سعودی عرب۔۔۔ متبادل بیانیہ میں حائل مشکلات

1,053

معاشی تحزیہ نگاروں کا کہنا ہے سعودی عرب تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس معاشی بحران کے خاتمے اورحالات پہ کنٹرول کرنے کے لئے سعودی حکومت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ وہ اس کوشش میں مصروف ہے کہ داخلی اورخارجی عوامل و اسباب جو معیشت کے لئے خطرہ ہیں، ان سے جتنا جلدی ہو سکے نمٹا جائے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کا حالیہ اقدامات اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔محمد بن سلمان ان دنوں جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں،وہ سعودی عرب میں موجود قدامت پسند طبقے کو پسند نہیں ہیں۔ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ “ہم پہلے ایسے نہیں تھے، ہم اس جانب واپس جا رہے ہیں جیسے ہم پہلے تھے، ایسا اسلام جو کہ معتدل ہے اورجس میں دنیا اوردیگر مذاہب کے لئے جگہ ہو”انہوں نے مزید  کہاکہ “ہم اپنی زندگیوں کے آئندہ 30 سال ان تباہ کن عناصر کی نذر نہیں ہونے دینگے ،ہم انتہا پسندی کو جلد ہی ختم کر دیں گے”۔ ولی عہد کے اس بیان کے ساتھ ساتھ ان دنوں امام کعبہ کی تقاریر و لیکچرزکے اقتباسات اخبارات کی زینت بنے ہیں، جن  میں سے ایک میں امام کعبہ نے فرمایا”چھوٹی چھوٹی چیزوں پہ حلال و حرام کے فتوے نہیں دینے چاہئیں”۔ اسی طرح دوسرے بیان میں فرمایا “دنیاوی مصلحتوں کے تحت مغرب سے تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں، جہاد کاحکم صرف ریاست دے سکتی ہے کوئی تنظیم نہیں “یہ بھی فرمایا” کسی کو کافر یا مرتد قرار دینا حکومت وقت یا عدلیہ کاکام ہے ، فردِواحد کانہیں” ۔

سعودی عرب میں حقیقتاً اقتدار کے دوستون ہیں۔ ایک حکومتی معاملات کو چلاتا ہے اوردوسرا مذہبی امور کی نگرانی کرتا ہے۔ حالیہ بیانات ان دونوں ستونوں کی اہم شخصیات کی طرف سے سامنے آئےہیں جوکہ خوش آئند بات ہے۔

متبادل بیانیہ تبدیلی کا آغاز ہے لیکن اس شفٹنگ (Shifting) میں پیش آنے والی مشکلات غیرمعمولی ہیں ۔ غیر معمولی مشکلات میں سے اول مشکل مذہب کی وہ تشریح ہے جو سال ہاسال سے سعودی عرب کا ریاستی نظریہ بن چکی ہے۔ ولی عہد اسلام کی جس انفرادیت و خصوصیت کو بیان کر رہے ہیں وہ کافی حد تک ہمارے مسالک و فرقوں میں ناپید ہو چکی ہے ۔ سعودی معاشرہ  اس ناپید سوچ اوررویے کا سامنا کئی سالوں سے کر رہا ہے۔غیر معمولی مشکلات میں سے ایک اور مشکل سعودی عرب کا داخلی نظام ہے جوغیر ملکیوں کے لئے تفریق و تذلیل پہ مبنی ہے ۔ جب سے معاشی بحرا ن پیدا ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نشانہ “خارجی” بن رہے ہیں ۔ بے جا لگائے جانے والے ٹیکسزنے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر کے رکھ دیا ہے۔ بہت سے خاندان اپنے اپنے ممالک میں واپس جا چکے ہیں اس سے پہلے وہ اپنی قانونی حیثیت کی وجہ سے سعودی عرب میں خوش اورمطمئن نہیں تھے ،مزید برآں ان پہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی لا د دیا گیا ہے۔ ولی عہدتقلید مغرب کے خواہاں ہیں تو اپنے ملک اصلاحات کا نفاذ بھی مغربی ممالک کے مطابق کریں کہ اپنے ہاں آنے والے “خارجیوں” کو شہریت دے کر مساوی درجہ اورحقوق دے دیں۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے غیر ملکیوں کی کوششوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ مغرب نے ان کی محنت کو تسلیم بھی کیا اورانہیں اپنے جیسے شہری حقوق بھی دیے ہیں۔ یہی لوگ درحقیقت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

غیر معمولی مشکلات میں سے تیسری مشکل حکمرانوں کی عیاشی اور فضول خرچی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی نفسیات مشترکہ ہیں اوروہ یہ ہے کہ اپنے اخراجات کو کم کرنے کے بجائے عوام پہ ٹیکسز کابوجھ ڈالتے جانا۔ سعودی عرب کے معاشی بحران کاشکار ہونے کے باوجود،سلاطینِ سعودیہ کی طرف سے کوئی ایسا بیان یا پلان دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا جو ان کے اپنے اخراجات کو کم کرنے کے حوالے سے ہو ۔ شاہ سلمان ودیگرشخصیات روس، یورپ ودیگر ممالک کے دورے پہ جاتے ہیں تو اس کروّفرسے ہی جاتے ہیں جیسے وہ معاشی بحران سے پہلے جایا کرتے تھے جبکہ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آچکا ہے جو سعودی عرب کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مغرب کے حکمرانوں کا معیار زندگی ان کی عوام کی خوشحالی اورآسودگی کی علامت ہے۔ وہ سادہ طرززندگی اختیار کرتے ہیں اور عوام کے پیسوں پہ عیاشی نہیں کرتے ۔معیشت کو مضبوط بنیادوں پہ قائم کرنے کے لئے فقط ایک شہر بسانا یا سیاحوں کے لئے عیاشی کامرکز بناناضروری نہیں۔ اس کے لئے تعلیم ، سائنس ،جمہوری رویے ، باہر سےآنےوالوں اور رہنے والوں کو مساویانہ طور پر  حقوق دینا ضروری ہوتا ہے ۔ Real free porn movies https://exporntoons.net online porn USA, UK, AU, Europe.

ولی عہد محمد بن سلمان نوجوان ہیں اور باصلاحیت بھی ہیں۔ وہ آج جن جدید ِ اصلاحات کی سعودی عرب میں بنیاد رکھیں گے اس کے ثمرات آنےوالی نسلیں حاصل کریں گی۔پائیدار خوشحالی اجتماعی تبدیلی سے حاصل ہوتی ہے ۔ اجتماع تبدیلی ان اصلاحات پہ منحصر ہوتی ہے جن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے مفادات و حقوق کاتحفظ اور ان کی بقاءہوتی ہے ورنہ خوشحالی اورآسودگی ایک بوسیدہ عمارت کی طرح ہوتی ہے جوکسی وقت بھی اپنی بنیادوں پہ گر سکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...