اور اس کے خلاف ہونے والی بحث سے قطع نظر بظاہر یہی  نظر آتا ہے کہ اگر کسی سیاسی رہنما کو روکنا یا منظر سے ہٹانا ہے تو اس کا راستہ عوام ہی سے ہو کر گزرتا ہے، ورنہ بصورت دیگر باقی سب فیصلے و اقدامات وقتی ثابت ہوتے ہیں۔

حکمران جماعت نے بہت سوچ بچار کے بعد اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف نواز شریف کی نا اہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے علاوہ نظرثانی یا ’ری ویو‘ کی پٹیشن دائر کی جائے گی بلکہ نواز شریف اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں بھی لے کر جائیں گے۔

نواز شریف وزارت عظمٰی کا منصب چھوڑنے کے بعد سے اسلام آباد سے تو روانہ ہو گئے تھے لیکن اُن کی منزل لاہور نہیں تھی اور وہ اب تک مری، چھانگلا گلی اور ڈونگا گلی میں مقیم رہے۔لیکن اب اُنھوں نے دس اگست کو براستہ سڑک لاہور جانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں مسلم لیگ (ن) اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔نواز شریف کے سیاست میں آنے کے بعد سے اب تک صوبہ پنجاب، خاص طور پر لاہور اُن کا سیاسی قلعہ رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف اپنی نا اہلیت کے بعد اب ’جمہوریت مخالف‘ قوتوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوں گے۔

عدالتی فیصلے کے بعد اب تک کے حالات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی بچانے کو منتشر ہونے سے بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور نواز شریف اب بھی ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔

لیکن یہ سمجھ لینا کہ نواز شریف کی مشکلات ختم ہو گئی ہیں اور سیاسی طور وہ طاقتور و توانا ہونا شروع ہو گئے ہیں شاید یہ کسی طور بھی درست نہیں ہو گا، ملک میں سیاسی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ایسی سیاسی کشمکش جاری ہے جس میں ہر کچھ روز بعد پلڑا کسی ایک جانب جھک جاتا ہے۔لیکن نواز شریف اس حد تک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ عدالتی فیصلے پر وکلا برادری بھی منقسم ہے جب کہ جمہوریت پسند حلقے میں یہ چاہتے ہیں کہ احتساب کا یہ عمل صرف سیاست دانوں تک محدود نہ رہے۔

نواز شریف کا سیاسی سفر

نوازشریف کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے ہے اور اُنھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 70 کی دہائی کے اواخر میں کیا تھا۔

ملک کے سابق فوجی صدر ضیا الحق کی طرف سے نافذ مارشل لا کے دور میں نواز شریف 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کے بعد آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

تب ہی سے اُن کی سیاست کا مرکز صوبہ پنجاب، خاص طور پر لاہور رہا ہے۔نواز شریف پہلی مرتبہ 1990ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے لیکن 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت ختم کر دی تھی۔اس فیصلے کے خلاف میاں صاحب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت عظمٰی نے اُن کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی حکومت کو بحال کردیا تھا۔لیکن اس فیصلے کے بعد صدر کے ساتھ جاری مسلسل محاذ آرائی کے بعد اس وقت کے آرمی چیف کی مداخلت پر وزیرِاعظم اور صدر دونوں ہی کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔سنہ 1997 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو بھارتی اکثریت سے کامیابی ملی تھی اور وہ دوسری مرتبہ بطور وزیراعظم منتخب ہوئے۔لیکن 1999ء میں اُس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی تھی۔فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس اور دہشت گردی کے مقدمات درج کر کے اُنھیں عمر قید اور جائیدار کی ضبطی کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعد ازاں وہ حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن ہوگئے تھے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بہت سے سرکردہ راہنماؤں نے مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک پارٹی بنالی تھی جو پرویز مشرف کے دور میں برسراقتدار بھی رہی۔لیکن نواز شریف کی 2007ء میں وطن واپسی کے بعد اُن کی جماعت ایک مرتبہ پھر اکٹھی ہوئی اور 2008ء میں صوبہ پنجاب میں اُن کی حکومت بنی۔ جب کہ 2013ء میں پنجاب کے علاوہ مرکز میں بھی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...