سعودی عرب میں گرفتاریوں کی تازہ لہر
رواں ہفتے میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق سعودی عرب میں بیس علماء اور دانشوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں سعودی عرب میں سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا حصہ ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں سلمان العودہ اور عائض القرنی جیسے بلند پایہ اور معروف علماء بھی شامل ہیں۔ ان علماء میں شیخ علی العمری بھی شامل ہیں۔ شیخ محمد العریفی بھی گرفتاریوں کی تازہ لہر کی نذر ہوئے ہیں۔ ٹویٹر پر ان کے پیرووں کی تعداد 19ملین ہے جب کہ فیس بک پر 24ملین انھیں فالو کرتے ہیں۔
گرفتاریوں کی تازہ لہر کا شکار معروف سعودی شاعر زیاد بن نحیت بھی ہو ئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ان صحافیوں پر تنقید کی تھی جو سعودی قطر اختلافات سے سوئے استفادہ کررہے ہیں۔ ایک سعودی ذریعے کا کہنا ہے کہ داعش کے نام پر حال ہی میں ہونے والی گرفتاریوں کا تعلق بھی دراصل اخوان المسلمین سے ہے، اس نے یہ بات رائٹر زسے کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔
بعض فعال سعودیوں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں گرفتار ہونے والوں میں علماء کے علاوہ اساتذہ، صحافی اورشاعر بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں محمد الہبدان، غرم البیشی، شیخ عبدالمحسن الاحمد، محمد عبدالعزیز الخضیری، ابراہیم الحارثی، صحافی فہد السنیدی وغیرہ بھی شامل ہیں۔
لندن میں سعودی عرب کے قانونی امور سے متعلق ایک ادارے کے سربراہ یحییٰ العسیری کا کہنا ہے کہ العودہ،القرنی، فرحان المالکی اور مصطفی حسن کی گرفتاری میں کوئی شک نہیں البتہ دیگر گرفتار علماء کے بارے میں ابھی تفصیلات ہم تک نہیں پہنچیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حسن،فرحان المالکی ایک دینی مبلغ اور محقق ہیں۔ انھیں پوری دنیا میں عام سلفی عقائد سے ہٹ کر بعض عقائد کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ سعودی سرکاری ادارے العربیہ نے بھی اپنی رپورٹ میں گرفتاری کی وجوہ میں ایسے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرحان المالکی کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ عدالت صحابہؓ کے بارے میں ان کا نظریہ خاصا زیر بحث رہا ہے اور اس کے بارے میں ایک حساسیت بھی پائی جاتی ہے۔ المالکی 2014میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔ البتہ رہائی کے بعد ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
حکومتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قوتوں کے لیے ملک کی سیکورٹی کے خلاف کام کرنے والے چند افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔تاہم رائٹرزکی رپورٹ کے مطابق گرفتارہونے والے افراد میں سے بعض کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب نے اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے رکھا ہے۔ سعودیہ اور قطر کے مابین اختلاف کا سبب بھی قطر کی طرف سے اخوان المسلمین کی حمایت ہے۔ جب کہ قطر کا کہنا ہے کہ اس نے اخوان کی حمایت تو ضرور کی ہے لیکن ا س نے القاعدہ اورداعش سے وابستہ ’’جہادیوں‘‘ کی کوئی کمک نہیں کی۔
برطانیہ میں حقوق انسانی کے کارکن یحییٰ العسیری نے ڈیلی وال سٹریٹ جنرل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ سلمان العودہ کو 9ستمبر2017 کو ریاض سے گرفتار کیا گیا ہے۔ حکومت نے انھیں قطر کے مسئلے میں حکومتی نقطۂ نظر کی مخالفت کرنے پر گرفتار کیا ہے۔ سلمان العودہ نے 8ستمبر جمعہ کو ایک ٹویٹ میں محمد بن سلمان اور شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے مابین ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے کو مثبت قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ دونوں ملکوں کے مابین پیدا شدہ بحران ختم ہو جائے گا۔
