تحریکِ خلافت میں سندھی ہندؤوں کو سزائیں
اُس وقت کے سیکولر ہندوستانی رہنماوں نے، جن میں محمد علی جناح بھی شامل تھے، سیاست میں مذہب کے اس استعمال سے اختلاف ظاہر کیا تھا۔ بعد کے واقعات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ تحریک ہندو مسلم اتحاد کے لیے نہایت کمزور بنیاد تھی، اور اس کے ختم ہونے کے بعد ہندوستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ سیاست متواتر زور پکڑتی گئی۔
تحریک خلافت کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے، لیکن اس میں سندھ کے ہندووںکا کردار عموماً نظرانداز کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھی ہندووںنے خلافت تحریک کے دوران ناصرف سزائیں بھگتیں بلکہ جرمانے بھی ادا کیئے۔1920 کے عشرے میں انگریز سامراج کے خلاف ہندوستان میں ہندووںاور مسلمانوں نے مشترکہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریکِ خلافت کی قیادت مولانا محمد علی جوہراور مولانا شوکت علی جوہر کر رہے تھے، جبکہ ترکِ موالات کی تحریک کی رہنمائی گاندھی جی کر رہے تھے۔ تحریکِ خلافت کا مقصد تُرکی میں خلافت کے خاتمے کو روکنا تھا۔سٹی پریس کی شایع کردہ کتاب ”کراچی کا تاریخی مقدمہ“ مرتبہ مرزا عبدالقادر بیگ کے ابتدائیے میں درج ہے کہ: اُس وقت کے سیکولر ہندوستانی رہنماوں نے، جن میں محمد علی جناح بھی شامل تھے، سیاست میں مذہب کے اس استعمال سے اختلاف ظاہر کیا تھا۔ بعد کے واقعات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ تحریک ہندو مسلم اتحاد کے لیے نہایت کمزور بنیاد تھی، اور اس کے ختم ہونے کے بعد ہندوستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ سیاست متواتر زور پکڑتی گئی۔ ستمبر 1922 میں وسطی ہند کے چوری چورا نامی گاوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ ہوا جس میں کئی کانسٹیبل مارے گئے۔ گاندھی جی نے اس واقعے کو عدم تشدد کی پالیسی کے منافی قراردیا اور تحریک کو ختم کرنے اعلان کردیا۔
تحریک کے مسلمان رہنما عرب ملکوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں اور خود ترکی میں خلافت کے خاتمے کے لیے پائے جانے والے عوامی جذبات سے بے خبر تھے۔ ان کو اس بات سے واقفیت نہ تھی کہ عرب باشندے اپنے ملکوں پر ترکوں کی حکومت کو خلافت اسلامیہ نہیں بلکہ نو آبادیاتی تسلط سمجھتے ہیں اور اس سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔3 مارچ 1924 کو مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں نئی حکومت نے خلافت کے باقائدہ خاتمے کا اعلان کردیا۔
آل انڈیاخلافت کانفرنس کا انعقاد کراچی میں9,8ا ور 10 جولائی1921کو ہوا۔ کانفرنس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی۔ جبکہ خطبہ استقبالیہ لیاری کے علاقے کھڈا سے تعلق رکھنے والے نامور عالمِ دین مولانا محمد صادق نے پیش کیا۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا اپنے ہندو بھائیوں سے ہر طرح اتفاق و اتحاد ہے اگر وہ ہم کو اپنی فریق محارب کے مقابلہ میں مدد بھی نہ دیتے ہوں، جب بھی ہمارا فرض ہے کہ ان کی غیر جانب داری کی وجہ سے ان کے ساتھ بہترین برتاو کریں۔ لیکن یہاں تو بالکل ہی اورصورت ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح سے مدد دے رہے ہیں اور اس طرح ہمارے لیے ترک موالات کے پروگرام پر عمل کرنے میں سہولیات پیدا کررہے ہیں اور ایسی حالت میں تو ہمارا اور بھی زیادہ فرض ہے کہ ہر طرح ان کی دل جوئی اور ان کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
معروف مورخ عثمان دموہی اپنی کتاب ”کراچی تاریخ کے آئینے میں“ میں مولانا صادق کے خطاب کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ انھوں نے کہا: حضرات! اس میں شک نہیں کہ ہمارے لیے تمام دنیا اور اس کے ہر قسم کے تعلقات سے بڑھ کر یہ امر ہے کہ اپنی شرعی احکام کا ہر وقت پاس کریں۔ اگر ہماری شریعت گاو کشی کو واجب یا فرض کی ادائیگی سے ہمیں باز نہیں رکھ سکتاہے اور پھرہم ہندو بھائیوں سے اس امر کے متعلق معذرت کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی شریعت میں ہمیں اس کے کھانے پر مجبور نہیں کیا اور یہ نہیں بتلایا کہ گائے نہ کھانے سے ہم مسلمان نہیں رہیں گے اور جب ایسا ہے کہ گائے کھانا ہمارے لیے جائز اور ہماری مرضی پر منحصر ہے تو پھر اگر گائے کے گوشت کے بجائے دوسرا گوشت استعمال کریں تو ہمارے لیے مذہبی ممانعت نہیں۔
کانفرنس میں جگت گروسری شنکر آچاریہ جی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: قدیم شاستروں اور دیگر کتبِ مقدس میں ہم کو صاف طورپر بتلایا گیا ہے کہ ہندووںکے لیے کاشی کی مثل مکہ بھی متبرک مقام ہے۔ نیز ان کتب میں دنیاکی آخری تباہی کے اسباب ووجود کا ذکر کرتے ہوئے نشاندہی کی گئی ہے کہ جب دنیا لامذہب اور کثرت معاصی کے باعث تباہ کردنی و برباد شدنی ہوجائے گی تو صفحہ ہستی پر مقام ِ امن دو ہوںگے: مکہ و کاشی۔
خلافت کانفرنس کے بعدکانفرنس میں پاس ہونے والی قراردادوں جن میں ہندووںاور مسلمانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ برطانوی سامراج کی ملازمتوں سے استعفے دیں۔آنریری، مجسٹریٹی و اعزازی عہدے حرام ہیں۔ گورنمنٹ کے خطابات رکھنا حرام ہے۔ سرکاری یا نیم سرکاری مدرسوں، کالجوں اور اسکولوں میں تعلیم ترک کی جائے تو حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے امداد کی وصولی حرام ہے۔اِس کی بنیاد پرعلی برادران اور دیگر کے خلاف کراچی کے خالق دینا ہال میں22ستمبر1921کو مقدمہ چلایا گیا۔مرزا عبدالقادر بیگ سٹی پریس کی مطبوعہ کتاب ”کراچی کا تاریخی مقدمہ“ میںپہلے دن کی کارروائی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: سماعتِ مقدمہ کے لیے خالق دینا ہال میں انتظام کیا گیا تھا جو وسطِ شہر میں بندر روڈ پر واقع ہے۔ اس ہال میں پان سو (500) ، چھ سو آدمیوں کی گنجائش ہے۔ ہال کے احاطے کے اردگرد خاردار تار لگائے گئے تھے اور چاروں طرف مسلّح پولیس اور فوجِ استادہ تھی۔ اسی طرح بندر روڈ پر پولیس کا پہرہ تھا۔ احاطے کے اندر ڈیڑھ سو ہندوستانی اور ڈھائی سو انگریزی فوج تھی۔ ایک مشین گن بھی ہال کے شمالی جانب لاکر نصب کی گئی تھی۔
