برصغیر……..متضاد روّیہ رکھنے والوں کی سرزمین
ہماری مثال اُس قوم کی طرح ہے جس کے ہاں کسی نے اندھیری رات میں چراغ روشن کیا، چراغ کو آندھی اور ہوا سے محفوظ کرنے کے بجائے وہ قوم چراغ جلانے والے کی مدح سرائی میں مصروف ہو گئی اور چراغ گل ہو گیا۔ چراغ جلانے والے آتے رہے اور اسی طرح وہ قوم اُن کی تعریف و توصیف میں مصروف رہی اور چراغ بجھتے رہے جبکہ اُن کی تعریف اور شکر گزاری کا تقاضا یہ تھا کہ چراغ سے چراغ روشن کیے جاتے اورمعاشرے سے ظلمت کے خاتمے کا اہتمام ہوتا۔برصغیر کی سرزمین پہ رہنے والوں کے مزاج ، رویوں اور فکری سفر کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مفکرین و مصلحین اپنی فکر و تحقیق سے زیادہ ذات اور شخصیت میں معروف و معزز ہوئے۔ خاص طبقے نے اُن کی فکر سے استفادہ کیا لیکن اکثری طبقہ اس سے محروم رہا اور خاص طبقے میں بھی اکثریت نے اُن کے کام کا تنقیدی نظر سے نہیں بلکہ تقلیدی نظر سے مطالعہ کیا ۔ اس لیے اس طبقے نے اُنہیں اُن عنوانات سے نوازدیا جنکاشاید اُن شخصیات نے خود بھی اس کا تصور نہ کیا ہوگا۔ مثلاً مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کو مجدد، مولانا اشرف علی تھانوی کوصاحب حکیم الامت اور مولانا مودودی صاحب کو رمزشناسِ نبوت جیسے عنوانات سے نوازا گیا۔ مجھے کسی شخصیت کو دیے جانے والے ایسے عنوان و لقب پہ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اِن کے افکار سے شناسائی بھی بہت ضروری ہے۔ دور حاضرمیں کوئی مجلس بھی ذکرِ اقبال کے بغیر ختم نہیں ہوتی۔ کوئی منبر و محراب ہو گا جہاں اقبال کے اشعار نہ پڑھے جاتے ہوں لیکن فکرِ اقبال سے ناشناسائی کا عالم یہ ہے کہ اقبال کے خطبات مذہبی طبقے کیلئے یا تو مشکل ہیں یا وہ مطالعہ نہیں کرتا۔ ورنہ روایتی اور تکفیر ی فکر کے حامل علماءکبھی بھی اقبال کے اشعار اپنی تقریروں میں نہ پڑھیں۔ اقبال کی اپنی زندگی میں اقبال کے بے شمار اشعار اور خاص طور پر خطبات پہ نہ صرف اعتراض کیا گیا بلکہ “فتویٰ تکفیر” بھی لگایا گیا۔ میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے فرمانے لگے “ہمارے حضرت صاحب فرماتے ہیں اقبال اپنے اس شعر کی وجہ سے پکڑ میں ہے”جس میں ابلیس جبریل سے کہتا ہے۔
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
میں نے اُن سے گزارش کی کہ اگر ایک شعر سے اقبال کی پکڑ ہے تو بہت سے اشعار اقبال کو چھڑوانے والے بھی ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کیا اس شعر میں اقبال نے ابلیس کی زباں سے یزداں اور جبریل کی نسبت سے اللہ کہلوایا ہے۔ اس سے بات سمجھ آجانی چاہیے۔ میں نے کہا آپ حضرت صاحب سے کہیں ” ایسا دعویٰ نہ فرمائیں، اب دعوے کا نہیں دلیل کا زمانہ ہے” ۔
