آئینی اختیار
وفاقی وزیرِ داخلہ کا پنجاب رینجرز پر اظہارِ برہمی کوئی مخاصمانہ طرزِ عمل نہیں ہے جیسا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف دائر بدعنوانی کی درخواست کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر رینجرز اہلکاروں کی تعیناتی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں تجویز کیا ۔احسن اقبال نے وزراء، جماعتی راہنماؤں اور وکلاءکو احتساب عدالت میں داخلے سے روکنے پررینجرزکے خلاف شدید ردِ عمل کا اظہار کیاتھا۔ صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ نیم فوجی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اس واقعے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قومی سلامتی اورقانون نافذ کرنے والے ادارے کسی اور مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں اور اس سے تنظیم و تحکیم میں سست روی کے متعلق بھی سوال اٹھتا ہے۔اس صورتِ حال نے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بنیادی ساختیاتی مسائل کو طشت ازبام کردیا ہے۔قانون نافذ کرنے والے غیر فوجی ادارے اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ ایسے واقعات میں اپنی صفائی تک پیش نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف نیم فوجی ادارے شہری امن و امان سے متعلقہ معاملات میں مداخلت کرکے اپنے ادارہ جاتی اور اخلاقی اقتدار و اختیار کو مضبوط تر کیے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سلامتی اور شہری تحفظ ، ہر دو طرح کے ادارے باہمی انا اور اجارہ داری کی کشمکش کو پسِ پشت ڈال کر وسیع تر تناظر میں اس صورتِ حال پر نظرِ ثانی کریں۔یہ بات کھلی اور واضح ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے کیلیے غیر معمولی انتظامی، قانونی اور عملی اقدامات کرنا ریاست کی مجبوری تھی اوردہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کیلئے حکومت نے پاکستانی افواج کے ساتھ نیم فوجی اداروں کو بھی ذمہ داریاں تفویض کیں۔مزید برآں پاک چین اقتصادی راہداری بھی غیر معمولی حفاظتی انتظامات کی متقاضی تھی۔ اس عمل سے نہ صرف پرانی غلطیاں سامنے آئیں بلکہ اداروں کے اختیارات و دائرہ کار اور باہمی ربط و تعلق سے منسلک نئے مسائل بھی پیدا ہوئے۔حکومت اندرونی خطرات کے سدِ باب کیلئے بے بہا وسائل خرچ کر رہی ہے اور وفاقی و صوبائی سلامتی کے زیادہ تر وسائل متوازی اورخاص مقاصد کیلئے بنائی گئی سلامتی کی قوتوں کیلئے مختص ہیں۔گزشتہ بجٹ میں وفاقی حکومت نے19 ارب80 کروڑ روپے ملک میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کیلئے مختص کئے۔اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کی حفاظت اور ایک ایسی حفاظتی لہر جو کہ حال ہی میں ملک میں ابھر رہی تھی کیلئے61 ارب60 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔
ہر صوبہ کے پاس اسی طرح کے خطرات سے نمٹنے کیلئے سلامتی کی متوازی قوتیں موجود ہیں ۔پنجاب میں ایلیٹ فورس ہے، جو کہ 1997میں دہشت گردی اور سنگین جرائم کے انسداد کیلئے بنائی گئی تھی ، لیکن2014میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی گئی جو انسداد دہشت گردی کے لیے خاص تھی، (ATF)کی بنیاد رکھی گئی۔ ماہرین اور پولیس افسران ماضی میں ایلیٹ فورس کی اطمینان بخش کارکردگی کے سبب اس کی تنظیمِ نو اور توسیع کے حق میں تھے تاہم ایلیٹ فورس بڑے پیمانے پر با اثر اور مقتدر شخصیات کی طرف سے اپنی حفاظت اور پروٹوکول بالخصوص اپنے دفاتر اور طاقت و اقتدار کی نمائش کیلئے متعین تھی۔ ان مقتدر اور با اثر شخصیات میں صوبائی کابینہ کے اراکین، عدالتی افسران اور صوبے میں مقیم غیر ملکی شامل ہیں۔