ملزم لیڈران بند موٹر لاری میں لائے گئے۔ ان کی موٹر کے آگے ایک موٹر لاری میں مسلّح ہندوستانی پولیس تھی اور پیچھے دو موٹر لاریوں میں مسلّح فوجی گورے بھرے ہوئے تھے۔ جس وقت ان کی موٹر سڑک پر پہنچی تو لوگوں نے نعرہ ہائے اللہ اکبر بلند کیے جن سے ہال کے اندر بیٹھنے والوں کو ان کی آمد کی خبر ہوئی۔
ٹھیک گیارہ بجے ملزمان خالق دینا ہال کے اندر داخل ہوئے۔ جملہ حاضرین تعظیماً کھڑے ہوئے اور نہایت تپاک سے سلام اور نمسکار کرنے لگے جس کا لیڈران نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ سب سے پہلے مولانا محمد علی جوہر ایک ہاتھ میں قرآن شریف اور دوسرے ہاتھ میں سوان انک (روشنائی) کی بوتل لیے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے مولانا شوکت علی صاحب ہنستے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے مولوی حسین احمد صاحب کمال و قار اور متانت کے ساتھ جناب جگت گرو شنگر آچاریہ جی کے ساتھ تشریف لائے۔ جگت گرو صاحب نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ عصا ہاتھ میں لیے ہوئے تشریف لائے۔ ان کے بعد ڈاکٹر کچلو اور مولوی نثار احمد صاحب باتین کرتے، مسکراتے اور اشاروں سے سلاموں کا جواب دیتے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے پیر غلام مجدد صاحب مسکراتے ہوئے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے تشریف لائے۔
مجسٹریٹ صاحب نے آتے ہی ملزمان کے نام اور ولدیت دریافت کرنی شروع کی، جس کا جواب مولانا محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ: وارنٹ میں نام موجود ہیں۔ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔دیگر ملزمان نے کوئی جواب نہ دیا، البتہ شنکر آچاریہ جی نے کہا کہ: ہم لوگ اپنے مذہب کی رُو سے موجودہ سنیاس کی حالت میں اپنے باپ کا نام نہیں بتا سکتے، ہاں گُرو کا نام بتا سکتے ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب مجسٹریٹ نے جگت گرو سوامی شنکر آچاریہ جی سے کہا کہ وہ اپنا بیان دیں۔
شنکر آچاریہ جی نے بیٹھے بیٹھے زبانی بیان دینا شروع کیا۔
مجسٹریٹ: کھڑے ہو کر بیان دیجئے۔
شنکر آچاریہ جی: (کرسی پر بیٹھے بیٹھے) سواے اپنے روحانی گُرو کے ہم لوگ کسی شخص کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہم جیل خانے جاسکتے ہیں، مصائب برداشت کر سکتے ہیں، لیکن سنیاس کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ عدالت کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا ہمارے لیے اس سے آسان ہے کہ ہم مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کریں۔ ہم سے کھڑے ہونے کا مطالبہ کرنا ہمارے مذہب میں دخل دینا ہے۔
مجسٹریٹ: جب تک آپ کھڑے نہ ہوں گے میں آپ کا بیان نہیں لکھوں گا۔
مولانا محمد علی: مجسٹریٹ صاحب، کیا آپ کسی مذہب کے پابند نہیں ہیں؟ کیا آپ کی قوم ایک مذہبی قوم نہیں ہے؟ کیا آپ اپنے مذہب کی حفاظت میں وطن کو خیرباد کہہ کر اس ملک میں نہیں آئے تھے؟ آج آپ ایک سنیاسی کے مذہب پر دست درازی کرتے ہیں، آپ کو شرم آنی چاہیے۔
شنکر آچاریہ جی نے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف گواہوں نے اپنی شہادت میں کچھ بیان نہیں کیا ہے، لیکن مجسٹریٹ نے ان کی ایک نہ سنی۔
تحریک خلافت کے دوران85کے قریب مسلمانوں نے انگریز سرکار کی جانب سے دیے گئے آفرین نامے واپس کیے سرکاری ملازمتیں ترک کیں اور مختلف خطابات واپس کیے۔لیکن اس میں 7مسلمان عمائدین ایسے تھے جنھوں نے” کرسی“ سے دستبرداری کا اعلان کیا اس کے علاوہ 51کے قریب ہندو ایسے تھے جنھیں تحریک خلافت میںحصہ لینے پر ایک ماہ سے لے کر 24ماہ تک کی سزا بھگتنی پڑی علاوہ ازیں انھوں نے ایک ہزار روپے تک کے جرمانے بھی ادا کیے ۔ہندوﺅں کو دی جانے والی سزاﺅں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ” کرسی“چھوڑنے کے فیصلے کے بارے میں آپ کو بتائیں۔تقسیم سے قبل سندھ سے شائع ہونے والے” روزنامہ الوحید“ کی 22مئی 1920کی اشاعت میں ”کرسی “کی تشریح کچھ یوںکی گئی ہے :
انگریز دورِ حکومت میں سندھ کے اکثر زمیں دار اپنی، اپنی حیثیت کے مطابق علاقے کے افسروںکی دعوتیں کرکے اور حکومتی ”کاموں“میں مدد فراہم کرکے آفرین نامے حاصل کرتے تھے، اگر زیادہ خرچ کرنے کی طاقت ہوتی تھی اور حکومت کی نمایاں خدمت کی ہوں تو انھیں مختیار کار (تحصیل دار)کے دفتر میں ملاقات کےوقت کرسی پیش کی جاتی تھی۔ اسی طرح حیثیت کے مطابق کمشنر آفس میں بھی ان افراد کو بیٹھنے کے لیے کرسی ملتی تھی علاوہ ازیں اعلیٰ خدمات پر مسلمانوں کو” خان صاحب“،”خان بہادر“ اور ”سر“کے خطابات سے نوازا جاتا تھا اسی طرح انگریزوں کی خدمت کرنے والے ہندوﺅں کو ”رائے صاحب“،”رائے بہادر“ اور ”سر “کے خطابات سے نوازا جاتاتھا۔کرسی چھوڑنا ایک بڑے حوصلے اور ہمت کی بات تھی لیکن جیکب آباد کے وڈیرے اللہ بخش ،محمد پناہ،تھر پارکر کے سموں خان،جلال شاہ ،عمرکوٹ کے محمد علی جان سرہندی، جیمس آباد(موجودہ کوٹ غلام محمد)کے رئیس خدابخش خان بھرگڑی،خیر پور ناتھن شاہ کے پہاڑ خان بلوچ نے اعزازی کرسی سے دستبرداری کا اعلان کیا ۔
جیسا کہ ہم نے آغاز میں بلکہ ہمارے بلاگ کا عنوان بھی یہی ہے کہ خلافت تحریک میں سندھی ہندوﺅں کو سزائیں۔کراچی کے پنڈت سدیشور سزا ایک ہزار روپے جرمانہ،ڈھہ لعل ،درگداس آڈوانی،سوامی کرشنانند بارہ مہینے ،سوامی گووندا نند؟ گیان چند ،لعل چند امر ڈنو مل ،ناﺅمل چھ مہینے،نتھومل رامو در ، نرسنگ لعل چھ مہینے ،نرسی کچھی؟واسو،ہوت چند؟ھی ڈی ماڑی والا۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سزا یافتہ ہندوﺅں میں بھائی روپ چند چھ مہینے ،بھائی دنگو مل بارہ مہینے ،بھائی کھیم چند کو چھ مہینے ،پیسو مل دس مہینے ،جیرام داس دولت رام 24مہینے،جیٹھ مل پرسرام تین سال،جھمٹ مل لکاسنگھ 12مہینے،کیسر مل چھ مہینے، گوہر مل لیلارام 24مہینے، گھنشام داس تین مہینے، ہیر آنند کرمچند دو مہینے، مکھی جیٹھانند، وشنو شرما۔ضلع تھرپارکرسے سزا یافتا ہندووںمیں بھاگ چند12مہینے، پنڈت گنگا شنکر12مہینے، ڈالو مل12مہینے۔نوابشاہ کے سزا یافتہ ہندووںمیں حکیم چگو مل12مہینے، چانگو مل12مہینے۔دادو کے سزا یافتہ ہندوو ں میں تاریو مل ٹلٹی تین مہینے، پنڈت ادھیا بھیانہ پانچ ماہ تین ہفتے، گودو مل دو مہینے، مہاراج دوارکاداس 24مہینے۔ضلع لاڑکانہ کے سزایافتاو ں میں امل سنگھ (رتوڈیرو) 12مہینے،۔ شکارپور سے آتا رامگنگا داس شکارپور،سکھر کے بلدیو کاجرا، تارو مل؟سوبھراج ولیچا؟ماسٹر گھنشام داس، مرلی دھر،مولچند ویرو مل دوسو روپے کی ضمانت، وشنداس، ویڑو مل ماسٹر12مہینے،کشن داس کنھیا لال؟ڈاکٹر پرمانند ماتلی تین مہینے۔ضلع جیکب آبادکے سزا یافتاوں میںٹھاکر داس 6مہینے،بھائی پھیرو مل چھ مہینے، ڈاکٹر میگھ راج چھ مہینے، رادھا کرشن چھ مہینے،رادھو مل چھ مہینے،نیوندرام پانچ دن،رام چند ایک دن سزا پانے والوں میں شامل ہیں۔
آئیے اب آتے ہیں خلافت تحریک کے مقدمے کے فیصلے کی جانب۔ ٹھیک تین بجکر تیس منٹ پر مسٹر رام چند تلسی داس کوجو جیوری کے سربراہ تھے سے پوچھا کہ مقدمے کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے؟انھوں نے جواباً بتایا کہ ملزمان کے بارے میں ارکان کا یہ فیصلہ ہے کہ کسی پر بھی ملکہ معظمہ کی فوج کو ورغلانے کا الزام ثابت نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی فوجی سپاہ کو فوج کی خدمت سے روکنے کا لہٰذا ہماری رائے میں ملزمان بے قصور ہیں۔ جج نے جیوری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے دفعہ ایک سو اکتیس اور ایک سو بیس بی سے مجرموں کو بری کردیا۔مگر وہ دفعات جن میںارکان جیوری کا تقرر بطوراسیسر ہوا تھا۔ ان کے بارے میں سرپنچ مسٹر رام چند تلسی داس نے کہا کہ ان دفعات کے بارے میں مسٹر دیا رام گڈومل کی رائے یہ ہے کہ تمام ملزم جملہ الزامات سے بے قصور پائے گئے ہیں لیکن ہم چارکی متفقہ رائے یہ ہے کہ سوائے سوامی شنکر آچاریہ کے باقی سب ملزم ذیر دفعات505اور 109 قصور وار ہیں اور مولانا محمد علی پر دفعہ117 کا جرم بھی ثابت ہے۔ اسیروں نے اس سلسلے میں اس بات کا بھی اعلان کردیا کہ انھوں نے فیصلہ کرتے وقت ملزموں کے مذہبی عقائد کو ملحوظ نہیں رکھا۔
جج نے اسیروں کی کثرت رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سوامی شنکر آچاریہ کو بری کردیا مگر باقی ملزموں کو دو سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی۔ مولانا محمد علی جوہرکو دفعہ117 کے تحت مزید دو سال کی سزا کا حکم سنایا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دونو سزائیں بیک وقت شروع ہوں گی۔ مولانا محمد علی اور دیگر یافتگان نے نہایت خندہ پیشانی سے جج کے اس فیصلے کو سنا دوسال قیدِ بامشقت کی سزا سن کر مولانا محمد علی جوہر نے فرمایا:”مجھے یقین ہے کہ ہم اس سے پہلے سوراج حاصل کرلیں گے اور دو سال گذرنے سے قبل ہی رہا ہوجائیں گے۔“
ڈاکٹر کچلو نے فرمایا: ”نہیں دو سال نہیں بلکہ دو ماہ بعد احمد آباد میں ہم قومی پارلیمنٹ (آل انڈیا کانگریس کمیٹی) کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔“
فیس بک پر تبصرے