مذہبیت کا آسیب اور فنون لطیفہ

1,309

 

انسانی تاریخ بتاتی ہے جہاں “مذہبیت” کا آسیب ہو وہاں فنونِ لطیفہ اور سپورٹس کا وجود دم توڑ جاتا ہے۔ انِ اصناف کا کچھ حصہ بے حیائی اور عریانی کے زمرے میں شمار ہوجاتا ہے اور باقی جو بچتا ہے وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اسے زندہ ادب کہاجائے، وہ دم توڑ تا ہی نہیں بلکہ مردہ ادب کہلانے کاحق دار ہوتا ہے۔انسان کے وجودمیں طاقت ایک ہے لیکن اس کے استعمال کے طریقے دو ہیں ایک مثبت اوردوسرا منفی ۔ انسان کی یہی Aggressionہی اس کی طاقت ہوتی ہے جسے وہ فنونِ لطیفہ ، فلم ، ڈرامہ ، رقص، ادب، شاعری اور کھیل کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔ اگر انسان کے باطنی اظہار کے ذرائع مسدود ہو جائیں تو وہ اپنی Aggression کو مارکٹائی، غصہ اور لڑائی یعنی منفی ذرائع میں نکالتا ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے” مذہبیت” کو ریاستی اور معاشرتی سطح پہ طاقتور بنانے کے یہ نتائج ہیں کہ ان تمام تخلیقی اظہار کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی اوراب تلک کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں عظیم ادب کا وجود ختم ہو گیا۔ فیض احمد فیض ، سیف الدین، قتیل شفائی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی،قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی ، مہدی حسن، ملکہ ترنم نور جہاں، شاکر علی، سعادت حسن منٹو وغیرہ جیسے لوگ اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب پاکستان میں ایسی صورت حال نہیں تھی یا ابھی پروان چڑھ رہی تھی۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ مختلف قومیتوں کے افراد پہ مشتمل معاشرہ تھا۔ لاہور، اسلام آباداور کراچی کی سڑکوں پہ انگریز خواتین وحضرات کی بڑی تعداد دکھائی دیتی تھی ۔ہندو ،سکھ اور دوسری برادری کے لوگ بے خوف رہتے اور حرکت کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی تقاریب میں شرکت اورتحائف کا تبادلہ بھی رہتاتھا۔

اس کے بعد یہ صورت حال بنی کہ مذہب کے نام پہ”چاردیواری” کے تصور کوپامال کیا جانے لگا۔ برائی کے خاتمے کے نام پر لوگوں کی پرائیویٹ زندگی کونشانہ بنایا جانے لگا۔عقائد ونظریات اپنی تعبیر و تشریح کے مطابق رکھنے والوں کو مسلمان  اوردیگر کو کافر قرار دینے کاکلچر آیا، بزور طاقت مذہب کے نفاذ کی سوچ نے “طالبان”جیسا گروہ پیدا کیا جس نے کلچر، تہذیب اورثقافت کے ارتقاءاور اظہار کو خلافِ مذہب قراردے کرانسانیت کی تذلیل و توہین کی۔ طالبان اس مذہبیت کی انتہائی صورت تھی جس کی ابتدائی شکل نے ہمارے معاشرے میں فنون لطیفہ کو حرام قرار دے کر نوجوانوں کواس کے خاتمے کے لئے ڈنڈے پکڑا دیئے ۔

 انسان کا تخلیق کردہ ہرشاہکار وجہ تعریف نہیں ہوتا لیکن فنکار آزادماحول چاہتا ہے جس میں وہ بہتر سے بہترین فن تخلیق کر سکے، جیسے پرندوں کے لئے پانی، باغات اور خوبصورت ماحول ضروری ہے ،اسی طرح تخلیق کار کے لئے امن اورآزادی اظہار ضروری ہے۔ مذہبی جبر میں ہمیشہ ہجرت کی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں تخلیق کار پرندوں کی طرح ہجرت کرتے رہتے ہیں ۔

پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی رسہ کشی نے اسلام اور فلسفہ وسائنس کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا۔دائیں بازو نے اقتدار سنبھالا تو وہ قوم کو مذہب کے نام پہ فرقہ واریت ، مناظروں اور سزاﺅں کے سوا کچھ اور نہ دے سکا،یہ سب کچھ اس لئے بھی آسان تھا کہ پاکستانی معاشرہ کی اکثریت مذہب سے اندھی عقیدت رکھتی ہے ۔بائیں بازو کو اقتدار ملا تووہ بھی اپنے نظریات کے مطابق معاشرے کو کچھ نہ دے سکا۔وہ بھی ایک خاص دائرے میں ہی گھومتارہا۔ وہ معاشی اصلاحات جو اس کے نظریہ کی بنیاد ہیں۔اس سے بھی معاشرے کے لئے خیر برآمد نہ ہو سکا۔ اس رسہ کشی نے ردّعمل کی فضا کوجنم دیا جس میں دو نقصان ہوئے ،ایک نقصان تصورِ دین کا ہوا۔لوگوں نے یہی خیال کرلیا کہ اگر صحیح اسلام آگیا تو فنون لطیفہ کی تمام اصناف کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ کھیل بھی پروان نہیں چڑھ پائیں گے کیونکہ ایسے کھیل نہ ہونے کے برابر ہیں جن کے خالق مسلمان ہوں۔ اسلام میں تفریح و لعب کا کوئی تصور نہیں ہے لہذا اسلام دور حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا یہی تصور ہے۔ اس تصور کی تائید اس وقت بھی ہوتی ہے جب مذہب کی طرف رغبت اختیار کرنے والا اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنی عادات وخصائل کوبدل لیتا ہے اور تفریح ولعب کے خلاف کمربستہ ہو جاتا ہے۔دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں فلم ، ڈرامہ اورکھیل رواج نہ پا سکے۔ ہم انہیں مثبت انداز سے معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ ہم نے اس کے متعلق ایک منفی تصور قائم کر لیا کہ یہ میڈیم صرف اور صرف فحاشی ، عریانی اور تخریب اخلاق کاذریعہ ہیں ،حالانکہ دنیا انہی ذرائع سے اعلیٰ نگارشات بھی پیش کر رہی ہے۔

انتہا پسندی کے دونوں تصورات نے پاکستانی معاشرے کی حقیقی آزادی اورتخلیقی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا ہے ۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی تگ دو کرنی ہے جو مذہبیت کے جبر سے پاک اور’’بے خدا‘‘ نظریات کی بالادستی سے بھی بالاہو۔ جہاں ہر قوم اور برادری کے افراد آزاد انہ اپنے اپنے مذہب و نظریہ کے مطابق زندگی بسر کریں جہاں ایسا ادب تخلیق ہو جو انسان کی بہترین صلاحیتوں کا مظہرہواورہر اس خوف سے پاک ہو جو مذہب کے نام پہ سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے والے کے دل میں پیدا کردیا جاتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...