دوسرے صوبوں کے پاس بھی ایسی ہی قوتیں موجود ہیں ۔سندھ میں کوئیک ریسپانس فورس سے پہلے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ ایلیٹ اسپیشل فورس کے طور پر کام کررہی تھی۔ پنجاب میں ایلیٹ پولیس کی طرح سندھ میں بھی اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے اعلیٰ تربیت یافتہ اہلکار بااثر شخصیات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ خیبر پختونخو ا اور بلوچستان نے2015-16میں انسداد دہشت گردی قوتوں کو تشکیل دیا۔ اسی طرح دہشت گردی، بینک ڈکیتی ، جعل سازی اور دولت کی غیر قانونی منتقلی جیسے جرائم کی تحقیقات کیلئے وفاقی ادارہ تحقیقات(FIA) کے قائم شدہ ادارے اسپیشل انویسٹی گیشن گروپ کی طرح بیشتر مخصوص حربی قوتیں ملک میں فعال ہیں۔تاہم انسداد دہشت گردی کا یہ و فاقی ادارہ دارالحکومت کی عدم توجہی کا شکاراورمعاشی مسائل سے دوچار ہے۔
ایک اور میدان جس پر صوبائی حکومتیں خرچ کررہی ہیں ،شہری حفاظت کے منصوبہ جات(Safe City projects) پر مشتمل ہے۔ مگر یہ منصوبے اسلام آباد اور لاہور میں شخصی سلامتی کے بنیادی ڈھانچے کا بوجھ ہلکا کر سکے اور نہ ہی اپنے اختتام کو پہنچ جانے کے باوجود عام آدمی کو ان مسائل سے نجات دے سکے ہیں۔2017 میں پنجاب حکومت نے ان منصوبہ جات کیلئے مزید45 ارب روپے مختص کئے۔پولیس اور اس سے متعلقہ مخصوص سرگرم اکائیوں کے علاوہ نیم فوجی قوتوں کو ملک کے مختلف حصوں میں روایتی جرائم اور دہشت گردانہ خطرات سے نبرد آزمائی میں مسلسل مصروف رکھا گیا ہے۔کچھ معاملات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عوامی حکومتوں کو نیم فوجی اداروں کی خدمات حاصل کرنے پرمجبور کیا یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے بہت پس وپیش کے بعد اپنی انسداد دہشت گردی مہم میں پنجاب رینجرز کی مدد لینے پر آمادگی ظاہر کی۔
ہمہ گیر انسداد دہشت گردی مہم میں نیم فوجی اداروں کی عملی مدد لینا بہت معنی خیز اور عموماََ انتہائی محدود شرائط پرمبنی رہا ہے۔تاہم بہت سے معاملات میں نیم فوجی قوتوں نے اپنا دائرہِ کار عام پولیس تک بڑھا دیا۔نیم فوجی خدمات نے نہ صرف صوبائی حکومتوں پر معاشی دباﺅ ڈالا بلکہ امن و امان کے صوبائی نظم ونسق کو کمزور کیا۔مثال کے طور پر کم از کم مستقبل قریب میں کراچی کی سطح پرشہر میں عام پولیس کی تعیناتی کا تصور مشکل معلوم ہوتا ہے۔شہری تحفظ کے اداروں کے مابین ربط و تعلق پہلے ہی ایک مسئلہ تھا مگر رینجرز کی تعیناتی (Rangerisation) نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اونچے اداروں کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے سو وہ ملکی معاملات میں بڑا اور رہنمایانہ کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔جب اعلیٰ اداروں کو غیر معمولی حالات پر قابو پانے کیلئے مدعو کیا گیا تو قوانین کے عمومی نفاذ میں غیر فعالیت درآئی اور انتظامی امورصرف ایک عادت بن کر رہ گئے اور اس طرح عوامی حکومتیں کسی بھی طرح کی ذمہ داری سے بری ہو گئیں۔
عوامی خفیہ اداروں اورانسداد دہشت گردی کی صوبائی قوتوں پر مشتمل قانون نافذ کرنے والے غیر فوجی محکمہ جات نے نسبتاََ کم آزادی سے کام کرنے کے باوجود انسداد دہشت گردی مہم اور روایتی جرائم کے تدارک کیلئے عمدہ کارکردگی دکھائی۔یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر حکومت شہری تحفظ کے اداروں کی تنظیمِ نو، استحکام اور معاشی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرتی ہے تویہ ادارے تسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت متوازی اداروں کے قیام اور عام صورتحال میں نیم فوجی اداروں کی تعیناتی کی حکمتِ عملی جاری رکھتی ہے تو یہ عمل بہت مہنگا پڑے گا اور اس سے اداروں کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔
یہ بات حتمی نہیں ہے کہ آیا وزیرِ داخلہ کے پاس ماضی میں نیم فوجی اداروں کو انسداد دہشت گردی اور جرائم کے تدارک کی شہری مہمات میں شمولیت کی حکمتِ عملی اور ان اداروں کی کارکردگی پر نظرِ ثانی کی کوئی تدبیر ہے یا نہیں۔عام انتخابات سر پر ہونے کے باعث ممکن ہے کہ ان کے پاس اس کیلئے وقت نہ ہو۔مگر نئی حکومت کوشہری تحفظ کے غیر فوجی اداروں کی مضبوطی و ترقی اور نیم فوجی اداروں کو ان کے متعلقہ معمولات پر واپس بھیجنے کیلئے اس مسئلہ کو دیکھنا ہو گا۔
ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ : ڈیلی ڈان
فیس بک پر تبصرے