بد ظنی کا سرطان

1,249

“حسن ظن” جیسی قدر ہمارے معاشرے میں ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ کان ایسی بات سننے کو ترس جاتے ہیں جو کسی کے متعلق کسی کی زبان سے نکلے اور وہ بات حسنِ ظن پہ مبنی ہو۔ہم جس اعلیٰ نظریات پہ مبنی معاشرہ تشکیل دینے کی فکر میں صبح وشام ہلکان ہوئے پھرتے ہیں،ایسامعاشرہ کیسے تشکیل دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کیلئے کوشش کرنے والے افراد بنیادی اخلاقی خوبیوں سے ہی محروم ہیں ۔ ہماری اجتماعی زندگی کو بدظنی اور شکوک وشبہات کے عفریت نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ہم اپنے ساتھ والے شخص مقابل، یا مخالف کے کردار و اخلاق کے بارے میں ہمیشہ بدظنی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی دو تین صورتیں ایسی بھیانک اور خطرناک ہیں جن سے چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا۔ جب آپ مذہب کے حوالے سے اس پہ بات کرتے ہیں تو فوراً ردّ عمل کا سامنا ہوتا ہے کہ آپ کا مطلب ہے ہم کافر، گمراہ فرقوں اورلوگوں کوغلط نہ کہیں۔ مسجد میں ہر امام کے پیچھے نماز پڑھ لیں اور اس کی فکر نہ کریں کہ اس کا عقیدہ کیا ہے؟۔ جب آپ “حسنِ ظن” کے بارے میں اہل سیاست سے بات کریں ان کا ردِّعمل یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ اگر نواز شریف چور ہے تو ہم اس کو چور نہ کہیں ، زرداری چور ہے تو ہم اس کے بارے میں “حسن ظن” رکھیں۔

اندازہ کیجئے۔ انسانی اوراخلاقی قدر اس ماحول میں کتنی بےقدر ہو چکی ہے جبکہ یہ دونوں باتیں کلی طور پر مختلف ہیں۔ پہلی بنیاد ی بات یہ ہے جس شخص پہ ہم الزام لگا رہے ہیں کیا ہم اس حوالے سے مکمل واقفیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ چوری کرنا اور چور ہونے میں فرق ہے، جھوٹ بولنے اورجھوٹا ہونے میں بہت فرق ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ کوئی جتنا بھی گناہ گار ہے اس کی عزت اچھالنے کا حق کسی کونہیں ہے۔ حضرت امام مالکؒ کے سامنے جب کسی شخص نے حجاج بن یوسف کو برا بھلا کہا  توامام نے فرمایا “حجاج بن یوسف کے گناہ، تیرے لئے اس کی عزت اور حرمت کو حلال نہیں کر دیتے” ،چوتھی بات یہ ہے کہ معاملات جب اداروں کے سپرد ہو جائیں تو پھراداروں پر اعتماد کرنا چاہئے۔ اگر ادارے اپنے آئینی کردارکو نبھا رہے ہیں اور فیصلہ دے رہے ہیں تو پھر اداروں کے فیصلوں پہ بھروسہ کرنا چاہئے۔بدظنی کااس سے زیادہ خوفناک نتیجہ کیا ہو گا کہ گزشتہ دنوں، ایک صاحب نے تبلیغی جماعت کے دو افراد شہید کردیئے کہ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ مسجد کے خطیب نے اپنی تقریر میں کہا کہ تبلیغی جماعت والے گستاخ رسول ہیں۔میرے وہ دوست جنہیں تقویٰ کا ہیضہ ہےیا وہ دوست جو خبط عظمت کا شکار ہیں یا وہ دوست جنہیں اپنے سوا ہر شخص کافر دکھائی دیتا ہے، ان کی خدمت میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں  کہ ہر مسجد کی ایک انتظامیہ ہے جو پندرہ سے بیس افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ امام وخطیب کا تقرر کرتی ہے ۔ اگر آپ امام و خطیب کے ایمان وعقیدہ پہ معترض ہیں تو گویا آپ امام و خطیب پہ نہیں آپ پوری انتظامیہ پہ معترض ہیں ۔کیا بیس افراد کاایمان ہی آپ کی نظر میں مشکوک ہے؟۔ میں ذاتی طور پر حسن ظن رکھتا ہوں اور انہیں اپنے سے زیادہ اچھا مسلمان خیال کرتا ہوں جو کاروباری ،گھریلو ودیگر مصروفیات میں سے وقت نکال کراللہ کے گھر کو وقت دیتے ہیں، صرف وقت ہی نہیں بلکہ دولت بھی خرچ کرتے ہیں ،جب ایسے لوگ امام وخطیب کا تقرر کرتے ہیں تو وہ علم و تقویٰ عقیدہ و عمل دیکھ کر ہی ان کی تقرری کرتے ہیں۔

سیاست میں بھی میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ میں ہر سیاسی شخصیت سے متعلق “حسنِ ظن” رکھتا ہوں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ یہاں میڈیا سیلز ہیں جو باقاعدہ کسی سیاسی شخصیت کے بارے میں خبر Launchکرتے ہیں جس کے بعد وہ خبر آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ میراذاتی تجربہ ہے کہ آپ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں لوگوں کی زبان پہ ہوتی ہیں جن سے آپ خود بے خبر ہوتے ہیں۔ آپ کے فرشتوں کوبھی علم نہیں ہوتا جو خبریں آپ سے متعلق مختلف حلقوں میں گردش کر رہی ہوتی ہیں ۔کسی وقت انسان ایسی افواہوں کا جواب دیتا ہے اور اکثر اوقات ایسی بے ہودہ باتوں کا جواب دینے کو ضیاعِ وقت خیال کرتا ہے۔مخالفین کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگرآپ سچے ہوتے تواس کا جواب دیتے ، حالانکہ اگرانسان بے پرکی اڑی باتوں کاجواب دینے میں لگ جائے تو بہت سے ضروری کام رہ جاتے ہیں ۔ آئے روز کے جواب سے چپ سادھ لینا ہی بہتر ہے۔ درحقیقت یہ رویے اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو “بدظنی کا سرطان “لاحق ہو چکا ہے۔ ہم سیاسی اور مذہبی اختلاف کو ذاتی عناد کی شکل دے چکے ہیں ۔ ہم نے دوسروں کی عزت و حرمت کو اپنے پہ جائز کر لیا ہے۔ خداخوفی ہمارے دلوں سے رخصت ہوچکی ہے ۔مذہب اور سیاست کے نام پر قتل وغارت تہمت والزام اوردشنام و بہتان طرازی کا بازار گرم ہے جس کی گواہی چینلز اورسوشل میڈیا دے رہے ہیں جہاں ہم دن رات دوسروں کی عزت اتارنے، تضحیک کرنے اور اپنی اوقات دکھانے میں مصروف ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...