ہزارہ برادری جائے پناہ کی تلاش میں

محمد حنیف،محمد اکبر نوتیزئی

1,229

ہزارہ برادری کے لوگ کوئٹہ کے مشرقی اور مغربی  علاقوں مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہو کر رہ گئے  ہیں اور وہ اشیائےخور د ونوش، ملازمت ، تعلیم اور کاروبار  کیلئے بھی اپنے رہائشی علاقوں سے نہیں نکل پاتے   ۔ اگر یہ اپنے رہائشی علاقوں سے بغیر حفاظتی دستے کے باہر نکلیں توبنیادی طور پر وسط ایشیائی باشندے ہونے  کی وجہ سے اپنے  مختلف طبعی خدو خال کی بدولت   آسان ہدف ہوتے ہیں اور پچھلے دنوں مارے گئے تین ہزارہ سبزی فروشوں کی طرح موت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ہزارہ برادری کی حفاظت کیلئے رہائشی علاقوں کے قریب  بڑی تعداد میں فوجی اور پولیس دستوں  کی تعیناتی کے باوجود پولیس کا کہنا ہے  کہ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے  ہزارہ باشندوں کو اپنی نقل و حمل کے بارے میں  پولیس کوآگاہ کرنا ضروری ہے۔ ترکِ وطن نہ کرنے کی شدید خواہش کے باوجود اس آزمائش اور خوف سے نجات کیلئے ہزارہ باشندوں میں آسٹریلیا جانے کا رجحان جڑ پکڑچکا ہے۔  ہزارہ برادری کےقریباً سترہزار  لوگ اپنے آبائی وطن سے کسی مجبور اقلیت کی مانند نقل مکانی کر چکے ہیں۔

بلوچستان  کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ برادری ہونے کے سبب بلوچستان میں صحت و تعلیم کے  نجی و سرکاری شعبہ جات میں ہزارہ برادری کی شمولیت اپنی مثال آپ تھی  ۔ مگر مسدود حالات کے باعث بیشترذہین ا ور تعلیم یافتہ  نوجوانوں کو ملک چھوڑنا پڑا ، یہاں متمول ، باعزت  ذرائع آمدن  اور ذاتی کاروبار چھوڑ کر ،اپنے آبائی مکانات، زمینیں اونے پونے بیچ کر جانے والے باشندے بیرونِ ملک معمولی ملازمتوں سے اپنا پیٹ پالنے پر مجبور  اورکسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔  جو باشندے بیچ راہ میں اٹک کر رہ گئے ہیں یا انڈونیشیا میں پناہ گزینوں کی طرح رہائش پذیر ہیں، انہیں نہ تو ملازمت اور  کاروبار کے مواقع میسر  ہیں اور نہ ہی اپنے  ہونہار بچوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کیلئے سکول جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اس بے سروسامانی  کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہاں سے انڈونیشیا اور ملائیشیا کے راستے تقریباً   دس ہزارہزارہ باشندے  آبی گزرگاہوں سے  یورپ جا چکے ہیں جبکہ دو اڑھائی سالوں سے    8000 کے قریب باشندے  انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے مضافات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔  اقوامِ متحدہ میں  پناہ کی متعدد درخواستیں دینے کے باوجود کوئی پیش رفت  نہیں ہوئی اور اندونیشیا کی حکومت بھی ان باشندوں کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔  بے سائبانی کے اس مشکل وقت میں اگر کوئی فرد وطن واپسی کی کوشش کرتا ہے تو  موت کا بھیانک خوف طاری ہو جاتا ہے۔ 2006 سے 2012 تک انڈونیشیا کا ویزہ آسانی سے میسر ہونے کی بدولت وہ مذکورہ راستہ اختیار کرتے رہے۔ دشوار گزار راستہ ہونے کے سبب سمندری راستے سے نیوزی لینڈ جانا مشکل ہے اور آسٹریلیا نے اب کشتیوں کے ذریعےملک میں داخلے پرپابندی لگا دی ہے۔ جس کے سبب اب زیادہ تر باشندے غیر قانونی نقل مکانی کر رہے ہیں اور اس عمل میں درجنوں لوگ سمندری پانیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔  یہ آبی گزرگاہیں  طویل، دشوار گزار،  پر خطر اوربحری قزاقوں  کے نرغے میں رہتی ہیں اور متعدد بار ہزارہ برادری کے لوگ بحری قزاقوں کی لوٹ مار کا شکار ہو چکے ہیں۔

