سکھر کے ہندووں کا تحفظ کے لیے بلند وبالا عمارتوں کی طرف رجحان
سکھر صوبہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ دیگر شہروں کی طرح یہ بھی کئی مسائل کا شکار ہے۔ یہاں نوے کی دہائی تک بلند و بالا عمارتوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پھر اچانک تعمیراتی کام میں تیزی آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر “سیمنٹ کا جنگل” بن گیا. کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث شہر کی بڑی شاہرائیں مارکیٹیں اور عوامی مقامات تنگ ہونا شروع ہوگئے۔ ادھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ کسی شہری کو چارمنزل سے اونچی عمارت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔.
شہر میں بلند و بالا عمارتیں بنانے کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہر میں موجود ہندوآبادی ایسی عمارتوں کو اپنی حفاظت کی غرض سے استعمال کر رہی ہے. سکھر میں 2007 تک 310 ہندو خاندان آباد تھے۔جن کی تعداد دس سالوں میں اب چھبیس سو تک پہنچ چکی ہے۔ ہندو آبادی کی اکثریت نے 2010 میں سکھر کا رخ کیا جو تین چار سال مسلسل جاری رہا۔ اس نقل مکانی کی وجہ بدعنوانی، جرائم اور ہندو لڑکیوں کا اغوا تھا. انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ایک اندازے کے مطابق ہر مہینے 20 سے زیادہ ہندو لڑکیاں اغوا ہو جاتی تھیں. ہندو کمیونٹی کی پاکستان میں آبادی صرف دو فیصد ہے جس کی اکثریت سندھ میں آباد ہے۔
سکھر کے دیہی علاقوں میں ہندو آبادی کو کئی بار تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی بظاہر وجہ ہندوؤں کا مسلم قبائل (مہر، جتوئی وغیرہ) کا حصہ نہ ہونا تھا۔ اسی طرح ان کے ساتھ کوئی طاقتور حمایت بھی نہ تھی۔ ہندو کاروباری افراد تھے، انہوں نے گھوٹکی ،خیر پور ،شکار پور، جیکب آباد، کشمور اور کندھکوٹ کی بنسبت سکھر کو ہندوؤں کے لیے زیادہ موزوں اور محفوظ سمجھا، چنانچہ ہندو کاروباری افراد نے اپنا سارا کاروبار بھی اسی شہر میں منتقل کرلیا۔.
بالائی سندھ میں ہندو پنچایت کے سربراہ مکھی ایشور لال مکھیجا نے اس ہندو نقل مکانی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے ہندو خاندانوں نے اپنا کاروبار سکھر میں منتقل کرلیا ہے اور اب وہ پہلے سے زیادہ اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس منتقلی کا بنیادی سبب قانون کی کمزوری اور رٹ آف لاء کا نہ ہونا ہے، شہر میں صحت کی صورتحال اور بچوں کی سکولوں تک رسائی کا نظام دیہی علاقوں اور دوسرے چھوٹے شہروں سے قدرے بہتر ہے۔.
شہر میں 2014 تک سو کے لگ بھگ بڑی عمارتیں تعمیر ہوچکی تھیں. جن میں 80 سے زائد متعلقہ سرکاری محکمے کی اجازت کے بغیر بنائی گئی تھیں. جبکہ ان عمارتوں میں پارکنگ، نکاسی آب، پانی کی فراہمی اور ہوا کی کراسنگ جیسے بنیادی انتظامات تک نہیں ہیں. اس کے باوجود بھی ان فلیٹس کی مانگ بہت زیادہ ہے. فلیٹس میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ پہرے کے لیے نیچے گارڈ بٹھائےجا سکتے ہیں. ان عمارتوں کو بنانے والے اکثر ہندو ہیں جو شہر کی بااثر شخصیات کے سہارے یہ غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔.
سکھر میں زیادہ تر بلند عمارتیں 1992 سے 2010 کے درمیان سکھر میونسپل کارپوریشن کی منظوری سے تعمیر ہوئیں۔ اسی لیے حال ہی میں وجود میں آنے والا محکمہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اب سارا ملبہ سکھر میونسپل کارپوریشن پر ڈال رہا ہے جبکہ سکھر میونسپل کارپوریشن ۲۰۱۰ کے بعد بننے والی عمارتوں کا ذمہ دار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ٹھہرا رہا ہے یوں دونوں محکمے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ مزید عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔.
ایس بی سی اے کے ایک سابق ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس نے چار منزلہ عمارت سے زیادہ کی تعمیر کی اجازت کبھی کسی کو نہیں دی. ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ 10 عمارتوں والی اسٹوری کیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ سیاسی اثرورسوخ کے ساتھ اس طرح کی مزید اسٹوریاں بھی وجود میں آسکتی ہیں. آپ کسی بااثر سیاستدان کو پانچ لاکھ دے کر ایسی مزید عمارتوں کی اجازت لے سکتے ہیں۔.
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ شہر اتنی بے ترتیبی سے کیوں وجود میں آیا. انیس سو تیس کے بعد آج تک اس شہر کے لیے کوئی نقشہ نہیں بنایا گیا۔ سکھر میونسپل کارپوریشن آج تک یہ کام کرنے میں ناکام ہے جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے صرف زیر تعمیر عمارتوں سے متعلق کچھ قوانین اور منصوبہ بندی کی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑی اور مہنگی مہنگی بلڈنگیں شہر کے پارک، بلدیہ، ریلویز اور تجارتی مراکز سب کو ہڑپ کرتی جا رہی ہیں۔ گنجان آباد مارکیٹ کے احاطے میں سات سات اور آٹھ آٹھ تنگ عمارتیں محض 120 مربع گز یا اس سے بھی کم جگہ پر تعمیر ہو رہی ہیں۔
بندر روڈ، میانی روڈ، بھٹہ روڈ، کوئیز روڈ اور منہارہ روڈ پر بہت مہنگی پراپرٹی ہو گئی ہےجسے ہندو خاندان تیزی سے خرید رہے ہیں. وہ اس کا مہنگا سے مہنگا معاوضہ بھی دے رہے ہیں. کسی عام آدمی کے لیے اس کا خریدنا بہت مشکل ہے. مینارہ روڈ پر واقع ڈولفن ٹاور جوابھی زیر تعمیر ہے اس کا ایک یونٹ 11 کروڑ کا بُک ہوچکا ہے جب کہ اب اس کی قیمت 14 کروڑ بتائی جا رہی ہے. رہائشی اتنے دام صرف محفوظ ہونے کی غرض سے نہیں بلکہ محلے وقوع کی وجہ سے دے رہے ہیں. ہندو سربراہ مکھی ایشور لال کے مطابق ہندو خاندان ائر پورٹ روڈ سے باہر واقع سوسائٹیوں میں جانے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ اپنی سوسائٹی کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں اس طرح وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اس لئے وہ شہر سے باہر جانے پر
تیار نہیں ہورہے۔
ترجمہ :عاطف ہاشمی (بشکریہ :فرائیڈے ٹائمز)
فیس بک پر تبصرے