این اے 4 کے نتائج اور مستقبل کا سیاسی منظرنامہ

1,115

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی گلزار خان کے انتقال پر خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب کا عمل مکمل ہوچکا ہے، جس پر پی ٹی آئی نے ایک بار پھر میدان ما ر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق خیبر پختونخواکی حکمران جماعت کے امیدوار ارباب عامر ایوب 45ہزار 734ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ  عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار خوشدل خان 24ہزار 874ووٹ لیکر دوسرے  اور مسلم لیگ ن کے امیدوار ناصر خان موسیٰ زئی 24ہزار 790ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر آئے۔ تحریک لبیک  پاکستان کے امیدوار علامہ ڈاکٹر شفیق نے 9ہزار 935ووٹ جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار واصل فاروق خان نے 7ہزار 668ووٹ حاصل کئے ۔ 2013 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار گلزار خان (مرحوم) نے 55ہزار 134ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ مسلم لیگ ن کے ناصر موسیٰ زئی 20ہزار 412ووٹ کے ساتھ دوسرے ، جماعت اسلامی کے امیدوار صابرحسین اعوان 16ہزار 493ووٹ کے ساتھ تیسرے، اے این پی کے ارباب محمد ایوب جان 15795ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر آئے تھے جبکہ پی پی پی پی کے امیدوار نے 12ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔
حالیہ نتائج کا اگر 2013 کے نتائج کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پشاور ویلی کے قومی اسمبلی سے سب پسماندہ حلقے کے عوام اب بھی صوبے کی حکمران جماعت سے بیزار نہیں ہوئے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں دس ہزار ووٹ کی کمی آئی ہے لیکن گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنے میں اس حلقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی گلزار خان (مرحوم ) کے پارٹی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے ، پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر تحریک انصاف نے انکی قومی اسمبلی کی رکنیت کے خاتمے کیلئے ریفرنس بھی دائر کیا تھا،یوں عملی طور پر اس حلقے سے تحریک انصاف کے ایم این اے غیر فعال ہوچکے تھے، چار سال تک عملی طور پر غیرفعال نمائندے کے باوجود ضمنی انتخاب میں 21ہزار کے  مارجن سے کامیابی حاصل کرنا تحریک انصاف کی مقبولیت کا عکاسی کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں کمی کی ایک وجہ ضمنی انتخاب میں گزشتہ عام انتخابات کی نسبت کم ٹرن آؤٹ بھی بنا ہے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاق میں حکمران جماعت ہونے اور جمعیت علماء اسلام، قومی وطن پارٹی، پاکستان راہ حق پارٹی کی حمایت کے باوجود اپنے ووٹ بینک میں صرف پانچ ہزار ووٹ کا ہی اضافہ کرسکی ، حالانکہ انتخابی مہم کیلئے وزیراعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام نے ضمنی انتخاب کا اعلان ہونے کے بعد سے پشاور میں ڈیرے ڈال رکھے تھے، مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سرکاری وسائل استعمال کرنے کے الزامات، گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے بارہ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت جے یو آئی (ف) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود ووٹ بینک میں صرف پانچ ہزار کا اضافہ مسلم لیگ ن کی ائندہ الیکشن میں ان کی کارکردگی کی پیش گوئی ہے، صوبے میں تحریک انصاف کی سیاسی حریف جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ووٹ بینک میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں صوبے بھر میں بدترین شکست سے دوچار ہونے والی جماعت اے این پی کی مقبولیت میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، وفاق میں ن لیگ اور صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود بغیر کسی سرکاری وسائل کے 24ہزار سے زائد ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر آنا عوامی نیشنل پارٹی کی کامیابی ہے، گلزار خان(مرحوم ) کے صاحبزادے اسد گلزار پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے اس حلقے سے قسمت آزما رہے تھے، پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا جلسہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کا پشاور میں طویل قیام بھی پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں کوئی اضافہ نہ کرسکا ۔گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقے سے 16ہزار ووٹ حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی اس ضمنی انتخاب میں صرف سات ہزار ووٹ ہی حاصل کرپائی ہے، حالانکہ انتخاب سے قبل جماعت اسلامی اس حلقے میں بھاری ووٹ بینک رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے تحریک انصاف سے یہ مطالبہ کررہی تھی کہ وہ جماعت اسلامی کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کریں، تاہم ضمنی انتخاب کے نتائج نے جماعت اسلامی کی قیادت کا یہ دعویٰ غلط ثابت کردیا ہے۔چند ماہ قبل وجود میں آنے والی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار علامہ ڈاکٹر شفیق نے اس حلقے سے تقریباً دس ہزار ووٹ لیکر دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ضمنی انتخاب میں اتنا ووٹ لینا اس بات کی عکاسی ہے کہ آئندہ جنرل انتخابات میں یہ جماعت بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
این اے 4 کے الیکشن کو صوبے کی سیاست اور آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہایت اہم تصور کیا جارہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت اس نشست کیلئے انتخابی مہم میں خود حصہ لے رہی تھی، ضمنی انتخاب کے نتائج کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف چار سال حکومت کرنے کے باوجود بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اسے آج بھی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ این اے 4 کے نتائج سے تحریک انصاف کے کارکنان کا مورال بلند ہوگا جس کا فائدہ آئندہ عام انتخابات میں ہوگا۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے ووٹ بینک میں واضح اضافہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اے این پی دوبارہ صوبے کی سیاست میں مقبولیت حاصل کررہی ہے اور آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو صوبے میں ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اس حلقے کے نتائج نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کی سیاست میں اکیلے کوئی خاص مقام حاصل نہیں کرسکتی ۔لہذا آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی مخالف تمام سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کو شکست دینے کیلئے مختلف سیاسی حربے استعمال کرسکتی ہیں، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اتحاد ہوسکتا ہے۔ نتائج سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں اگر انفرادی طور پر آئندہ انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تو کوئی بھی سیاسی جماعت صوبے میں نمایاں پوزیشن حاصل نہیں کرپائے گی۔ ممکن ہے کہ حالیہ نتائج کے بعد صوبے کی مذہبی سیاسی جماعتیں ایم ایم اے کی بحالی کیلئے جدوجہد مزید تیز کردیں۔

 مولانا فضل الرحمٰن کا کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرس  سے خطاب کرتے ہوئے  نئی سیاسی پارٹیوں کومغربی ایجنٹ قراردینااس بات کا ثبوت ہے کہ  وہ نئی  مذہبی پارٹی لبیک یا رسول اللہ اور ملی مسلم لیگ سے کتنے خوف زدہ ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نہ صرف این اے 4 پر ضمنی الیکشن سے دور رہی بلکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو سپورٹ کر کے اپنی روایتی حریف پی ٹی آئی کو شکست خوردہ دیکھنے کی خواہش مند بھی رہی۔

اس الیکشن سے جہاں  یہ بات واضح ہو گئی  ہے کہ مخالف سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف کے خلاف اتحاد کی طرف جائیں گی ، وہاں پر حکمران جماعت سولوسلو فلائٹ لے گی۔ جماعت اسلامی نے این اے 4 پر اپنے اتحادی کو سپورٹ نہ کر کے نہ صرف اپنے اپ کو ایکسپوز کیا ہے بلکہ اپنے اوپر آئند ہ الیکشن میں اتحاد کے دروازے بھی بند کردیے ہیں ۔ جماعت  نے اس حلقے سے  2002 میں کامیابی حاصل کی تھی اور پچھلے الیکشن میں16ہزار سے زیادہ ددٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ حالیہ الیکشن میں چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ اگر جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی نہ کی تو آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کا حال ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کے حال سے بھی برا ہوسکتا ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...