اسلام آباد میں درختوں کا قتل عام؟

1,318

معروف صحافی جناب  رؤف کلاسرا  مبارک باد کے مستحق ہیں کہ  انہوں نے اسلام آباد میں درختوں کے قتل عام پر آواز اٹھائی ہے۔ ان کے میڈیا میں رنج اور افسوس کےاظہار سے پورے ملک میں  غم و غصے  کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کا گلہ بجا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ قتل عام ہمیشہ کسی  اعلی مقصد کے لئے ہوتا ہے اور اس کی کوئی حکمت عملی ہوتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اسلام آباد میں درختوں کے قتل عام کے مقصد اور حکمت عملی سے آگاہی ہمیں بھی نہیں۔ لیکن ہم ایک پیج پر رہنے کے قائل ہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ اس قتل عام کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو گا۔ ہم نے اپنے طور اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اسلام آباد کی ولایت پر یہ تنقید کر رہے ہیں کہ انہوں نے یہ مقصد عوام سے بلا مقصد چھپایا ہوا ہے۔ رموز خویش خسرواں دانند یعنی حکومت کے اسرار و رموز صرف بادشاہوں کے علم میں رہنے چاہییں، پبلک کے نالج میں آنے سے کوئی راز سیکرٹ نہیں رہتا توجمہوریت ان ڈینجر ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس پر اسرار حکمت عملی کی جستجوکی بجائے افادہ عام کے پہلووں پر چند ممکنہ نکات پیش  کئے جاتے ہیں تاکہ حکمت عملی کو علمی جامہ پہنانے کی کوششوں  کو تقویت پہنچے۔

سب درخت شریف نہیں ہوتے۔ کچھ فتنہ پرور اور کچھ امن پسند ہوتے ہیں۔ فتنہ پروروں کی سرکوبی اور امن پسندوں کی پشت پناہی ضروری ہے۔درختوں کے قتل عام کے حوالے سے ماحولیات کی تباہی کا جو بے بنیاد خدشہ بیان کیا جارہا ہے سب سے پہلے ہم اس کی بات کرتے ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے  کہ اسلام آباد کے  بعض درخت پولن کے ذریعے الرجی کا فتنہ پھیلا نے کی کوشش میں ملوث پائے گئے۔ صحیح العقیدہ دانشوروں نے بہت کہا کہ بعض ڈاکٹروں نے الرجی کا کاروبار چمکانے کے لئے یہ شوشا چھوڑاہے۔  لیکن ان دنوں  جب ہر طرف لوگ ناک پر ہرا پردہ پہنے نظر آنے لگے۔  ان میں مردوں کی تعداد  فطری طور پرزیادہ تھی لیکن  جب مردوں کو ناک کے پردے میں سکوں ملا تو انہوں نے گھر کے اندر بھی اس کو رواج دیا۔ اس کی وجہ سے خواتین  میں بھی پردے کا رواج بڑھ گیا۔  اندریں حالات لوگ درختوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ ولایت اسلام آباد کے کارکنان قضا و قدر نے ان فتنہ پرور درختوں کی بیخ کنی کا عزم کیا تو ان کے ساتھ  ان کے شریک جرم اور ساتھی بھی پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ لیکن یہ فتنہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ولایت اسلام آباد نے ماحول کو پر سکون بنانے کے لئے سندھ کی پر امن سرزمین سے لاکربھنگ کے امن پرور پودے دار الخلافے میں لگائے تو پوری فضا  سر سبز اور پرسکون ہو گئی۔ یہ پودے انتہائی انسان دوست ہوتے ہیں ، کبھی سرکشی نہیں کرتے۔ انسان کے قد سے تجاوز نہیں کرتے اور غیر محسوس انداز سے پھیلتے رہتے ہیں۔ بھنگ سرکاری ادب آداب کی ثقافت سے آگاہ اور آہستہ روی کے طرز عمل سے ہم آہنگ ہوتی ہے اس لئے دارالخلافہ میں  بھنگ بہت پھلی پھولی۔  اس منصوبے کی کامیابی کے بعد پاکستان کی دوسری ولایات میں بھی  فتنہ پرور اور سرکش درختوں کی  بجائے بھنگ کے سر سبز پودے لگائے جائیں گے۔ ہم ولایت اسلام آباد کی بھنگ پروری کے مداح ہیں اور گاہے گاہے ولایت کو خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں۔

درخت فطری طور پر سرکش ہیں اور انسان کو چڑانا ان کا وطیرہ ہے۔ ان کی کانٹ چھانٹ کو تہذیب اور صفائے کو تعمیر و ترقی کہتے ہیں۔

