(احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات(دوسرا حصہ

1,152

احمد ندیم قاسمی سے میری پہلی ملاقات سے ہمارے درمیان ایک ایسی رفاقت کا آغاز ہوا جو زندگی بھر قائم رہی اور اب جب احمد ندیم قاسمی کا جسمانی وجود آنکھوں سے اوجھل ہو چکا ہے یہ رفاقت بہ اندازِ دگر جاری ہے۔

بی اے کا امتحان دینے کے بعد میں نے اپنے گاﺅں بیٹھ کر نتیجے کا انتظار کرنے کی بجائے روز نامہ ”تعمیر“ میں ملازمت اختیار کر لی۔ اخبار کے ایڈیٹر جناب محمد فاضل نے ایک زمانے میں مولانا عبدالمجید سالک کے ہاں احمد ندیم قاسمی کو دیکھا تھا اور پھر وہ دونوں دوستی کے رشتے میں منسلک ہو گئے تھے۔ اب جب وہ آ آ کر مجھے قیدوبند کے مصائب میں مبتلااحمد ندیم قاسمی سے ملاقات کا حال بتاتے تو میں اُن کے ہاتھ کتابیں رسالے بھجوا دیا کرتا تھا۔ ایک آدھ بار انہوں نے کہا بھی کہ چلو کل تمہیں ملا لاتے ہیں مگر میں نے جواب میں یہی کہا کہ ہم تو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں۔اِس لیے میرے یہ تحفے پہنچا دیا کریں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں رسالے اُنہیں بہت پسند آئیں گے۔ اِن ہی میں سے ایک کتاب بعنوان ”ماڈرن عریبک پوئٹری “ اُنھیں بے حد پسند آئی تھی۔ یہ جدید عربی شاعری کا انتخاب ہے جسے پروفیسر اے جے آر بری نے ترجمہ کر کے لندن سے شائع کرا دیا تھا۔ اِن میںسے ایک نظم کا وہ بار بار ذکر کیا کرتے تھے۔ اِس نظم کا عنوان تھا : ”فی الطریقة الحیات“ ۔ ندیم صاحب کا کہنا تھا کہ اُنہیںیقین ہے کہ یہ نظم اسرار الحق مجاز کی نظر سے کبھی نہیں گزری مگر حیرت ہے کہ مجاز کی نظم ”آوارہ“ کی بحر، اوزان اور مطالب اس عربی نظم سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔اِس پر مستزاد یہ کہ پروفیسر آربری نے اِس نظم کے انگریزی قالب کا عنوان “The Wanderer”رکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ندیم صاحب بشیرجاوید کے ہمراہ میرے ہاں پہلی بار تشریف لائے تھے تب بھی انہوں نے اِس نظم کے حُسن و اثر کا ذکر کیا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب میں گارڈن کالج میں زیرِ تعلیم تھا اور ساتھ ہی ساتھ روزنامہ” تعمیر“ میں ایک قلمی مزدور کی خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ ہمارے اخبار کے ایڈیٹر جناب محمد فاضل مرحوم احمد ندیم قاسمی سے عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مارشل لاءکے ابتدائی دنوں میں جب احمد ندیم قاسمی کو بہت سے دوسرے ترقی پسند ادبی اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ سنٹرل جیل راولپنڈی میں نظربند کر دیا گیا تھااُن دنوں جناب محمد طفیل جیل سپرنٹنڈنٹ کی وساطت سے احمد ندیم قاسمی کے ساتھ پابندی سے ملتے رہتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی سے میری عقیدت کا حال اُن پر آشکار تھا۔ اسی خیال سے وہ مجھے اپنی اِن ملاقاتوں سے باخبر رکھتے تھے۔ میں جناب محمد طفیل کی وساطت سے احمد ندیم قاسمی صاحب کی خدمت میں پابندی کے ساتھ کتابیں اور رسائل و جرائد بھیجا کرتا تھا۔ میرا اُن سے یہی بالواسطہ رابطہ اُس خوشگوار حیرت کا سبب بنا جس کی نوید لے کر بشیر جاوید صاحب میری قیام گاہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تشریف لائے تھے۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ جونہی ندیم صاحب کی راولپنڈی آمد کی خبر ملی میں خوشی خوشی اُن سے ملنے پہنچ جاﺅں گا مگر مجھے یہ خوشی نصیب نہ ہوسکی۔

ہوا یوں کہ چند روز بعد، ایک سہ پہر، احمد ندیم قاسمی بشیر جاوید صاحب کے ہمراہ میری دو کمروں پر مشتمل رہائش گاہ آ پہنچے۔مجھے محلہ موہن پورہ میں واقع اِس مکان میں فرنیچر کے نام پر فقط دو کرسیاں اور دو چارپائیاں میسر تھیں۔ میں نے چاہا کہ ندیم صاحب اور اُن کی معیّت میں آئے ہوئے چند مہمانوں کو کسی ریستوران میں لے جاﺅں مگر ندیم صاحب نے انکار کیا اور ایک چارپائی پر اپنے ساتھ بشیر جاوید صاحب کو بھی بٹھا لیا اور یوں دو اڑھائی گھنٹے وہیں گَپ کرنے کے بعد مجھے بھی اپنے ساتھ بشیر جاوید صاحب کے گھر لے گئے۔ شادی کی تقریبات کے اختتام تک مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور یوں میں دادا امیر حیدر سمیت راولپنڈی کی بائیں بازو کی قیادت سے روشناس ہوا۔

