گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف پوری قوم متحد

1,427

گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاذ کے فیصلے کے خلاف تین روز تک گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال   کے بعد گلگت بلتستان  کونسل کے ارکان اور وزرا کی جانب سے ٹیکس کے خاتمے کی یقین دہانی کے بعد  احتجاج ختم کردیا گیا۔ مگر تا دمِ تحریر گلگت بلتستان بھر کے بنکوں سے نقد رقو م کے نکالنے  پر ٹیکس کی کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے ۔ جس پر گلگت بلتستان کے، ماحول میں بدستور کشیدگی کی فضا بر قرار ہے ۔ گذشتہ دنوں مرکزی انجمن تاجران گلگت اورعوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان  کے مرکزی راہنماوں نے آئندہ  دنوں گلگت بلتستان میں ٹیکس کے معاملے پر ممکنہ طور پر شروع کئے جانے والی ہڑتال کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا  اور یہ موقف اخیتار کیا  کہ “گلگت بلتستان کو یہاں کے لوگوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے آزاد کرایا  اور بغیر کسی شرط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ۔لیکن اب تک یہ خطہ ملک کے قومی دھارے میں شامل نہیں ہوا ۔اس خطے کی آئینی حیثیت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے،لہذا تب تک کے لئے یہاں کسی قسم کے ٹیکسز کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا ۔ گلگت بلتستان حکومت اپنے تحریری وعدے کے مطابق اِن ٹیکسز کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور گلگت بلتستان کونسل اور قانون ساز اسمبلی کی عمارتوں پر تالے لگا کر عوام کےساتھ احتجاج میں شامل ہوجائے ۔ ”

گلگت بلتستان میں ٹیکسز کا نفاذ جی بی کونسل کی جانب سے ایک سے زائد بار ملکی فنانس ایکٹ کو توسیع دینے کے متفقہ فیصلوں کی روشنی میں عمل میں آیا ہے ۔ گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاذ کے بعد وفاق نے گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ میں بھی خاصا اضافہ کیا ہے ۔ اب بیک جنبِش ِ قلم ٹیکسز کو ختم کرنے کا معاملہ اتنا آسان نظر نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے تو گلگت بلتستان کے صوبائی وزرا اور ارکان گلگت بلتستان کونسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ٹیکسز کے نفاذ کا خاتمہ کیا جائے گا  لیکن جب اس مسئلے  کے حل کی کوششیں شروع کیں تو اس مسئلے کی   پیچیدگی کا اندازہ  ہوا تو ان کے موقف میں یکسر جو تبدیلی آئی ہے وہ بہ آسانی محسوس کی جاسکتی  ہے۔ ٹیکس کے خاتمے کی تحریری یقین دہانی  کے بعد اب کہا جانے لگا ہے کہ یہ ٹیکس سال 2012 ء میں لگے ہیں اِن کے خاتمے کے لئے بھی اتنا ہی وقت لگے گا ۔

ایک صوبائی وزیر نے تو مکمل یو ٹرن لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ٹیکس کے خاتمے کی کوئی تاریخ  دی نہ ہی کوئی تاریخ مقرر کی ہے۔ اگرچہ حکومتی ارکان اور  ہڑتالیوں کے مابین ہونے والے  مزاکرات  کے بعد  جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس کے مکمل خاتمے کے لئے جلد  وزیر اعلی کی سربراہی میں  وزیر اعظم سے بات کی جائے گی۔نیز گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں بھی گلگت بلتستان سے ٹیکس کے خاتمے کے لئے قرارداد لائی جائے گی۔ اس اعلامیے پر صوبائی  حکومت  کے ترجمان صوبائی وزراءاور  گی بی کونسل کے ارکان نے حکومت کی جانب سے دستخط کیے تھے۔اس تحریر ی اعلامیے کے جاری ہونے کے بعد گلگت بلتستان بھر میں جاری شٹر ڈاون اورپہیہ جام ہڑتال ختم کردی گئی تھی۔لیکن ابھی تک اس اعلامیے کی روشنی میں ٹیکس  کے خاتمے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بھی گذشتہ کئی روز سے جاری ہے لیکن ابھی تک اسمبلی میں ٹیکس کا معاملہ زیر غور نہیں آیا  ۔ ایسے میں  یہ امر طے ہے کہ گلگت بلتستان میں رائج   ٹیکسز فوری ختم ہونے والے نہیں۔  لہذا گلگت بلتستان میں ایک بار پھر احتجاج کا سلسلہ  شروع ہوگا۔اور تمام اضلاع میں مکمل طور پر پہیہ جام اور شٹر ڈاون   ہونا یقینی امر ہے۔اس مقصد کے لئے مرکزی انجمن ِ تاجران کے عہدہدار بلتستان ڈویژن کے کامیاب دورے کے بعد اب دیامر ڈویژن کے دورے پر ہیں اور دیگر اضلاع کے دورے بھی متوقع ہے ۔

اس مسئلے کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی صدارت میں ہوا جس میں ٹیکس موومنٹ اور اس سے پیدا شُدہ صورتِحال کا جائزہ لیا گیا ۔اجلاس میں فیصلہ  کیا گیا کہ ٹیکس ایڈیپشن ایکٹ 2012 کو ختم کیے بنا گلگت بلتستان سے ٹیکسز کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ،البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مذکورہ ایڈپشن ایکٹ پر نئے سرے سے نظرثانی کیے جانے تک کے لئے گلگت بلتستان میں عائد ٹیکسز کو معطل کرایا جائے۔اجلاس میں یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ وفاق پر زور دیا جائے گا کہ گلگت بلتستان کو کم از کم پانچ یا دس سال  کے لئے ٹیکس فری زون قرار دیا جائے۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت گلگت بلتستان سے متعلق ایڈہاک پالیسی کی بجائے مستقل پالیسی اپنائے ۔ اس عارضی نظام کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی بڑی بد نامی ہو سکتی ہے۔ ٹیکس کے مسئلے پر گلگت بلتستان میں ہونے والی شڑڈاون ہڑتال کو بھارتی الیکٹرانک میڈیا میں بھت زیادہ کوریج دی گئی اور اس حوالے سے بہت زیادہ منفی پرپیگنڈا کیا گیا جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی بڑی بد نامی ہو رہی ہے ۔ کیونکہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کا معاملہ تا حال  حل طلب ہے ایسے میں گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ لہذا وفاقی حکومت کو اس معالمے پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضروت ہے تاکہ پھر سے گلگت بلتستان جام نہ ہونے پائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...