زمانہ قدیم میں انسان جانور سے بہت ڈرتا تھا اس لئے درختوں پر پناہ لیتا تھا۔ جوں جوں ترقی ہوتی گئی جانور انسانوں سے ڈرنے لگے تو انسان درختوں سے نیچے اتر آئے اور زمین پر رہنے لگے۔ اور یوں انسان تہذیبی دور میں داخل ہوے۔ جہاں انسان کم اور درخت زیادہ ہوں اسے جنگل کہا جاتا ہے۔ جو انسان جنگل میں رہنا نہیں چھوڑتے جنگلی کہلاتے ہیں۔ انہیں شہروں میں لے بھی آئیں تو انسان ہوں یا درخت جنگلی ہی رہتے ہیں۔ درخت  فطری طور پر سر کش ہوتے ہیں اس لئے ہمیشہ قد آوری کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی یہ قد آوری ہی انسان کو احساس کمتری  میں مبتلا رکھتی ہے۔ انتقاماً انسانی کہانیوں میں قدیم  ترین انسان کا قد درختوں سے اونچا بتایا جاتا ہے ۔ شہر میں رہتے ہوے بھی  درخت انسان کو چڑانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ انسان کو یاد دلاتے  رہتے ہیں کہ کبھی انسان بھی جانور تھا اور پرندوں اور بندروں کی طرح درخت اس کا مسکن تھے۔ انسا ن کو تنگ کرنے کے لئےدرخت پرندوں کو پناہ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان پرندوں کو چڑیا کہا جاتا ہے۔ یعنی چڑانے والا پرندہ۔  اردو میں سارے جانوروں کو چڑیا سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے جانوروں کی عبرت گاہ کو چڑیا گھر کہتے ہیں۔  جو پرندے سیانے  ہوتے ہیں وہ چڑیا نہیں کوے کہلاتے ہیں۔ ان کو سیانے اس لئے کہا جاتا ہے کہ مل کر شور مچاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اسلام آباد میں درخت انسان کی تہذیبی  اور سیاسی زندگی کے لئے خطرہ بنتے جارہے تھے۔ ان میں جو ذاتی طور پر فتنہ  نہیں  وہ فتنہ پرور یا شر پسند پرندوں کی پناہ گاہ بن چکے تھے۔ اب درختوں کی صفائی سے تعمیر اور ترقی ہوئی تو شر پسند پرندے بھی کم ہوگئے ہیں۔

 جمہوریت کو ایک پیج پر رکھنے کے لئے درختوں کا صفایا ضروری ہے۔ پاکستانی جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست در ریاست کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اپنے پیج بنا لیے ہیں، ان سب کو ایک پیج پر لانا ضروری ہے۔ بہت غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں پیج کا تعلق کسی نہ کسی طرح کاغذ سے ہے اور کاغذ کا درخت سے۔ اس لئے ایک پیج پر لانے کے مسئلے کا تعلق درخت سے جڑ گیا ہے۔ اور پیج کا مسئلہ حل کرنے کے لئے درختوں کا صفایا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

غور کریں تو پاکستان کے   بیشتر مسائل کا رشتہ مذہب، صحافت، سیاست اور معیشت سے ہے اور ان سب کا تعلق کاغذ، کتاب اور حساب سے ہے۔ نتیجہ یہ کہ یہ سب  کاغذی  ہو گئے ہیں۔  جب تک نوٹ  اور ووٹ کاغذی ہیں نہ جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے نہ معیشت۔ دوسرے ملکوں میں جدید معیشت اور صحافت تواب پیپرلیس یعنی غیر کاغذی ہوگئی ہے۔ نوٹ پلاسٹک کے ہو چکے ہیں یا  پلاسٹک کارڈ نے کیش کا رواج  ختم کردیا ہے۔اخبارات اور کتابیں برقی ہوتی جارہی ہیں۔ غالب کوشکوہ تھا کہ ہر پیکر تحریر کا پیرہن کاغذی ہے۔ اب یہ گلہ نہیں رہا۔ ۔ الیکشن بائیومیٹرک ہو نے جارہے ہیں۔ اب نہ شیر کاغذی رہیں گے نہ تیر۔ نہ جمہوریت کاغذی رہے گی نہ منی ٹریل۔ اکثر الیکشن ٹیلیفون اور انگوٹھے  یعنی فنگر پرنٹ سے طے ہو جائیں گے۔ احتساب ڈی این اے سےاور معیشت ایم ایم ایس سے سر انجام پائیں گے۔  جیسا کہ آپ جانتے ہیں کاغذ کا تعلق درخت سے ہے ۔ جب کاغذ  نہیں رہے گا تو ان سب مسائل کا درختوں سے تعلق نہیں رہے گا۔تاہم جمہوریت کو ایک پیج پر رکھنے کے لئے درختوں کا کردار ختم نہیں ہوگا۔  بلکہ کاغذ کا کردار ختم ہونے کی وجہ سے پیج غیر محسوس ہوکر رہ جائے گا اور سب کو ایک پیج پر لانا بھی غیر محسوس ہو جائے گا۔  یہ اچھی بات نہیں۔ غیر محسوس سے خطرہ ہے کہ انسان خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھنے لگے گا کہ وہ درختوں کا رخ کرے گا۔ اس لئے درختوں کا صفایا ضروری ہے تاکہ انسان ان کی طرف جانے کا سوچ ہی نہ سکے۔غالب خستہ نے اسی لئے پروانے یعنی جمہوریت کے پیروکاروں کے خون ناحق سے روکنے کے لئے نصیحت کی تھی کہ مگس یعنی انسان کو باغ یعنی جنگل میں جانے سے روکے رکھنا ۔ چھانگا مانگا میں جاکر انسان خود کو گھوڑا سمجھنے لگتا ہے۔

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...