ٹرمپ کی نئی پالیسی کے مضمرات

975

امریکی صدر نے طویل مشاورت کے بعد افغانستان ،پاکستان اوربھارت سمیت خطے کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیاہے۔ امریکہ اوراس کی پشت پناہ افغان حکومت کومسلسل ہزیمت کاسامناہے۔ صدرٹرمپ نے کہاکہ امریکی اہداف واضح ہیں کہ امریکہ اس خطے میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کاصفایاکرناچاہتاہے، اس کے علاہ  ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔ پاک افغان خطے میں 20سے زائد دہشت گردتنظیمیں کام کررہی ہیں جوکسی بھی دوسری جگہ سے زیادہ ہیں۔ امریکی صدرنے اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کوجلدبازی میں اٹھائے گئے اقدام سے تعبیرکیاہے۔

2001کے بعد سے ٹرمپ تیسرے امریکی صدرہیں جوامریکہ کی طویل ترین جنگی مہم کے بارے میں جنگی حکمت عملی تبدیل کررہے ہیں جو کہ افغانستان پرقبضہ رکھنےمیں امریکی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت بھی عوام کومطمئن کرنے میں ناکامی کے بعد اندرون خانہ بری طرح تقسیم کی شکاررہتی ہے۔ امریکہ افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کوبہتربنانے میں کامیاب ہوسکاہے نہ ہی جمہوریت کاپودا وہاں پنپ سکاہے۔ افغان حکومت کاپوارانحصار جنگجواور کرپٹ وارلارڈز پرہےجوزیادہ ترسابقہ کمیونسٹ، مجاہدین اورطاقتورجنگی سپہ سالاروں پرمشتمل جھتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ صدراشرف غنی نے کوشش کی ہے ان سے چھٹکارہ حاصل کرکے عوامی اعتماد حاصل کرنے کوشش کی جائے۔ دوسری طرف سابق جہادی کمانڈر اورحزب اسلامی کے گلبدین حکمتیار کوجنگ ترک کرکے قومی دھارے میں لایاگیاہے مگراس سے جنگ پرکوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ عوام وارلارڈزسے اسی قدرتنگ ہیں جس قدریہ امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں اورجتناطالبان کوناپسند کرتے ہیں۔حکومت کے حامی وارلارڈز انتہائی خونخوارہونے کے ساتھ کرپٹ، بدقماش اوراسمگلرزہیں۔ امریکی اورافغان حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد امریکیوں کوقابض اوراس کی پشت پناہ حکومت کوامریکیوں کاپٹھو سمجھتی ہے۔ امریکی سربراہی میں نیٹوکے پاس پندرہ ہزارکے قریب فوجی ہیں جوزیادہ ترہوائی فوجی طاقت پربھروسہ کرتی ہے۔ زمین پرافغان فوجی خاطرخواہ قبضہ برقرارنہیں رکھ سکتے اوریہ زیادہ تربڑے شہروں تک ہی محدودہے۔ ملک کے دیہات اورزیادہ ترحصہ پرمتحارب طالبان اورداعشں کاکنٹرول ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں اورعوام آئےدن کے خودکش حملوں  سے پریشان ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی سے ایسالگتاہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان سے مزید سخت اقدامات  کا مطالبہ کیا جائے گا اوریہاں ڈرون حملوں میں تیزی کے ساتھ فوجی مداخلت بھی متوقع ہے

ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایک ہارتی ہوئی جنگ پراب تک 714بلین ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ ڈیفنس ڈپارٹمنٹ نے 675بلین ڈالرزخرچ کئے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ رقم کا بڑاحصہ یعنی86 فیصد جنگ کرنے پرخرچ ہوا، ترقیاتی منصوبوں وغیرہ پرمحض 14فی صد رقم خرچ کی گئی۔ امریکی وزیردفاع میٹس کہتےہیں کہ اس کے باوجودہم افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغان فوج کھڑی کرنے پر457.7ملین ڈالرزخرچ کئے گئےمگرظاہرہے اس کے خاطرنتائج برآمدنہ ہوئے۔ 72.2ملین ڈالرزنامعلوم مد میں خرچ ہوئے۔ لگتاہے یہ خفیہ مقاصد کے کام لائی گئی جبکہ ٹھیکوں وغیرہ میں گھپلوں اوررشوت میں کئی ملین ڈالرزضائع کئے گئے۔ امریکی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 94ملین ڈالرزکی رقم جوافغان فوج کے لئے یونیفارم پرخرچ کی گئی،وہ فضول میں گئی کیونکہ یہ جنگلات سے مشابہ بنائی گئی تھی، جبکہ ملک کامحض 2.1فی صد حصہ ہی جنگلات پرمشتمل ہے۔ افغانستان کابیرونی امداد پرانحصاریوں بڑھ رہاہے کہ اسکے ٹیکس میں پچھلے سال کے مقابلے میں 25فی صد کمی واقع ہوئی جوکہ ٹوٹل اخراجات کامحض 40فی صد پرمشتمل ہے۔ بعض علاقوں جیسے قندوزتک میں طالبان عشرکی رقم وصول کرتے ہیں۔  امریکہ اوراس کی کابل میں پشت پناہ حکومت کے پاس مسائل کاکوئی فوری اور پائیدارحل موجود نہیں ہے اوریہیں سے امریکی مشکلات کاآغازہوتاہے۔مسلسل ہزیمت اٹھانے کا اثریہ پڑاہے کہ امریکی انتظامیہ اورافغان حکومت کے پالیسی سازوں میں اتفاق اوریکسوئی نہیں ہوپائی۔ اسی کی روشنی میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی نئی پالیسی کااعلان کیاہے۔

ٹرمپ کے مشیروں کے نزدیک تواہم ایشوزمیں ایک توتین ہزارسے زائد افواج کوافغانستان بھیجنا اورجنگ کوپرائیوٹ اداروں کے حوالے کرناجیسی تجاویزپرٹرمپ نے اپنی پالیسی میں کوئی خاص جگہ نہیں دی۔ بس اتناہی کہنے پراکتفاکیاکہ ہم اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔ پالیسی میں افغانستان کی جنگ میں پاکستان کے کردارکواہم قراردیاگیاہے۔ اس کے ساتھ ہی سفارتی اورفوجی حکمت عملی پرایک ساتھ عمل کرنے کااعلان کیاگیاہے۔ پاکستان کے بارے میں پالیسی کومزید سخت کرنے کااعلان توقعات کے عین مطابق ہے۔ امریکہ اپنی شکست کوافغان حکومت کی ناکامی اورپاکستان کی طرف سے طالبان کی حمایت اورخاص کرحقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں محفوظ پناگاہوں سے جوڑکردیکھتاہے، یوں امریکہ اپنی ناکامیوں کوچھپاتاہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی کولیشن فنڈزکے سلسلے میں ملنے والی سالانہ50ملین ڈالرزکی فوجی امداد بند کردی ہے اوراس کوطالبان اورحقانی نیٹ  ورک کی حمایت ترک کرنے اورمحفوظ ٹھکانے ختم کرنے  کے ساتھ ساتھ اندرونی طورپرشدت پسند گروپوں خاص کرمقبوضہ کشمیرمیں برسرپیکارمجاہدین سے ہاتھ کھنچنے سے جوڑاہے۔ ٹرمپ نے کہاکہ پاکستان اربوں ڈالرزبٹورنے کے باوجود دہشت گردوں کی سرپرستی سے بازنہیں آتا۔ پاکستان کودھمکی دیتے ہوئے خبردارکیاگیاہے کہ امریکہ کاساتھ دینے میں پاکستان کوفائدہ اوردوسری صورت میں نقصان اٹھاناپڑے گا، اس پالیسی میں اقتصادی پابندیاں لگانے کا بھی ذکرکیاگیاہے۔ پاکستان کے برعکس بھات کے کردارکی تعریف کی گئی ہے۔ پاکستان کوافغانستان میں امریکی سرپرستی میں بڑھتے ہوئے بھارتی کردارپرپہلےہی تشویش ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے حزب المجاہدین کودہشت گرد تنظیم قراردیاہے۔ اس سے امریکہ کے پاکستان کی طرف رحجان کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ امریکہ، پاکستان کے چین اورروس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھی نظر رکھےہوئےہے۔

ٹرمپ انتظامیہ جنگی قوت میں اضافہ کے ساتھ افغانستان میں طالبان کو کمزورکرنے یاان سے معاہدہ کرنے کوبھی اہمیت دیتی ہے۔ سفارتی کوششوں میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے نئے دوراوراس میں ممکنہ پاکستانی کرداربھِی امریکہ کے پیش نظر ہے۔ حال ہی میں کئی امریکی جرنیلوں نے پاکستان کے فوجی حکام سے بات چیت کی ہےتاکہ امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارپرکومزید بہتربنانے پرزوردیاجاسکےلیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے ایسالگتاہے کہ پاکستان سے مزید سخت اقدامات  کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے اوریہاں ڈرون حملوں میں تیزی کے ساتھ فوجی مداخلت بھی متوقع ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...