ہزارہ باشندوں  کیلئے حالات کی تنگی اگرچہ 1999 میں شروع ہو چکی تھی  اور 2000 کے بعد بھی شیعہ سنی مکاتبِ فکر کے درمیان    پر امن   اور برادرانہ ماحول برقرار  رہا  لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔  بلوچستان میں بپا  فرقہ وارانہ  یورش میں  شیعہ ہزارہ برادری سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہےیہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں فرقہ پرست گروہوں کی جانب سے ہزارہ برادری کو 2013تک  کوئٹہ نہ چھوڑنے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں  بھی دی گئیں۔  2012 ہزارہ باشندوں کیلئے بہت جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کے مکانات منہدم کئے گئے، ان کے درجنون لوگ مارے گئے، اور ان کی عبادت گاہیں مقتل کا منظر پیش کرنے لگیں۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی پولیس اہلکاروں اور افسران دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان حالات کے باوجود بھی حکومتی حلقوں میں کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ ہزارہ برادری  پر ظلم و تشدد  اوران کے قتل  سے صاحبانِ  اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔     2013کے ابتدائی دو ماہ ہونے والے بم حملوں میں  میں 200 سے زائد ہزارہ باشندے قتل اور ہزاروں زخمی ہوئے مگر اس سفاکانہ کارروائیوں پر حکومت نیم دلانہ اظہارِ افسوس ہی کر سکی۔

فروری 2013 میں ہزارہ باشندوں نے مقتولین کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے ان کی میتیں سڑکوں پر  رکھ کر ٹھٹھرتے سرد موسم میں  پاکستان کے بڑے شہروں میں احتجاج  کیاجس کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔  مگر اس احتجاج میں ملک بھر کے شیعہ مکتبہِ فکر کے علاوہ محض   چند ایک سیاستدانوں اورکچھ سول سوسائٹی کے افراد نے اظہارِ یکجہتی کیلئے شرکت کی۔ باقی تمام پاکستانی طبقات پرنہ صر ف شرمناک حد تک سکوت طاری رہا بلکہ احتجاج کے دوران لوگ انہیں اپنی نقل و حمل میں رکاوٹ اور معمولاتِ زندگی میں تعطل کا موجب سمجھتے رہے۔ جب  اہلِ وطن کی سرد مہری کے باعث انہیں یہ یقین ہو چلا کہ اب حالات ٹھیک نہیں ہونے والے اور نہ ہی ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی اس اذیت کو کوئی ٹال سکتا ہے تو وہ ترکِ وطن پر مجبور ہو گئے۔ مخصوص طبعی خد و خا ل کے سبب وہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپنے آپ کو محفوط نہیں سمجھتے، سو ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہزارہ باشندوں کو ہمیشہ نسلی اور مسلکی حوالے سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے  اور ان کے قتل کو نسلی امتیاز کا شاخسانہ بتایا جاتاہےاور اس کیلئے افغانستان میں ان کی نسل کشی کا حوالہ دیا جاتاہےکہ کس طرح انیسویں صدی میں ان کا قتلِ عام کیا گیا تھا۔ مگر یہ سچ نہیں ہے  بیشتر ہزارہ باشندے طبعی خدو خال سے الگ نظر نہیں آتے مگر پھر بھی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس شعبہِ زندگی سے وابستہ ہیں ، پولیس یا سلامتی کے کسی ادارے سے ، کوئی معروف اداکار یا اولمپئن باکسر ہیں، بس موت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

انڈونیشیا میں مقیم ایک ایف سی اہلکار نے اپنی بے چارگی کی داستان سنائی کہ وہ کس طرح قانون نافذکرنے والےا دارے کا حصہ ہونے کے باوجود بے یار و مددگار تھا۔ ہر بم حملے اور خود کش دھماکے یا قتل کے کسی واقعے کے بعد بلوچ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی تھی حالانکہ ان کا اس قتل و غارتگری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اور اصل قاتلوں کو پکڑنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی تھی ۔ اگر اصل قاتل  پکڑ بھی لیے جاتےتو انہیں انسداد دہشت گردی فورس کی تحویل میں دے دیا جاتا   اور فوجی علاقوں میں رکھا جاتا  جہاں سے وہ با آسانی فرار ہو سکتے تھےاور ہر ایسے جان لیوا وقوعے کے بعدبلائے گئے اجلاسوں میں ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنےکی منصوبہ بندی  کی بجائے ان کے قتل پر صرف افسوس کا اظہار کیا جاتاتھا۔کچھ صحافیوں اور ہزارہ باشندوں کا کہنا ہے کہ  ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں میں کوئی گٹھ جوڑ ہے اور ایسے واقعات مشاہدے میں آئے ہیں کہ دہشت گرد فوجی علاقوں میں جا کر غائب ہو جاتے تھے جہاں  پولیس اور ایف سی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس سارے قضیے  میں عرب ملکوں کی مداخلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

 (ترجمہ و تلخیص: حذیفہ مسعود، بشکریہ : ڈان)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...