برصغیر میں حضرت شیخ احمد سرہندی، شاہ عبد الحق محدث دہلوی، حضرت شاہ ولی اللہ جیسے مشاہیر پیدا ہوئے ،یہ سلسلہ فقط یہیں تھما نہیں، گزشتہ دو صدیوں میں اللہ نے اس سرزمین پہ ایسے بڑے لوگ پیدا کیے جن کے تبحر علمی اور مقامِ فکری پہ کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے، فقط عجم ہی نہیں بلکہ عرب بھی اُنہیں تسلیم کرتا ہے۔ سر سید احمد خان، مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی، مولانا احمد رضاخاں بریلوی ،سید احمد شہید، سید امیر علی ، مولانا ظفر علی خاں، مولانا الطاف حسین حالی،حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام آزاد، قائدِ اعظم محمد علی جناح، علّامہ محمد اقبال، سید مودودی، سید عطا ءاللہ شاہ بخاری یہ ایک طویل فہرست ہے۔ اگر میں اسی طرح نام لکھتا جاﺅں تو شاید میں کچھ اور نہ لکھ سکوں۔ جب میں ان شخصیات اور اِن کے علمی ، ادبی، سیاسی اور صحافتی ورثہ دونوں میں موازنہ کرتا ہوں تو بر صغیر کے رہنے والوں نے بطور ذات و شخصیت اِن سے عقیدت و محبت رکھی اور بطور فکری راہنما کے ربط و تعلق کم ہی استوار کیا ہے۔ ہم اِن کے کام، کارنامے اور خدمات کے “ڈھولچی”بنے رہے لیکن اِن کی فکر اور علم سے اپنے اندر سنجیدگی پیدا نہ کر سکے۔ شاید اس میں بھی ہمارا جذباتی طرزِ فکر ہی رکاوٹ بنا رہا۔ ایک روز میڈیا اور پبلک کے معروف سکالر نے مجھے فرمایا” سر سید اور شبلی کو آج کون جانتا ہے، مجھے سب جانتے ہیں، اگر شہرت چاہتے ہو تو Popular Approachاختیار کرو ورنہ ایسے گمنامی میں مرجاﺅ گے “۔
برصغیر کے رہنے والوں میں یہ عجیب تضاد ہے کہ عالم اسلام میں، قرآن ،حدیث اور سیرت پہ سب سے زیادہ کام برصغیر میں ہوا ہے۔ سب سے زیادہ توہم پرستی، پیر پرستی، جادو ٹوٹکے اور روحانی بابا بھی اسی زمین پر ہیں۔ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اِن سے دم کروانے اور تعویذ لینے جاتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے بعد ہمارے تضادات کے وہ مخفی پہلو جو ابھی تک آشکار نہ ہوئے تھے اب اُن پرسے ایک ایک پردہ اُٹھ رہا ہے جہالت و قدامت کا وہ دور جس سے یورپ کبھی گزرا تھا ہم آج اُسی سے گزر رہے ہیں۔
اہلِ علم سے استفادہ کیلئے قوم کو اپنا معیارِ علم کسی حد تک بہتر کرنے کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک کسی قوم میں” مطالعہ کاکلچر” رواج نہیں پاتا اُس وقت تک وہ قوم اپنے مفکرین کے علمی مقام سے بے خبر رہتی ہے۔ مطالعہ کے کلچر میں تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ہماری اکثریت اعلیٰ تعلیم تو دور کی بات تعلیم سے ہی محروم ہے۔ ہمارے ہاں دستخط کرنے والا بھی تعلیم یافتہ کہلاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں ،شبلی، ندوی، سر سیداور اقبال کے افکار و نظریات سے واقفیت کم اور روحانی بابا کے عملیات سے واقفیت زیادہ ہوتی ہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ ہم نے مذہب اور سیاست جیسا مقدس مشن معاشرے کے نا اہل اور بددیانت افراد کے سپُرد کر دیا ہے۔ ہم جن اعلیٰ افکار کی حامل شخصیات کو Ownکرتے ہیں، اُن کے افکار و نظریات کو اختیار نہیں کرتے اور جنہیں Ownنہیں کرتے اُنہیں یہ حق ضرور دیتے ہیں کہ وہ مذہب و سیاست میں ہماری راہنمائی کریں اس لیے میں کہتا ہوں کہ برصغیر متضاد روّیہ رکھنے والوں کی سرزمین ہے۔
فیس بک پر تبصرے