سلمان العودہ اپنے نظریات کی بنا پر -1999 1994 کے دوران میں بھی گرفتار رہے ہیں۔ ٹویٹر پر ان کے فالوئرز کی تعداد 14ملین ہے۔جب کہ شیخ عائض القرنی کا تعلق سعودی عرب کے شہر ابھا سے ہے۔ انھوں نے بھی قطر سے روابط بہتر بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹویٹر پران کے وابستگان کی تعداد2ملین ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں قطر کی حمایت اور اس سے تعلقات قائم کرنے کی وکالت جرم ہے۔
شیخ عائض القرنی پر اخوان المسلمین کی حمایت کا الزام بھی ہے۔ البتہ وہ شاہی حکومت کے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے آغاز میں وہ شاہی حکومت کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ انھوں نے فوجی لباس پہن کر محاذ پر شاہی افواج سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا اور یمن کی طرف ایک گولہ بھی فائر کیا۔ البتہ مصر کے ڈاکٹر مرسی کی حمایت کی وجہ سے وہ سعودی حکومت کے زیر عتاب بھی رہے ہیں۔
ان علماء کی گرفتاری پر سعودی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ ٹویٹر استعمال کرنے والے شہری ان گرفتاریوں پر شدید تنقید کررہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد بیرونی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے سعودی عرب کی قومی سلامتی، اس کے مفادات، منہج، تنصیبات اور سماجی تحفظ کو نقصان پہنچاتے ہوئے ملک میں فتنہ وفساد برپا کرنے کی سازشیں کررہے تھے۔
العربیہ کا کہنا ہے کہ جاسوسی اور تخریب کاری کی سرگرمیاں میں ملوث عناصر میں مقامی اور غیر ملکی دونوں شامل ہیں۔ حراست میں لیے جانے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، جلد ہی ان سے کی جانے والی تحقیقات کے نتائج سے قوم کو آگاہ کیا جائے گا۔
’’العربیہ‘‘ ٹی وی چینل کے ذرائع کے مطابق حراست میں لیے گئے عناصر سعودی عرب کی اہم شخصیات کے خلاف عوام میں نفرت پھیلانے، مشکوک کانفرنسوں کا اہتمام کرنے اور حکومت وقت کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لٹریچر کی تقسیم سمیت دیگر سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی مخالفین پر حکمران شاہی خاندان کے حملے کی تازہ لہر ہے۔سعودی عرب میں گرفتار ہونے والوں میں بعض نے محمد بن سلمان کی ولی عہدی پر اعتراض کیا تھا ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق ولی عہد محمد بن نائف کی سبکدوشی کے بعد سے شاہی خاندان کے اندر اور باہر حکومت کی سیاسی مخالفت میں اضافہ ہو گیاہے۔ محمد بن نائف سمیت آل سعود کے بہت سے شہزادے نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد اب شاہ سلمان کے تمام اختیارات عملاً انہی کے ہاتھ آ گئے ہیں۔
گذشتہ سوموار(11ستمبر2017) کو جس روز شیخ سلمان العودہ کو گرفتار کیا گیا اسی روز ایک اور شہزادے کی گرفتاری کی خبر بھی رائٹرز سمیت بعض عالمی ذرائع ابلاغ نے دی تھی۔ عالمی سیاست کے ایک تجزیہ کار جان مارک ریکلی کاکہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ شاہ سلمان حکومتی امور سے باقاعدہ کنارہ کشی اختیار کرلیں اور حکومت اپنے جواں سال بیٹے محمد بن سلمان کے سپرد کردیں۔ سرکاری طور پر اس امر کی اگرچہ تردید کی گئی ہے لیکن عملاً حالات اسی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
جب ہم یہ مضمون مکمل رہے تھے تو یہ اطلاع موصول ہوی کہ گرفتار علماء میں سے شیخ محمد العریفی رہا ہو گے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے