پاکستان میں دھرنا کلچر

1,133

چند برس سے ہمارے ہاں احتجاج کا جو چلن رواج پا چکا ہے، فیض آباد کا یہ دھرنا اس کی ایک بُری مثال ہے۔ اِس سے پہلے تحریک انصاف نے اسلام آباد میں 126 دن تک جو دھرنا دیا تھا اس کے اثرات نہ صرف دھرنے کے دِنوں میں،بلکہ اس کے کئی ماہ بعد تک سی ڈی اے انتظامیہ کو بھگتنے پڑے،پاکستان عوامی تحریک بھی2012ء اور پھر 2014ء میں دو دھرنے دے چکی ہے، پہلا دھرنا تو چار دن بعد ہی اُٹھا لیا گیا تھا،لیکن دوسرا دھرنا76دن تک چلا، اپنی رائے کے اظہار کے لئے احتجاج کے جو طریقے بھی اختیار کیے  جائیں وہ مادر پدر آزاد نہیں ہوتے کہ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے ،ہر قسم کا احتجاج چند شرائط سے مشروط ہوتا ہے،لیکن گزشتہ چند برس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے ہر حدود و قیود کو عبور کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور انتظامیہ بھی اُن کو اِس حد تک کھلی چھٹی دے دیتی ہے کہ اس سے لاکھوں دوسرے شہریوں کے حقوق بُری طرح مجروح اور متاثر ہوتے ہیں،جن کی حفاظت انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔موجودہ دھرنے کے سلسلے میں تو خاص طور پر نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ شرکاء کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی اور پولیس کی تھوڑی سی نفری ان سے بخیرو بخوبی نپٹ سکتی تھی،لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چند سو لوگوں کے ہجوم کو دارالحکومت اور جڑواں شہر راولپنڈی کے لاکھوں لوگوں کو یرغمال بنانے کی اجازت کیوں دی  گئی ؟ اب اس کے خاتمے کے لیے جو کوشش کی گئی ہے، اس نے بھی حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔اس دھرنے کے خاتمے کے لیے پولیس اور ایف سی کے 8ہزار جوانوں کی مدد سے آپریشن کا راستہ اختیار کرنا پڑا جس کے ردعمل میں کراچی ، لاہور،پشاور،فیصل آباد،ملتان  سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور  علاقوں میں کشیدگی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے انہیں نرم سے نرم الفاظ میں بھی انتہائی افسوسناک قرار دیا جا سکتا ہے۔

دھرنے کے شرکا نے عدالت اور انتظامیہ کے احکامات ماننے سے انکار کیا  اور حکومت نے عدالتی حکم کی روشنی میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی، واٹر کینن سے پانی کی بوچھاڑ کی اور لاٹھی چارج کیا جبکہ مظاہرین نے پولیس پر زبردست پتھراؤ کیا۔ ڈنڈے برسائے اور پہلے سے جمع کئے ہوئے دوسرے ہتھیار بھی استعمال کئے،پولیس اہلکاروں سمیت کئی لوگوں کے جاں بحق  اور متعدد افراد کے زخمی ہوجانے  اور سرکاری املاک کو جلانے،نقصان پہنچانے اور توڑ پھوڑ کی خبریں ہیں۔تین سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار  بھی کیا گیا ہے جبکہ اس وقت حساس عمارتوں کی حفاظت پر پاک آرمی مامور ہوچکی ہے۔یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ کسی بھی  مسئلے پر جب  بھی کوئی مخالفانہ سوچ سامنے آتی ہے تو حکومت دور اندیشی اور حکمت عملی  سے کام لیتے ہوئے معاملات کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے فوری طور پر نمٹانے کے بجائے اس حد تک جانے دیتی ہے کہ حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ حکومت حقائق کو چھپا کر اور درست صورت حال سامنے نہ لاکر  عوام کو گمراہ ہونے کا موقع خود فراہم کرتی ہے اور مسائل کو بے نیازی کے ساتھ ٹالتی رہتی ہے ،جب یہ مسائل گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں، تب نقصان کے پیش نظر عجلت میں ایسے اقدامات اٹھاتی ہے جو بجائے معاملے کو سلجھانے کے مزید الجھا دیتے ہیں۔فیض آباد کا دھرنا حکومت کی اسی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف بعض گروہ اپنی سوچ سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں کوئی زمینی حقیقت ،کوئی عقلی دلیل اور قومی مفاد کا کوئی تقاضا انہیں تصادم اور محاذ آرائی کے راستے پرچلنے سے نہیں روک سکتا۔ لال مسجد کا سانحہ ہو، ماڈل ٹاؤن لاہور کا المیہ ہو، یادھرنے اور لانگ مارچ وغیرہ، ہر معاملے میں اسی طرح کی سوچ کار فرما نظر آتی ہے ۔آخر اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائی جاتی ہیں کہ معاشروں میں آزادی کی بھی کچھ حدودوقیود ہوتی ہیں۔جمہوری آزادی کے  تحت دھرنوں،احتجاجوں اور جلسے جلوسوں کی اگرچہ ہر ایک کو اجازت ہے مگر آئینی وقانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے۔طاقت اور ڈنڈے کے زور پر ملک کو چلانے کی کوشش کسی بھی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔نظام کو مفلوج کرنے کی اجازت دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں نہیں دی جاتی تو پاکستان میں نظام مملکت کو مفلوج کرنے کی کوششیں کیوں ہوتی ہیں۔تنازعات اور مسائل ہر جگہ جنم لیتے ہیں مگر ان کے حل کے لیے آئینی وقانونی فورم موجود ہیں،مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے،بات چیت کرکے افہام وتفہیم کے ذریعے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں مگر فیض آباد دھرنے میں موجود افراد ان تمام فورمز کو مسترد کرچکے ہیں، جس کا واضح مطلب پاکستان کے آئین وقانون سے بغاوت ہے جو کہ ریاستی شہریوں کو کسی صورت زیب نہیں دیتا۔آخر کیا وجہ ہے کہ عدالت عالیہ کے ججز کی تذلیل کی گئی؟حکومتی احکامات اور اپیلوں کا مذاق اڑایا گیا۔ یہ لوگ کس طاقت  سے سرشار ہیں جو کسی کی بھی سننے کو تیار نہیں۔ نتیجتاً آپریشن ہوا تو مظاہرین اس کا بھی بھرپور جواب دے رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مظاہرین کی پشت پر کوئی بڑی طاقت موجود ہے جو مذہب کے نام پر ملک کے جمہوری سسٹم کو  مفلوج کرکے اپنے من پسند مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے۔

دھرنوں کا جو کلچر بعض سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں نے  پاکستان میں متعارف کرا دیا ہے، وہ مُلک اور عوام کے لئے ایک مستقل عذاب کی شکل اختیار کر گیا ہے،حکومت اِن سے تنگ ہے،لیکن اس کے ادارے اس کا مستقل حل تلاش کرنے میں ناکام ہیں جونہی کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے وہ عضوِ معطل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ان دھرنوں نے ہمارے سیاسی اور مذہبی کلچر کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔جمہوری نظام مملکت کے تحفظ کے لیے   اس معاملے کا کوئی مستقل حل تلاشنا از حد ضروری ہے ورنہ ہر چھ مہینے بعد کوئی نہ کوئی دھرنے کی داستان دہرانے کا اعلان کرتا رہے گا ۔وقت آگیا ہے کہ حکومت ایسے تمام اجتماعات کے لیے قانون سازی کرے ، مذہب ہو یا سیاست کسی بھی نام پر نکلنے والے ان جلوسوں،جلسوں،احتجاجوں اور دھرنوں کے لیے مخصوص گراؤنڈز متعین کیے جائیں۔ یہ معاملہ کسی ایک جماعت، مسلک، حکومت یا اپوزیشن کا نہیں ہے۔ اس پر ہر ایک کو اپنے اپنے مفادات سے اوپر اُٹھ کر دیکھنا چاہیے. قانون کے دائرے میں رہ کر اگر احتجاج نہیں کیا جائے گا، تو لاقانونیت کی حوصلہ افزائی  ہوگی جو  پاکستانی ریاست کو شدید خطرات سے دوچارکرسکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...