تکمیل ِ دین کے بعد کی ذمہ داری

1,074

قرآن مجید میں ایمان والوں سے فرمایا گیا ”ا ے اہل ایمان (بہت سی) چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو” اگر تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بنیں اور اگر تم ایسے وقت میں سوال کرو جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمہارے لئے ظاہرکر دی جائیں گی۔(القرآن 101/5) سوال کرنے سے اس لئے منع فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کو انسان کی راہنمائی کے لئے لازمی اور ضروری سمجھتا ہے، وہ عطا کر دیتا ہے جس طرح احکام الٰہی کا نہ ہونا انسانوں کے لئے تکلیف دہ ہے، اسی طرح چھوٹے چھوٹے معاملات میں احکام کا نازل ہونا بھی موجب تکلیف وتکلّٰف ہوتا ہے۔ اس لئے جب رسول اللہﷺ سے چھوٹے چھوٹے سوال کیے جاتے تو آپ ناراضگی کا اظہار فرماتے ۔ قرآن مجید نے سورة البقرہ میں گائے کا قصہ بیان کیا ہے جس میں قوم یہود پے در پے سوالات کے ذریعے ایک مطلق حکم کو مقید کرتی چلی گئی اور اپنے لئے مشکلات کھڑی کرتی گئی کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ گائے کیسی ہو؟ جواب ملا بوڑھی ہواور نہ بچہ، درمیانی ہو۔ پھر پوچھتے ہیں رنگ کیسا ہو؟ جو اب دیا گیا ۔ گہرا زرد رنگ ہو، پھر پوچھتے ہیں کیسی ہو ؟ہمارے لئے تو ساری گائیں ایک جیسی ہیں ۔حکم ہوا، ایسی ہو جو کام میں نہ لگائی گئی بالکل صحیح سالم ہو۔ اس میں کوئی داغ نہ ہو۔ اگروہ صرف گائے کو ئی ذبح کر دیتے تو کافی ہوتا ۔ایمان وتقویٰ کے مطابق مومن اللہ کے حکم پہ ہمیشہ وہی چیز قربان کرتا ہے جو اس کی نظر میں عمدہ اور بہترین ہوتی ہے۔ ذبح کے حکم کے بعد سوال کرنے کے بجائے آسانی اس میں تھی کہ وہ گائے ذبح کر دیتے لیکن انہوں نے سوالات کے ذریعے سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں۔ یہ رویہ بدنیتی پہ مبنی ہوتا ہے یا اس کی وجہ ”غلو“ ہوتا ہے جس میں اپنے زعم میں ایک عمل کو بہتر سے بہترین کرنے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے لیکن وہ کسی طرح بھی دین کا تقاضا نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ کی منشا ۔”غلو“ سے کیسی مشکلات پیدا ہوتی ہیں ؟قرآن مجید اس کا ذکر حضرت مسیح علیہ السلام کے حوالے سے کرتا ہے ، جب قوم مسیح نے انہیں خدا کا بیٹا قراردے دیا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سےقوم مسیح کی محبت وعقیدت دین کے دائرے میں رہتی تو درست قرار پاتی لیکن انہوں نے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ اظہار کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک ایسا عنوان دیا جو انسانی حد سے نکال کر الوھی حد میں انہیں داخل کر دیتا ہے ۔یہ وہ مشکلات ہیں جوپیغمبر کی زندگی اور بعد میں لوگ اپنے لئے پیدا کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺکی حیات مبارکہ میں یہ بات اندھیرا اجالا کے فرق سے بھی زیادہ واضح تھی اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے چھوٹے چھوٹے سوالات کبھی نہ کیے جس سے دین کی پیروی میں ان کے لئے مشکلات پیدا ہوتیں۔

ختمی المرتبتﷺ کے بعد وحی والہام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ اہل ایمان کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ قرآن مجید ”فرقان“ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل دین رسول اللہ کے ذریعے ہمیں قیامت تک کے لئے عطا کر دیا ہے۔ اب حکم وہی ہے جسے قرآن مجید حکم قرار دیتا ہے اور حرام وہی ہے جسے قرآن مجید حرام قرار دیتا ہے۔ اب کسی غیرنبی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ احکام کی فہرست میں اضافہ کرے یا کسی حکم کو منسوخ کرے۔

تکمیل دین کے بعد پیش آمدہ سوالات کی ایک صورت یہ بھی بنتی ہے کہ ہم اپنے حالات وواقعات سے پیداہوتے سوالات و مسائل کو قرآن مجید کی روشنی میں حل کرنے کے نتیجے میں اخذکردہ جواب کو اپنے لئے فرض یا کسی بھی نظریہ اور فکر کودین کی مبادیات میں سے مبادی قرار دے لیں ۔ یہ جہاں ایک سوئے فہم ہے وہاں قوم کے لئے تکلیف مالایطاق کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔معاشرتی ، سیاسی اورمذہبی حوالے سے امت دین کے اس تصور سے علیحدہ کچھ بھی پیش کرے گی تو اپنے لئے مشکلات پیدا کرے گی، دین کے اس بنیادی تصور سے بیگانہ ہونے کی صورت میں ہم دوقسم کی مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں ۔ مایوسی ((Frustration، ذہنی الجھاؤ((Confusion۔ مایوسی انتشار وافتراق کو جنم دیتی ہے ۔ اجتماعی مایوسی کی ایک وجہ مذہب کے نام پہ وہ بوجھ ہے جوہم نے اپنے اوپر لادالیکن توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہ کر پائے جس نے معاشرے میں انتہا پسندی کو جنم دیا۔ سیاسی اسلام کے حسین تصورات جب عملی تعبیر میں ناکام ہوئے تو ان سے وابستہ افراد میں بے چینی و اضطراب پیداہوا جس نے انہیں فقط مسلم حکمرانوں سے ہی نہیں بلکہ مسلم معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں سے ہی باغی اور متنفر کر دیا۔ جس کے بعد یہ سوچ وجود میں آئی کہ جمہوری نظام ،مسلم حکمران اور مسلم عوام سامراج کے آلہ کار ہیں لہٰذا دین کا نفاذ اور خلافت کا قیام بزورباز و ہی ممکن ہےلیکن اس میں بھی نا کامی نے مزید فرسٹریشن کو جنم دیا ،جس سے اس طبقے کے ردِّ عمل میں مزیدسرگرمی نظر آتی ہے۔نتیجتاً مسلم دنیا میں دہشت گردی اورانتہا پسندی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

ذہنی الجھاﺅ بھی مسلم معاشروں کی شناخت بن چکا ہے ،مسئلہ کوئی بھی ہو خواہ مذہبی ہو یا سیاسی، سماجی ہو یاخاندانی،حکومت سے متعلق ہو یاجمہوریت سے ہر مسئلہ میں ابہام و تشکیک کا شکا ر نظرآتے ہیں۔ اس کنفیوژن کی وجہ وہی نکتہ ہے جس کا ذکر آغاز کلام میں کر چکا ہوں۔ اب سوالات اس شکل میں ڈھل چکے ہیں کہ سیاسی اورتاریخی دباﺅ میں انہیں بھی امت پہ لازم ٹھہرایا جاتا ہے جس کا لزوم قرآن مجید اورسنت میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس مشکل سے نکلنے کا ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم دین کو مِن وعن قبول کریں اور ویسا ہی اپنی زندگیوں میں نافذ کریں،اس کے ساتھ اپنی کسی بات کوشامل نہ کریں ۔ دین جس کا تقاضا کرتا ہے فقط اسی کا ابلاغ کریں اورزندگی کے باقی مسائل و مشکلات کواپنی عقل و بصیرت سے حل کریں ۔ ہماری مشکلات میں اضافہ آج اسی طرح ہے جس طرح قوم یہود نے اپنی زندگیوں میں مشکلات کا اضافہ کیا تھا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...