دہشت گردوں کی مالی مدد کا چیلنج

1,123

خلیجی ممالک سے آنے والے عطیات ابھی بھی مذہبی اورعسکری گروہو ں کو جا رہے ہیں ۔حکومت ابھی تک پاکستان میں ’’محفوظ خیرات ‘‘کے بارے میں کوئی لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہی ہے جس کا فائدہ انتہا پسند اور عسکری گروہوں کو ہو رہا ہے ۔

رمضان المبارک  خیراتی اداروں کے لئے سال کا سب سے موزوں مہینہ ہوتا ہے ۔جس میں اتنے عطیات اکھٹے کر لیتے ہیں جو ان کی سال بھر کی ضروریات کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔لوگ ا س مہینے میں اپنے مذہبی تقاضوں کے مطابق عطیات (زکوٰۃ و عشر )دیتے ہیں۔ان عطیات کا بڑا حصہ بلاواسطہ یا بلواسطہ مختلف نوعیت کے مذہبی اداروں کو جاتا ہے جن میں خیراتی ، فلاحی تنظیموں کے ساتھ کالعدم ،انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ بھی شامل ہیں ۔

ہنوز عسکریت پسندوں کے معاشی ذرائع پر کافی تحقیق کی ضرورت ہے تاہم شواہد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عسکری گروہوں کے وسائل کا بڑا ذریعہ لوگوں سے جمع کئے گئے عطیات ہی ہیں ۔حکومت ابھی تک  خاطر خواہ اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہے جن کے ذریعے لوگوں کے عطیات کا رخ ایسے خیراتی اداروں کی جانب موڑ اجا سکے جو کہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی کسی انتہا پسند گروہ یا دہشت گردی کی کارروائیوں سے منسلک نہیں ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ سرکاری ٹی وی پر چند اشتہارات دینے سے لوگوں کو شعور مل جاتا ہے ۔یہ پاکستان کے لئے انتہائی حساس معاملہ ہے ۔فنانشیل ٹاسک فورس کو ا س مہینے بالخصوص ان مقامات پر نظر رکھنی ہو گی جو مشتبہ ہوں ۔

دہشت گردوں کی مالی مدد کا چیلنج  تین مختلف پرتیں لئے ہوئے ہے  ۔پہلا تو یہ کہ پاکستان عالمی معاہدوں کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔دوسرا یہ کہ کالعدم تنظیمیں ابھی تک پاکستان اور پاکستان سے باہر عطیات اکھٹے کرنے کا مؤثر نظام رکھتی ہیں اور تیسرا یہ کہ حکومت  ابھی تک ایسا کوئی مؤثر ڈھانچہ یا حکمت ِ عملی نہیں بنا سکی جو کہ پاکستان کے فلاحی ترقیاتی ادروں کو ظابطوں کے اندر لائے ۔

جہاں تک عالمی معاہدوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے کچھ اقدامات ضرور اٹھائے ہیں لیکن حال ہی میں ایسوسی ایٹیڈ پریس نے نقطہ اٹھایا ہے کہ عالمی برادری گردوں کی مالی مددکے معاملے پر پاکستان سے سخت اقدامات کی متمنی ہے ۔اس سال لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کے بارے میں بہت سوں کی رائے ہے کہ یہ اس لئے بھی ناگزیر ہوگئے تھے کیونکہ Asia Pacific Group of Money Launderingنے جماعت الدعوۃ کے مالی وسائل پر اعتراضات اٹھائے تھے ۔

گزشتہ سال سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ملک کے تمام بینکوں کو فورتھ شیڈول میں شامل 2021افراد کی ایک فہرست د ی کہ انسدادِ ہشت گردی ایکٹ1997کے تحت  ان کے اکاؤنٹ منجمد کر دیئے جائیں۔سٹیٹ بینک نے منی لانڈرنگ،دہشت گردوں کی مالی مدداور غیر قانونی ذریعہ سے رقم کی منتقلی روکنے کے لئے نئے ضابطے بھی متعارف کروائے ۔صدر ِ پاکستان ممنون حسین نے ایک آرڈیننس کی منظوری بھی دی جس کے تحت سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو اختیار دیا گیا کہ وہ فراڈ ، منی لانڈرنگاور دہشت گردوں کی مالی مدد کے خلاف ضروری اقدامات اٹھائے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت رقوم کی ایک جگی سے دوسری جگہ منتقلی کے بارے میں ایک نیا قانون متعارف کروانے جا رہی ہے جس کے بعد لوگوں کو بتانا پڑ ے گا کہ یہ رقم کہاں سے اور کس ذریعے سے آئی ۔

