اقتدار، اختیار کے تعاقب میں

1,083

 

نواز شریف  نااہلی کے بعد مسلسل عوامی حاکمیت پر پنجاب کے عوام کو از سر نو متحرک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کوشش کا آغازانہوں نے جی ٹی روڈ ریلی سے  کیا اورریلی کے دوران اپنے خطابات میں انہوں نے اس سمت مزید آگے بڑھنے کا عندیہ بھی دیا۔یہ رستہ کٹھن ضرور ہے لیکن مسلم لیگ نون کی بقا سے زیادہ اس کی افادیت پاکستان کی قومی ریاست کی تشکیل کے ایجنڈے کی تکمیل کےلئے اشد ضروری ہے۔برقی ذرائع ابلاغ پر براجمان روایتی اور مودب صحافی اور بعض سابق سرکاری افسران مسلسل نوازشریف کے اس ایجنڈے کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں۔ان کی گفتگو اس مشن کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے تضحیک اور اشتعال انگیزی پر محیط ہے۔شاید وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف واشگاف الفاظ میں  وہ بہت کچھ کہہ دیں جو وہ دبے الفاظ اور محتاط لہجے میں کہے جارہے ہیں۔مسلم لیگ نون نوازشریف کی نااہلی کے بعد اس نتیجے پر اچانک  نہیں پہنچی بلکہ وہ 90 کی دہائی سے اس نتیجے پر پہنچی ہوئی ہے جس کی واضح دلیل نوازشریف کا اقتدار کی راہ داریوں سے بار بار بے دخل ہونا ہے۔نواز شریف کو اس  راہ پر چلنے سے روکنے کےلئے بہت سے حربے ،مشورے اور بسا اوقات دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔البتہ  یہ پہلو خوش آئند ہے کہ نوازشریف نے تخریبی راستہ اختیار نہیں کیا اورسیاسی حریفوں کے مابین تصادم بھی نہیں ہوا جس کا سہرا باقی سیاسی جماعتوں کے سر بھی جاتا ہے جو مخالفت کے باوجود عملاً ٹکراﺅ سے گریز کررہی ہیں۔

نجی تعلیمی اداروں کے تسلسل اور بقا کا انحصار بھی تقاضہ کرتا ہے کہ اس کے پیدا کردہ ہنر مند افراد برسر روزگار ہوں یہی تقاضہ صنعتی پیداواری ڈھانچے کا بھی ہے جو بنیادی معاشی ڈھانچے کی فراہمی کے بعد سرپلس،زائد از ضرورت ہنر مند افراد کو روزگار کے مواقع مہیا کرکے صنعتی سرمائے میں اضافہ کرنے کا متمنی ہے۔مذکورہ خواہشات جن سے وابستہ افراد کی موثر تعداد لاہور جی ٹی روڈ کے کناروں پر آباد ہے۔ملک کو زرعی عہد کی معاشیات اور اس کی باقیات کے چنگل سے نکال کر صنعتی پیداواریت کی حامل معاشی ترقی کی آرزو مند ہے جس کےلئے ریاستی وسائل کا فلاحی مقاصد اختیار کرنا از بس ضروری ہے۔غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کےلئے امن و امان کی بہتری ،ریاستی استحکام  اور اسکی سالمیت کےاور علاقائی تعاون ناگزیر ہے جبکہ ہر کام ووٹ کی طاقت اور تقدس کو تسلیم کرنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ تمام ریاستی ادارے پارلیمان کی بالادستی اور اس کی حق حاکمیت کو صدقِ دل سے قبول کریں۔عوامی نمائندوں کی تشکیل کردہ پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو ملک میں عوامی،قومی جمہوریت و آسودگی کا خواب ممکن ہوسکتا ہے ۔مجھے خوش گمانی نما احساس ہے یہاں نواز شریف ووٹ کے تقدس کی بحالی کی جس مہم پر نکلے ہیں وہ انہی اغراض و مقاصد کی حامل ہے۔اسی لیے وہ حلقے جو ریلی کے مقاصد پر سوالیہ نشان لگا رہے تھے وہ یا تو مثالی سیاسی تبدیلی کے آرزو مند تھے یا ریلی کے اصلی مقاصد و اثرات سے آگاہ مگر اس سے اختلاف رکھتے ہوئے ابہام پیدا کررہے تھے۔جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے اس سے ملک میں سیاسی،معاشی استحکام اور آسودگی کےلئے عوامی سطح پر مایوسی کی لہر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی؟میرا جواب نفی میں ہے۔

جناب رضا ربانی نے سینیٹ کے ایوان بالا کے ذریعے فوج،عدلیہ اور پارلیمنٹ میں طاقت کے توازن کے قیام کےلئے جس مکالمے کی دعوت دی ہے وہ بہت خوش کن اور مثالی ہے۔میاں صاحب نے بھی اس کی تائید کرکے گویا سیاسی صورتحال کو پوائنٹ آف نوٹرن کی جانب نہ جانے کا عندیہ دیا ہے۔بلاول بھٹو نے جناب رضا ربانی کی تائید سے انکار کرکے بظاہر برا لیکن شاید درست فیصلہ کیا ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ فوج،عدلیہ اور پارلیمان میں طاقت کے توازن یا سول ملٹری تعلقات میں توازن کے آئینی و قانونی معنی کیا ہونگے؟کیا تینوں اداروں کو مساوی الرتبہ تسلیم کرانا جناب ربانی کی منتہا ہے؟یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا1973 کے دستور نے ریاست کے تمام اداروں کا کردار،حدود و اختیارات کا تعین نہیں کیا؟کیا عدلیہ اور فوج کو پارلیمان کے مساوی تسلیم کیا جائے تو پارلیمان  کی حیثیت حاکمہ باقی رہ جائے گی؟

پارلیمان آئین کے طابع ہو اور دیگر تمام ریاستی ادارے بھی اپنے اپنے آئینی کردار و حدود میں رہ کر کام کریں۔عدلیہ اس عمل کی نگران ہو اور جہاں کوئی سرحد انحراف کرے ،عدلیہ آئین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ایسا ہو تو پاکستان میں ریاستی رٹ آئین و قانون کی بالادستی کا قیام اور عوام میں پائی جانے والی مایوسی و بیگانگی ختم ہوسکتی ہے اورملکی سالمیت کا یہی واحد راستہ ہے

مسئلہ آئین کو مقدس اور بالاتر تسلیم کرنے سے حل ہوگا۔پارلیمان آئین کے طابع ہو اور دیگر تمام ریاستی ادارے بھی اپنے اپنے آئینی کردار و حدود میں رہ کر کام کریں۔عدلیہ اس عمل کی نگران ہو اور جہاں کوئی سرحد انحراف کرے ،عدلیہ آئین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ایسا ہو تو پاکستان میں ریاستی رٹ آئین و قانون کی بالادستی کا قیام اور عوام میں پائی جانے والی مایوسی و بیگانگی ختم ہوسکتی ہے اورملکی سالمیت کا یہی واحد راستہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...