یہ ہے احمد ندیم قاسمی سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف!اِس ملاقات سے ہمارے درمیان ایک ایسی رفاقت کا آغاز ہوا جو زندگی بھر قائم رہی اور آج جب احمد ندیم قاسمی کا جسمانی وجود آنکھوں سے اوجھل ہو چکا ہے یہ رفاقت بہ اندازِ دگر جاری ہے۔میری شادی میں شرکت کی خاطر لاہور سے ہمارے گاﺅں تک کا طویل سفر دو بسیں تبدیل کر کے طے کیا تھا۔بعد ازاں شادی کی تقریب ہو یا غم کی وہ پابندی سے اُس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔میرے والدِماجد کا انتقال پُرملال اُس وقت ہوا جب میں جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ خبر سُنتے ہی وہ میری عدم موجودگی میں تعزیت کی خاطر ہمارے گاﺅں پہنچے۔ میرے راولپنڈی میں مستقلاً قیام پذیر ہوجانے کے بعد وہ ہمیشہ میرے غریب خانے پر ہی قیام فرمایا کرتے تھے۔ اُن سے ملاقات کی خاطرمیری قیام گاہ پر اُن کے مداحوں اور عقیدت مندوں کا تانتا بندھ جاتا اور اُن کے دم قدم سے ہمارے گھر میں ایک ادبی مرکز کی سی شان پیدا ہو جایا کرتی تھی۔چنانچہ میں عُمر بھر راولپنڈی /اسلام آبادکے بزرگ ادیبوں شاعروںسے لے کر نوآموزتخلیق کاروں تک کے فیضانِ تربیت سے فیضیاب ہوتا رہا۔

میں زندگی بھر اُن کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں رہا۔دو مُنہ بولے بھائیوں کے درمیان اِس طویل اور گرمجوش رفاقت کے خدوخال کی ایک جیتی جاگتی جھلک اُن خطوط میں جلوہ گر ہے جن کا انتخاب اِس کتاب میں شامل ہے۔انہوں نے یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے سفر میری ہی درخواستوں کو پذیرائی بخشتے ہوئے اختیار کئے تھے۔ اپنے قیام لاہور کے آخر آخر میں مجھ پر ایک ایسا نازک وقت بھی آیا تھا جب میرے دوستوں اور ملاقاتیوں کا ہجوم منتشر ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے اور اُن کے سیاسی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان دوری پیدا ہو گئی تھی اور پھر یہ دوری بڑھتے بڑھتے سیاسی رقابت بن گئی تھی۔ رامے صاحب سے میری محبت اور قربت کے پیشِ نظر عزیزترین دوست بھی میرے سائے تک سے بچنے لگے تھے۔ اس کڑے وقت میں بھی ندیم صاحب سے دیرینہ رفاقت قائم رہی۔ یہ بات مجھے بھلائے نہیں بھولتی کہ جب میں نے لاہور سے قائداعظم یونیورسٹی میں واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا تھا تو ریلوے اسٹیشن پر فقط ایک شخص احمد ندیم قاسمی الوداع کہنے کو موجود تھے۔ ندیم صاحب بعض اوقات انتہائی نازک خانگی معاملات میں بھی مجھے اعتماد میں لے لیا کرتے تھے لیکن وضع احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اِن معاملات کا ذکر خطوط میں تو اشارةً ہوتا تھا مگر بعد ازاں وقتِ ملاقات وہ اپنا دِل کھول کے رکھ دیا کرتے تھے۔اپنی بیگم کے طرزِ فکر و عمل نے اُن کی زندگی میں عذاب کی ایک صورت اختیار کر رکھی تھی۔ہرچند اُن کے لیے دُلہن کا چُناﺅ اُن کی والدہ ماجدہ نے کیا تھاتاہم ندیم صاحب کو اپنی رفیقِ حیات سے سب سے بڑی شکایت ہی یہ تھی کہ وہ اُن کی والدہ ماجدہ کی عزت و تکریم کا حق ادا کرنے سے ہمیشہ قاصر رہیں۔یہاں میںاس باب میںخاموشی کو گویائی پہ ترجیح دوں گا فقط اُسی اشارت پر اکتفا کروں گا جو اُن کی تحریر کے بین السطور موجود ہے۔ ۳۔مئی ۱۹۸۵ءکے خط کے آغازمیں لکھتے ہیں:

بہت ہی پیارے بھائی ۔ اب کے مجھ سے کوتاہی ہو گئی۔ وجہ کوئی خاص نہیں۔ وہی گھریلو مسائل اور الجھنیں۔ زندگی کا یہ پہلو اتنا زہریلا ہے کہ حیرت ہے میں اب تک زندہ کیسے ہوں۔ مگر شاید یہ آپ کے سے دو چار پیارے دلارے وجودوں کی برکت ہے کہ مجھے ان سے اتنی محبت دستیاب ہو جاتی ہے کہ سب تلافیاں ہو جاتی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...