گائے کی قربانی
آج کل بھینس اوراونٹ کے مقابلے میں گائے اوربیل الیکٹرانک میڈیا کی توجہ زیادہ حاصل کررہےہیں۔ عید قربان میں جو جانور سب سے زیادہ قربان کئے جانے کا امکان ہے وہ گائے اوربیل ہیں مگر گائے کا کاٹنا ثواب کے ساتھ سیاست اور معیشت کا بھی حصہ ہے۔ بھارت میں گائے کی قربانی پر تعصب پسند مودی حکومت پابندی لگارہی ہے۔گائے کا ذبح کرنا اب میدان جنگ بنا ہوا ہے جو سماجی اور معاشی بحران کے پس منظر میں ہورہاہے۔ظاہر ہے مودی حکومت ایک بہت بڑی اقلیت کو جو مسلمانوں کی شکل میں پائی جاتی ہے، کو دبا کر اور اس کو نشانہ بنا کر عوامی اتحاد کو ختم کرناچاہتی ہے۔ اس پس منظرمیں اس سال گائے کا ذبح کرنابھارت کے مسلمانوں کے لئےمشکل ترنظرآرہاہےکیونکہ گائے کی نقل وحمل میں ہی مشکلات حائل ہیں۔ پاکستان میں گائے کی قربانی کے بارے میں کیاکہاجاسکتاہے، میں گذشتہ کئ سالوں سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کرتا آیاہوں۔
قربانی کے ضمن میں اسلامی تعلیمات سے جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (بھیڑ یا دنبہ ) کی قربانی کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کئی پیغمبروں کے ساتھ بھیڑکاذکرآتاہے۔ پھرخاص کرمشرقی وسطی اوروہ علاقے جواب سعودی عرب کاحصہ سمجھے جاتے ہیں، گائے کی پیداوارکے لئے موزوں ماحول مہیا نہیں کرتے۔اس لئے ان علاقوں میں بھیڑ،بکری اور اونٹ ہی قربانی کے مرغوب جانورہیں۔ برصغیر میں بھی قربانی کے لئے عام طور پر بکرے، بھیڑ اور بھینس ہی استعمال ہوتے تھے۔ البتہ انڈیا میں گائے ،مسلمانوں کا قربانی کیلئے پسندیدہ جانوررہاہے۔ برصغیر میں ہندو اکثریتی علاقوں میں گائے کی قربانی،تاریخی طور، شہروں میں ہوا کرتی تھی جوایک طرح سے مسلمان بادشاہوں، امراء اور فوج کے مراکز تھے۔ البتہ کئی مسلمان بادشاہوں کیلئے گائے کو ذبح کرنا ایک سیاسی مسئلہ رہا۔ مغل بادشاہ اکبر نے اپنے دورمیں گائے کے ذبح کرنے پرپابندی لگائی تواس نے بعض مذہبی رہنماوں کوبے چین کردیا۔ مجدد الف ثانی شیخ سرہندی نے اس پر کف افسوس کا اظہار کیاتھا کہ مسلمان سلطنت میں مسلمان گائے ذبح نہیں کرسکتے۔ جبکہ اکبر، صلح کل کی پالیسی کے تحت یہ سمجھتاتھاکہ ہندو اکثریت کے جذبات کا احترام کرناضروری ہے۔
تاریخی طورپر جن علاقوں میں پاکستان موجود ہے،وہاں گائے کی قربانی کم ہوتی تھی۔البتہ جب مہاجر بڑی تعداد میں تقسیم کے بعد پاکستان آئے تو یہ گائے ذبح کرنے کی روایت بھی اپنے ساتھ لائے، یہ زیادہ ترشہروں میں بسے۔ مہاجراسلامی تنظیمیں جیسے جماعت اسلامی اور وہاں سے آنے والے لوگ اور مذہبی تنظیموں کا اثر تھا جس کے باعث گائے ذبح کرنے کی روایت اول شہروں میں مضبوط ہوئی،ان کی ہجرت اور نقل مکانی کی یادیں تلخ تھیں۔ بعد میں پاکستانی ریاست کی انڈیا سے جنگیں اورتنازعات اس روایت کو مضبوط کرتے گئے۔ بعدازاں کشمبیر میں 1989میں عوامی تحریک اور اسکی مذہبی شکل اختیار کرنے کے بعد جماعتوں جیسے “جماعت الدعوۃ” اس کو فروغ دینے کا باعث بنے۔ اب شہری علاقوں جیسے کراچی، لاہور، پنڈی، ملتان، کوئٹہ، پشاوروغیرہ میں نوجوان بیل قربانی کیلئے سب سے مرغوب جانورتصورکیاجاتاہے۔
کہا جاتاہے کہ برصغیرمیں آرائیوں (ارینز)کی آمد کے بعد گائے کی اہمیت بڑھ گئی۔ اسکی وجوہات کی بحث میں جائے بغیر یہ کہنا کافی ہے کہ ان کی پہلی مقدس کتاب (رگ)ویدا موجودہ دریائے سندھ کی بالائی وادیوں اوراسکے معاون دریاوں یعنی پشتون خطے میں ہوئی۔ اس خطے میں آج بھی گائِے کے بجائے بھیڑ، بکری اور بھینس کا گوشت زیادہ مرغوب ہے۔ وادی سمہ اور وادی پشاوراور اس سے ملحقہ وہ علاقے جن میں یوسفزئی آباد ہیں جیسے مردان، صوابی، بونیر،سوات اور دیر میں آج بھی بھینس ذبح کرنا عام ہے۔ جبکہ قبائلی علاقوں میں بکری اور بھیڑ کا ذبح کرنا عام روایت ہے۔ یہی روایت بلوچستان کی پشتون پٹی میں بھی ہےاور بلوچوں کی بڑی تعداد بھی انہی خطوط پر دعوت اور قربانی کرتی ہے۔ پشتون اورپنجابی خطے میں دودھ کیلئے بھی بھینس کو فوقیتت دی جاتی ہے۔مثلا گائے کے دودھ کو گاڑھا خیال نہیں گیاجاتا۔ پشتون خطے میں پنجاب کے علاقوں سے بڑی تعداد میں بھینسوں کو لایاجاتاہے۔ بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کو گائے پر فوقیت حاصل ہے۔ شہری آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی قربانی اور اسلامی و فلاحی تنظمیوں نے گائے کے ذبیحہ کو بہت عام کیا۔ اشتہاروں میں بھی گائے کی تصویر دی جاتی ہے کہ یہ بھینس کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر لگتی ہے، یوں اجتماعی قربانی کیلئے مرغوب جانور گائے اور بکرے ہیں۔ ہر فلاحی و اسلامی تنظیم اجتماعی قربانی کیلئے ان کو فوقیت کیوں دیتی ہے؟اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں نسبتا اکنامک ہیں،یعنی یہ بھینس اور بھیڑ سے سستے ہیں۔ بھینس چونکہ دودھ کا بڑا ذریعہ ہے اسلئے اسکی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آپ اسے گائے کی خوش قسمتی اور بھینس کی بدقسمتی کہیں کہ گائے کی عالمی پیداوار بھی زیادہ ہے کہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا اور سکنڈے نیویا کےممالک میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے۔ یوں اسکی افزائش پر تحقیق بھی زیادہ ہے۔ بھینس کی پیداوارکےخطے شائد افریقہ اور برصغیر ہیں۔ان وجوہات کی بناء پر گائے اوربیل، تیزی کے ساتھ قربانی کیلئے ہی نہیں بلکہ دعوتوں اور پکوانوں میں بھی جگہ پا رہے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے