ٹرمپ کے خلاف پشتون احتجاج کی حقیقت

947

پاکستان کے پشتون خطے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اورافغانستان سے متعلق نئی پالیسی کے خلاف مظاہرہوئے ہیں۔ ایک مظاہرہ خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں ہواجس میں مظاہرین نے پاکستان کے پرچم ہاتھوں میں اٹھائے پاک افغان سرحد طورخم کی طرف مارچ کیا۔ عام خیال یہ ہے کہ مظاہرے اسٹبلیشمنٹ کے ایماپرکئے گئے ہیں۔ بظاہراس مفروضے کواس امرسے تقویت پہنچتی ہے کہ مظاہرے ان علاقوں میں ہوئے جہاں فوجی آپریشن ہورہے ہیں اوران مظاہروں میں وہ لوگ  پیش پیش رہے جوطالبان کے ہاتھوں نقصان آٹھائے ہوئے ہیں جبکہ فوج  نے انکی بحالی میں کردار ادا کیا۔ پشتون قبائلی سردار، عمائدین اور مشران  طالبان سے تنگ اورپریشیان رہے ہیں۔ جب طالبان ریاست سے ٹکراومیں آئے تواشرافیہ نے کسی نہ کسی طرح سے ریاست کاساتھ دیا۔فوجی آپریشنوں کے ذریعے ریاست نے یہ علاقے طالبان سے خالی کرواکے پشتونوں کو ایک طرح سے تحفظ فراہم کیالیکن معاملہ اتناسادہ نہیں ہے۔  پشتونوں کے وہ عناصر جوٹرمپ کے خلاف  ہونے والے مظاہروں پربے چین اورتنقید کررہے ہیں، وہ بھی طالبان اوردیگراسلامی شدت پسندوں کے خلاف ہرفوجی آپریشن اور بمباری کی تائید کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی فوج پرتنقید کرنے والے اورافغانستان کے ہمدرد اصل میں پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد سابقہ لبرل ولیفٹ عناصرپرمشتمل ہیں۔ پشتون سرمایہ دار اورپوسٹ ماڈرنسٹ دونوں ہی شدت پسند اسلامی تنظیموں کے سخت خلاف ہیں، اوران کے خلاف فوجی آپریشنوں کے حامی ہیں۔ البتہ پشتون سرمایہ دار سے لے کرمڈل کلاس کی بڑی اکثریت تک کلی طورپرپاکستانی ریاست اوراس کی فوج کے ساتھ ہیں۔ یہ چاہے اے این پی، پی پی پی یا کسان گروپوں میں ہوں یا پھریہ تحریک انصاف، ن لیگ ، جماعت اسلامی یا جے یو آئی میں ہوں۔ اس کے برعکس پوسٹ ماڈرنسٹ چاہے کسی بھی پارٹی میں ہوں وہ سرحد کے آرپار امریکی کردارکواہمیت دیتے ہیں اوراسی پرسیاسی پارٹیوں میں تقسیم بھی نظرآتی ہے۔

جب افغانستان سے ملحقہ فاٹا اوربلوچستان کے پشتون پٹی میں قبائلیوں نے ٹرمپ، افغان حکومت اوربھارت کے خلاف احتجاج کیاتو پوسٹ ماڈرنسٹ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پرآسمان سرپہ اٹھالیا لیکن بہت ہی جلد ان کی بے چینی میں اس وقت اضافہ ہواجب پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پی وائی یو اوراے این پی نے پشاوراورکراچی میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کئے۔اس موقع پر پوسٹ ماڈرنسٹ  نظریات سے متاثرسیاسی کارکنوں اوردانشوروں نے سوشل میڈیا پران کوخوب طعنے دیے۔ پشتونخواہ سے تعلق رکھنے والے ہمایوں کاسی نے 28اگست کواپنی پوسٹ پران عناصرپرطنزکرتے ہوئے یاد دلایا کہ “ٹرمپ کے خلاف حب الوطنی سے سرشار دھرتی پر ایک بھی احتجاج نہیں ہوا،  واھگہ پر نہ پنجاب کے کسی اور شہر میں،غداروں کی سرزمین کا گل خان بیچارہ اپنے شناختی کارڈ بحال کروانے کی خاطر کبھی ژوب، کبھی چمن، کبھی تورخم تو کبھی انگور اڈہ پر اپنا اکلوتا جوڑا ٹرمپ اور مودی کے خلاف احتجاج میں پھاڑ دیتا ہے اور پھر سارا سال ننگا پھرتا ہے” وکیل اورسرگرم کارکن طارق افغان نے کہا ” پشاور میں بلور صاحب نے امریکہ مخالف احتجاج کا اعلان کردیا،چارسدہ میں پختون ایس ایف نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیا کہ وہ تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم لانا چاہتے ہیں، اب بندہ اپنا سر دیوار سے نہ مارے تو اور کیا کرے”۔ بہت سارے ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف اقدامات پرپھولے نہ سمائے اورامریکہ کوجلدازجلد پاکستان میں مداخلت پراکسانے سے بھی گریزنہ کیا تودیگرنے انھیں یاد دلایاکہ اس طرح توپھرپشتون سرزمین پرہی مزید خون خرابہ ہوگا۔ بعض نے توامریکہ کی مذمت کرنے پرعمران خان پربھی طنزکئے۔پشتون قوم پرستوں کواس بات پر افسوس ہورہاہے کہ “پشتونستان کا دن”کسی کو یادنہیں رہاجب 31اگست 1949کوقبائل اورافغانستان میں معاہدہ ہواتھا، لیکن ان کوٹرمپ کی نئی پالیسی پراحتجاج میں دلچسپی ہے۔

