تعلیم یافتہ دہشت گرد

1,080

عمومی تصور  یہ ہے کہ  شدت پسندی اور دہشت گردی غربت، جہالت اور بے روزگاری کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس میں ملوث افراد دینی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا ہوتے ہیں، جنہوں نے جدید تعلیمی اداروں کی شکل تک نہیں دیکھی ہوتی۔ یہ خود بھی دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں اور مذھب کی غلط تشریح کا سہارا لیتے ہوئے کم پڑھے لکھے لوگوں، خصوصا مذہب سے لگاو رکھنے والے نوعمر نوجوانوں کو بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کی طرف راغب کرتے ہیں۔دنیا بھر خاص کر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑانے سے مندرجہ بالا  تاثر کی نفی ہوتی ہے۔ 43 نہتے اسماعیلیوں کے قتل کا دلخراش سانحہ صفورہ گوٹھ اور انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے قتل میں ملوث آئی بی اے ( IBA ) کراچی کا طالب علم ساعد عزیز ہو ، داعش سے وابستہ میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری یا پھر حال ہی میں MQM کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر عید کے روز مبینہ حملہ آ ور  جامعہ کراچی کا سابقہ طالب علم عبدالکریم سروش صدیقی ہو، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد پاکستان کے جدید تعلیمی اداروں میں بھی نقب لگانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ افغان جہاد کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں شدت پسندی ، عدم رواداری و  بردا شت نے فروغ پایا جس سے ہمارے دینی مدارس کے ساتھ ساتھ  دنیوی  تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہ رہ سکے  اور آج شدت پسند عناصر ہماری اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کواپنے مذموم مقاصد میں استعمال کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو ایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جو نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ٹیکنالوجی خاص کر سوشل میڈیا اور کمیونیکشن ٹولز اینڈ ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔

2017  کراچی میں منظر عام پر آنے والا اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل  نیا  دہشت گرد گروہ انصار الشریعہ پاکستان  سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر  بھی حملے میں ملوث ہے۔ یہ  داعش سے جدا ہو کر بننے والا ایک نیا گروہ ہے جس میں لشکر جھنگوی ، القاعدہ ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان کے سابقہ اراکین شامل ہیں۔اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نظریات سے متاثر افراد کا یہ گروہ   ماضی قریب  میں  شام میں جبھتہ النصرہ نامی گروہ کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف کاروائیوں میں ملوث رہا ہے ۔ شام وعراق میں داعش کی شکست کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ فروری 2017 سے اب تک یہ گروپ پانچ کاروائیاں کر چکا ہے جس میں  ایک ریٹائر کرنل سمیت متعدد پولیس اہلکار اور عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔  اندیشہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے مزید تجربہ کار جنگجو ہو سکتے ہیں جو ان چھوٹے گروپس کو ساتھ ملا کر پاکستان میں بڑے حملے کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں شام کے محاذ سے فارغ ہونے والے مزید دہشت گرد بھی پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں جس سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

شدت پسندی اور دہشت گردی کو صرف غربت کے ساتھ نتھی کرنا بھی درست نہیں کیونکہ دہشت گرد متمول گھرانوں کے نہ صرف طلبا بلکہ بعض اساتذہ کو بھی شدت پسندی کی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔دس سے بارہ  افراد پر مشتمل گروہ انصار الشریعہ میں شامل جن  افراد کا اب تک پتا چلایاگیاہے   یاانہیں  گرفتار کیا گیا ہے ان کی اکثریت نہ صرف کراچی کے اعلی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر چکی ہے بلکہ  بعض  کے والد  بھی شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے بیانیہ سے پاکستان کے متمول اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں سے بعض لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو چکےہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف ریاستی بیانیہ کیا ہے اور اسکی ترویج کے لیے ریاستی سطح پر کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں ؟ اب تک کی تحقیق کے مطابق انصار الشریعہ نے کراچی میں دہشت گردی کے لیے سوشل میڈیا اور رابطے کے لیے مخصوص سافٹ ویئر ایپلیکیشنز کا استعمال کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی ذرائع کی کڑی نگرانی کے بعد دہشت گرد رابطے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کے اذہان کو آلودہ کرنے اور انہیں اپنے جال میں پھا نسنے کے لیے دہشت گرد پاکستان سمیت پوری دنیا میں سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت نورین لغاری کیس ہے۔ ایسے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کیا موثر حکمت عملی ہے، جس سے سوشل میڈیا اور دیگر  کمیونیکشن ٹولز کو موثر طور پر مانیٹر کیا جا سکے ؟

 پاکستان  کو سوشل میڈیا مونیٹرنگ کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا پڑے گی یا پھر متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدات کرنا ہوں گے جس سے پاکستان میں موجود سوشل میڈیا صارفین پر نظر رکھی جا سکے اور مشکوک عناصر کے حوالے سے بروقت تھریٹ الرٹ جاری ہو جس سے ان کو کسی بھی مذموم کروائی کرنے سے پہلے  گرفتار کیا جا سکے۔  

ملک سے شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو دینی مدارس کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی گہری نظر رکھنا ہو گی  کیونکہ شدت پسند و دہشت گرد عناصر تعلیمی اداروں میں طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی شدت پسندی کی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کو مثبت سیاسی و ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنا ہو گی۔ اگر آج بھی 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو جائے تو اس کے مثبت اثرات ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی نظر آئیں گے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان شدت پسندی و  دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عسکری و سیاسی ہر دو حکمت عملی پر عمل کرے اور بحثیت ریاست کسی بھی ابہام کا شکار نہ ہو۔ بصورت دیگر ہماری اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نسل دہشت گردی کا ایندھن بنتی رہے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...