علماء کی ٹارگٹ کلنگ ۔۔۔ پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

964

 

ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے  پیش نظرڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی انتظامیہ نے ایک بار پھر شہر میں تیس دنوں کے لئے  ڈبل سواری پہ پابندی عائد کر کے شہریوں کو  مشکلات سے دو چار کر دیا،ظاہر ہے جس شہر کی نوے فیصد آبادی کا انحصار موٹر سائیکل سواری پہ ہو وہاں مہینہ بھرکے لئے ڈبل سواری کی پابندی کا خیر مقدم تو نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے مرکزی انجمن تاجران کے صدر راجہ اختر علی نے ڈبل سواری پہ پابندی کو تجارتی وسماجی سرگرمیوں کے لئے تباہ کن قرار دیا ہے۔بہرحال کسی بھی مسئلہ کو جواز بنا کر  اتنے طویل عرصہ کے لئے   لاکھوںشہریوں کو نقل و حمل جیسی بنیادی آزادیوں سے محروم رکھنا،وسیع تر  انتظامی مصالح کے منافی اور سیکورٹی اداروں کی کم ہمتی کا اعتراف سمجھا جائے گا۔ملک بھر میں انتظامی اتھارٹی کسی بھی ضلع میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر تین یوم سے زیادہ کی پابندی عائد نہیں کرتی لیکن یہ ڈیرہ اسماعیل خان کے بے حس شہری تھے جنہوں نے  2010 میں  دو سال تک مسلسل ڈبل سواری پر پابندی کے علاوہ  ڈیڑھ سال تک موبائل فون کے استعمال  پر پابندی کو برداشت کر لیا تھا۔اس دوران موبائل فون بزنس کے علاوہ  نئے موٹر سائیکل کے کاروبار سے وابستہ ڈیلرز،سپیئرپارٹس کی دکانیں اور مکینکس کی ورکشاپس بند  ہو جانے سے ہزارون خاندان معاشی طور پہ کنگال ہوگئے لیکن کسی نے صدائے احتجاج بلند  نہ کی،مولانا فضل الرحمٰن جو قومی اسمبلی میں قبائلی عوام کی تلاشیوں پر سراپا احتجاج بنے اپنے حلقہ ارادت کے عوام کے دکھوں پر لب کشائی سے گریزاں نظر آئے ۔ حالیہ پابندی سے یوں محسوس ہوا کہ شاید انتظامیہ کے پاس شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے سوا اپنی کارکردگی  دکھانے کا دوسرا کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔

امر واقعہ یہی ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کی تازہ لہر میں دو پولیس اہلکاروں سمیت جے یو آئی ( ف)کے رہنما مولانا عطا اللہ شاہ بھی قتل  ہوگئے،مدرسہ صدیق اکبر کے مہتمم مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو سنیچر کی صبح دو موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں نے سر میں گولی مار کر اس وقت موت کی نیند سلا دیا جب  وہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد معمول کی چہل قدمی پہ نکل ہوئے تھے،65 سالہ مولانا عطااللہ شاہ ٹوپئی شریف کے روحانی خانوادے کے چشم و چراغ اور خانقاہ یٰسین زئی کے سجادہ نشین تھے۔وہ کم و بیش پچیس سالوں تک مولانا فضل الرحمٰن کے مدرسہ جامعہ معارف الشرعیہ کے مہتمم اور طویل عرصہ سے درس وتدریس کے پیشہ سے وابستہ چلے آ رہے تھے،انہیں فقہ و حدیث کے علوم کا فاضل سمجھا جاتا تھا،پنجاب ،بلوچستان اور خیبر پختون کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان کے سینکڑوں طلبہ بھی انکے علم و فضل سے فیض یاب ہوتے رہے۔سید عطاء اللہ شاہ  کا شمار مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی رفقاء اور جے یو آئی کے صاحب الرائے رہنماوں میں ہوتا تھا۔ان کے قتل کے بعد شہر کی فضا سوگوار اور ماحول پہ بے یقینی کے سائے منڈلانے لگے،اس لیے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے انتظامیہ نے شہر کے حساس علاقوں میں ایلیٹ فورس کے ساتھ فوج کے مسلح دستے تعینات کر کے ڈبل سواری پرپابندی عائد کر دی۔اس سے ایک ہفتہ قبل دہشتگردوں نے مجلس وحدت المسلمین کے سرگرم رکن سید مظہر شیرازی کو گھر کی دہلیز پہ قتل کر دیاتھا۔مظہر شیرازی گزشتہ سال چاند رات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے شاہد شیرازی ایڈوکیٹ کے چچا تھے جس کے قتل کے بعد شہر میں پنگامے پھوٹ پڑے تھے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ موثر حفاظتی اقدامات کے باوجود تشدد کے واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردی کی اس عمومی لہر میں نہایت پراسرار انداز میں غیر جانبدارعلماء کو قتل کر کے مختلف مکاتب فکر کے پیروکاروں کے اذہان میں نفرتوں کے بیج بونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی  بھی عالم دین کے قتل کی  یہ پہلی وارادت نہیں۔چند ماہ قبل دو نامعلوم دہشتگردوں نے جے یو آئی کے رہنما اور برصغیر کے عظیم علمی گھرانے کے معروف عالم دین مولانا حماد فاروقی آفندی کو مدرسہ سے گھر واپس جاتے ہوئے کنیراں والے گیٹ کے قریب ٹارگٹ کر کے مارنے کی کوشش کی۔اس  حملہ میں مولانا حماد فاروقی کا جواں سال بیٹا مولانا عماد اللہ فاروقی آفندی جاں بحق ہواجبکہ وہ خود ریڑ کی  ہڈی میں گولی لگنے کے باعث ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔علماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ کی  بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد مقامی پولیس نے تمام مکاتب فکر کے علماء اور نمایا ں رہنماوں کو ایک مراسلہ  جاری کر کے اپنی نقل و حمل کو محدود کرنے اوراپنی حفاظت کے لئے لائسنس یافتہ اسلحہ ساتھ رکھنے کی تلقین کی ہے۔

اس مراسلہ  میں انہیں گھروں کے دروازے مقفل رکھنے اور اپنے بچوں کو بھی محتاط طرز عمل اپنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ پولیس کی جانب سے علماء کرام کو اپنے تحفظ کیلئے خود ہی غیر معمولی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ مصدقہ خفیہ اطلاعات کے بعد دیا گیا ہوگا ،اسلئے قتل وغارت گری کے سلاسل کے جلد تھم جانے کی امید نہیں کی جا سکتی۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ہمارے معاشرے کی سطح کے نیچے موجود فرقہ وارایت کا ناسور  ختم نہیں ہوسکاجو  وقفہ وقفہ سے پولیس اہلکاروں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کو نشانہ بنا کر سماجی امن کو تہہ و بالا رکھتا ہے۔

ملک کے جیدعلماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ کی پُراسرار  لہر جنرل مشرف دور کے ابتدائی سالوں میں اٹھی جس میں مرتضی ملک جیسے غیر متنازعی مذہبی سکالرز،کراچی کے مدرسہ بنوری ٹاون کے مہتمم اور تحریک ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا یوسف لدھیانوی،ان کے جانشین مفتی شامزئی اور چارسدہ کے مولانا حسن جان جیسے عظیم علماء کرام یکے بعد دیگرے قتل کر دیئے گئے۔اس عہد  میں شیعہ،سنی،دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر  کے علماء کرام کو چن چن کر قتل کیا گیا،علماء کی ٹارگٹ کلنگ میں فرقہ پرست تنظیموں کا ہاتھ ہونے کے علاوہ مبینہ طور پر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔باخبر ذرائع کے مطابق دو تین سال قبل افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی اے نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خفیہ ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے افغان طالبان کے حامی کئی نمایاں افغان علماء کو قتل کرایا۔

گزشتہ چار سالوں سے خیبر پختون خواہ میں بھی مقامی اور افغان علماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں مولانا سید عطا ء اللہ شاہ سمیت کئی نامی گرامی عالم دین نشانہ بنے ہیں۔جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی سید عطاللہ شاہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر فرقہ وارانہ کشیدگی کا شاخسانہ نہیں بلکہ اس میں تیسری قوت ملوث ہے جو  طرفین کے جید علماء کے قتل کے ذریعے شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے درمیان نفرتوں کی آگ بھڑکانا چاہتی ہے تاہم مولانا نے اس تیسری قوت کی وضاحت نہیں کی۔مولانا فضل الرحمٰن کے خدشات کی تصدیق آئی ایس پی آر کی اس رپوٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں  چار سال قبل ہونے والے سانحہ راجہ بازار کو تحریک طالبان پاکستان اور بھارتی ایجنسیوں کی مشترکہ کارروائی قرار دیا گیا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ مسلم معاشروں کو منقسم کرنے کی خاطر مذہبی گروہوں کے مابین نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرتی رہی ہیں،اسی تناظر میں سمرقند اور غرناطہ کی تاریخ  زیادہ سبق آموز ہے ۔ہماری دانست میں وفاق اور صوبائی  حکومتوں اور ریاستی اداروں کا اولین فرض ہے کہ وہ عام لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے علاوہ خیبر پختون خوا ہ میں علماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ  کے پس پردہ محرکات کا سراغ لگائیں تا کہ دین مبین کے حامل علماء کے قتل کے لامتناہی سلاسل کو روکا جا سکے اگر علماء کو شہید کرنے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو معاشرہ نفرتوں کی آگ میں جل کر راکھ ہو جائے گا ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...