پشتونوں کی واضح اکثریت اپنے مفادات پاکستان سے وابستہ کرتی ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پشتون  مڈل کلاس اور اشرافیہ  جانتے ہیں کہ افغانستان میں بھی ان کے مفادات کی بہترین ضامن پاکستانی ریاست ہے۔ یہاں تک کہ پشتون کاروباریوں، تاجروں اورٹرانسپورٹرزکوسینٹرل ایشیاء تک رسائی کی ضامن بھی پاکستانی ریاست ہے۔ ٹرمپ کے خلاف اورپاکستان کے حق میں مظاہرے اسی طبقاتی مفادات کا اظہارہے۔

پشاورکی نمک منڈی میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کے انعقاد پرتوکھلبلی مچ گئی اورپوسٹ ماڈرنسٹ دانشور، پارٹی رہنماوں سے اس مظاہرے کو ملتوی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے بقول بشیربلورقومی شہید ہیں اوراسے وطن اورقوم کے دشمنوں نے شہید کیامگرافسوس کہ اس کابیٹا اپنے باپ کے قاتلوں کی صف میں کھڑاہے۔ دانشوروں کے نزدیک طالبان کے پیچھے پاکستان کی اسٹبلیشمنٹ ہے اوراسی نے بشیربلورکوقتل کیا۔ لیکن بشیربلورنے اپنے دورمیں پاکستان کاسب سے بڑا جھنڈا کنگھم پارک پشاورمیں لہرایاتھا۔کچھ نے پشتونوں کے ہزاروں کی تعداد میں بلاک شناختی کارڈز کی طرف اشارہ کیا لیکن کراچی میں ن لیگ اورجے یوآئی کے علاوہ تقریباتمام پارٹیوں بشمول اے این پی اوراس کی ذیلی تنظیموں نے ٹرمپ کے خلاف ایک مشترکہ احتجاج میں شرکت کی جس نے امریکی قونصلیٹ تک مارچ کیا۔ اے این پی نے پاک فوج کے جنرل باجوہ کے حق میں پینافلیکس اٹھائے ہوئے صوبائی جنرل سیکریٹری یونس بونیری کی قیادت میں شرکت کی۔ ایک سینئرصحافی کے بقول اسٹبلیشمنٹ کے کہنے پرسب نے لبیک کہامگریہ پشتون اشرافیہ اورمڈل کلاس کے طبقاتی مفادات کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔

پشتونوں کی واضح اکثریت اپنے مفادات پاکستان سے وابستہ کرتی ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پشتون  مڈل کلاس اور اشرافیہ  جانتے ہیں کہ افغانستان میں بھی ان کے مفادات کی بہترین ضامن پاکستانی ریاست ہے۔ یہاں تک کہ پشتون کاروباریوں، تاجروں اورٹرانسپورٹرزکوسینٹرل ایشیاء تک رسائی کی ضامن بھی پاکستانی ریاست ہے۔ ٹرمپ کے خلاف اورپاکستان کے حق میں مظاہرے اسی طبقاتی مفادات کا اظہارہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...