یہ تمام اقدامات ضروری ہیں تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کی مالی مدد جو عمومی ذرائع سے ہو رہی ہے    اس سے کس طرح نمٹا جائے ؟روایتی اور غیر روایتی طریقوں پر مشتمل بھر پور اقدامات کی ضرورت ہے ۔کیونکہ عمومی بینکوں کو شاید کچھ دہشت گرد ہی استعمال کرتے ہوں اور اگر کرتے بھی ہوں گے تو دوسرے ناموں سے ،فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا کام اگر آسان کرنا ہے تو پھر کالعدم تنظیموں کی فہرست  کواقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1267سے نتھی کردیں ۔

اگر ہم کالعدم تنظیموں کے عطیات جمع کرنے کے عمل کو دیکھا جائے تو ضروت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے فلاحی ادارے بننے کی وجوہات اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔مذہبی اور غیر مذہبی فلاحی ادروں کے حکام کے ساتھ گفتگو سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فلاحی ادارے کس طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔

پاکستان میں اسلامی فلاحی ادارے کئی طرح کے ہیں جس میں مقامی اور فلاحی تنظیموں سے لے کر قومی اور علاقائی سطح کی تنظیمیں بھی موجود ہیں ۔لوگوں کی اکثریت عطیات دینے کے لئے سہل راستہ ڈھونڈتی ہے یعنی جو نظر آیا اسے پیسے تھما دیئے ۔اس معاملے میں وہ قریب کے فلاحی اور مذہبی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک مذہبی تقاضا بھی ہے ۔زیادہ تر چھوٹی نوعیت کے عطیات اسی طرح دیئے جاتے ہیں لوگوںکی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو کہ دیکھ بھال کے عطیات دیتی ہے ۔متمول گھرانوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ مختلف شعبوں سے منسلک ہے ان میں غیر مذہبی اداروں کو عطیات دینے کا رجحان ہے ۔پنجاب کے تاجر حضرات مذہبی اداروں بشمول کالعدم تنظیموں کی مالی مدد کرتے ہیں۔اسی طرح لوئر مڈل کلاس کا رجحان بھی مقامی مذہبی اداروں کی جانب ہے ۔فاٹا ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے افغان طالبان کو بھی عطیات دیئے جاتے ہیں۔ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق مختلف مساجد کے مولوی حضرات افغانستان میں لڑنے والے طالبان کے لئے عطیات جمع کر رہے ہیں ۔

مشرقِ وسطی ٰ میں رہنے والے پاکستانیوں کے عطیات کا بڑا حصہ بھی پاکستان کے مذہبی فلاحی اداروں اور  مدارس کو جاتا ہے ۔اس کے مقابلے پر مغربی ممالک میں رہائش پزیر پاکستانیوں کے عطیات غیر مذہبی خیراتی اداروں کے ساتھ پیروں اور مزاروں سے وابستہ خیراتی اداروں کو جا رہے ہیں۔بہت سے مذہبی ادارے  اور کالعدم گروہ اپنے لوگوں کو خلیجی ممالک میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ پاکستانیو ں، عرب خیاراتی اداروں اور شیخوں سے عطیات اکھٹے کر سکیں ۔

جہاں تک خیراتی اور فلاحی تنظیموں کے بارے میں قواعد و ضوابط کا معاملہ ہے حکومت کا ہدف مغربی غیر سرکاری داروں کی جانب ہے تاکہ انہیں سخت ضوابط کا پابند بنایا جائے ۔تاہم خلیجی ممالک سے آنے والے عطیات ابھی بھی مذہبی اورعسکری گروہو ں  کو جا رہے ہیں ۔حکومت ابھی تک پاکستان میں ’’محفوظ خیرات ‘‘کے بارے میں کوئی لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہی ہے جس کا فائدہ انتہا پسند اور عسکری گروہوں کو ہو رہا ہے ۔

(بشکریہ جیوڈاٹ ٹی وی ،ترجمہ سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...