بریلوی مکتبہِ فکر کی سیاسی فعالیت
ایک نوخیز بریلوی جماعت نے جس طرح راولپنڈی اور اسلام آباد کوکئی دنوں تک جام کیے رکھا اور بالآخر حکومت سے اپنے تمام مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئی ، اس کی توقع ملک میں موجود خود بریلوی مسلک کی کثیر تعداد کو بھی نہیں تھی۔ تاہم تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ میں اندرون ِ خانہ اقتدار کی کشاکش سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ انہوں نے یہ خود اعتمادی یکا یک حاصل نہیں کی ہے۔ملک میں اکثریتی مکتبہِ فکرسمجھے جانے کے باوجود بریلوی علماءاور واعظین اپنے خطبات کے ذریعےاس احساسِ مظلومیت کا تاثر دیتے رہتے ہیں کہ وہ حریف مکاتب فکر، بالخصوص دیوبندیوں کے شدت پسندانہ رویوں کا شکار ہیں ۔ گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مظلومیت کے اس شعوری احساس کو مہمیز ملی اور بیشتر بریلوی تنظیموں نے ممتاز قادری کی پھانسی اور توہینِ رسالت ﷺ سے متعلقہ تنازعات کو سیاسی و مسلکی عروج کے حصول کیلئے استعمال کیا۔تاہم جو کچھ اس صورتِ حال سے تحریک ِلبیک نے حاصل کیا، دوسرے لوگوں کیلئے وہ اک خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔سیاسی تجزیہ کار پہلے ہی مذکورہ تنظیم کو دائیں بازو کی بڑی سیاسی جماعتوں ، بالخصوص مسلم لیگ (ن) کیلئے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ پشاور اور لاہور کے ضمنی انتخابات میں تحریکِ لبیک کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بالترتیب پانچویں اور تیسرے نمبر پر موجودگی اس پیش گوئی کو تقویت بخشتی ہے۔تاہم یہ ابھی تک غیر واضح ہےکہ کونسا بریلوی گروہ انتخابات سے پہلے اپنی پوزیشن مستحکم کرتا ہے اور یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ بریلوی مکتبہِ فکر کی بڑھتی ہوئی سیاسی فعالیت پاکستان میں مجموعی بریلوی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔کیا یہ باہمی اتحا د کے جذبات کو ابھارتے ہوئے بریلوی مسلک کو متحد ہوکر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کرتی ہے یا پھر سیاست و قیادت کے جھگڑوں کے باعث ا سے مزیدمنقسم کردے گی ۔
عموماً بریلوی جماعتوں نے جدید سیاسی جدلیات کے پیشِ نظر اپنے آپ کو منظم کرنےاور نئے ڈھب پر ڈالنے سے پہلو تہی کی ہے، جس کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں ان کی زیادہ توجہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات استوار کرنے پر مرکوز رہی ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی سیاسی قوت کا مقابلہ نہ کرپانے کی بنا پر نوے کی دہائی میں جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما شاہ احمد نورانی مرحوم کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ بریلوی مکتبہِ فکر کی سیاسی بقاء اسی میں ہے کہ وہ مرکزی دھارے کی دیگر مذہبی تنظیموں کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد کے پرجوش حامی رہے اور 2002 میں متحدہ مجلسِ عمل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے حال ہی میں احمد سعید کاظمی اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماشاہ اویس نورانی کی قیادت میں بریلوی جماعتوں نے نظامِ مصطفیٰﷺ متحدہ محاذ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا، جس میں 7 بریلوی تنظیمیں شامل ہیں۔ جبکہ سنی تحریک اور تحریکِ لبیک (جلالی ) کی طرف سے بھی اس اتحاد میں شمولیت کے امکانات ہیں۔مذکورہ اتحاد اس کوشش میں ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل بااثر پیروں اور گدی نشینوں کو عظیم بریلوی کاز کیلئے اس اتحاد میں شمولیت پر آمادہ کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ محاذ نے سندھ کی بااثر روحانی و سیاسی شخصیت پیرپگاڑا کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے بڑے سیاسی اتحاد سے بھی انتخابی شراکت کا عندیہ دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک یارسول اللہﷺ کے علاوہ تمام بریلوی جماعتوں کو بڑے پیمانے پر متحد کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
احتجاجی عمل زیادہ دیر تک عوامی جذبات و احساسات پر اثر انگیزنہیں رہ سکتا ،کیوں کہ سیاست جذباتیت نہیں ، معقولیت کا نام ہے اور عوام سوچ بچار کے بعد ہی اپنا راستہ منتخب کرتے ہیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ آئندہ انتخابات میں بریلوی مسلک کی تین بڑی سیاسی قوتیں میدان میں اتریں گی۔ جن میں سےطاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے علاوہ دیگر دونوں جماعتیں، تحریکِ لبیک اور متحدہ محاذسیاسی مفادکیلئے مذہبی تنازعات کا سہارا لینے کی کوشش کریں گی۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان جماعتوں کی طرف سے اپنے حامی حلقوں کو متحرک رکھنے کیلئے سیاسی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر آئندہ ہفتوں میں احتجاجی مظاہروں کے آغاز کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاجی عمل زیادہ دیر تک عوامی جذبات و احساسات پر اثر انگیزنہیں رہ سکتا ،کیوں کہ سیاست جذباتیت نہیں ، معقولیت کا نام ہے اور عوام سوچ بچار کے بعد ہی اپنا راستہ منتخب کرتے ہیں ۔ تاہم یہ تنظیمیں ہیجان انگیز طریقے سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتوں کودفاعی پوزیشن میں لے آ ئیں گی۔اگر تمام بریلوی حلقے متحد ہو جاتے ہیں تو یہ قابلِ بیان حد تک ملکی سیاسی منظر نامے کو بدل سکتے ہیں۔ان بریلوی تنظیموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مکتب بریلوی شخصی اعتقادات کے دائروں میں بٹا ہوا ایک منتشر حلقہ ہے۔بریلوی مسلک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے منظم ڈھانچے ہیں اور نہ ہی کوئی مربوط نظام العمل، ملکی سیاست میں بریلوی مسلک کی واحد نمائندہ جماعت جے یو پی چار دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اپنے وقت کی سب سے بڑی غیر سیاسی بریلوی تنظیم جماعتِ اہلِ سنت کی صورتِ حال بھی اس سے مختلف نہیں جو اَب پانچ دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور ہر دھڑا الگ سیاسی عزائم رکھتا ہے۔
پیر حضرات اور مختلف مزارات کے سجادہ نشین اپنے متعلقین و متوسلین سے حمایت طلب کرکےانتخابی قوت کے مقامی مراکز کو منظم کرتے ہیں ۔ اپنی خودمختارانہ حیثیت پر زد پڑنے کے ڈرسے وہ اپنے مقامی سیاسی وسائل کو کسی قومی سطح کی سیاسی جماعت کی تشکیل کیلئے استعمال میں لانےسے کتراتے ہیں۔ وہ دیگر قومی جماعتوں سے اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح ان کی منفرد روحانی حیثیت بھی برقرار رہتی ہے۔انانیت اور خود پرستی کے ان معاملات سے ہٹ کر وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ مسلکی بنیادوں پر بننے والے اتحاد عوامی تحرک میں گرمجوشی اور قانون ساز اداروں میں موثرنمائندگی کیلئے کارآمد نہیں ہیں۔طاہر القادری جماعتِ اسلامی اور دیگر دیوبندی اور سلفی تنظیموں کی طرح اپنی جماعت کا منظم ڈھانچہ قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، مگر وہ اپنے آپ کو بریلوی مسلک کے نمائندہ رہنما کے بجائے ایسے عالم کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کے عقائدو نظریات سلفی مکتبہِ فکر کےسوا شیعہ اورتمام سنی طبقات کیلئے قابلِ قبول ہیں ۔دراصل بریلوی مسلک میں ایسی ولولہ انگیز قیادت کا فقدان ہے جو تمام بریلوی تنظیموں اور دھڑوں کو متحد کر سکے۔ نظامِ مصطفیٰﷺ متحدہ محاذ کا قیام کوئی نیا قدم نہیں ، ماضی میں بھی متعلقہ بریلوی علماء عام انتخابات سے پیشتر اس طرح کے سیاسی اتحاد وں کا اعلان کرتےرہے ہیں مگرہر بار بیل منڈھے چڑھے بغیر ہی مرجھا جاتی ہے۔
بریلوی جماعتوں میں قیادت کا بحران بھی اہمیت کا حامل ہے، ہر جماعت کا سربراہ اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر اور لائق سمجھتا ہے، یہ معاملہ پوری مسلم دنیا کے ساتھ ہے، اسی کی وجہ سے انتشار و افتراق جنم لیتا ہے۔حالیہ دھرنے کے بعد کی صورتِ حال کی ہی مثال لے لیجئے ، کس طرح تحریکِ لبیک سے دو مخالف آوازیں جنم لے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کار پاکستانی سیاست کے مستقبل سے خائف ہیں جبکہ بریلوی قیادت اپنے اندرونی اختلافات کے باعث پریشان ہے۔
(ترجمہ: حذیفہ مسعود،بشکریہ ڈیلی ڈان)
فیس بک پر تبصرے