تم اپنے ہی عوام کے ہاتھوں مارے جاو گے

یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی ہلاکت

1,400

تیس برس تک یمن پر حکمرانی کرنے والے  علی عبد اللہ صالح   کو پیر کے روز اپنے ہی عوام نے بے دردی سے قتل کر دیا،ان کی ہلاکت کے بعد سے یمن میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور سابق صدر کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان  جاری خونریز جھڑپوں میں جانبین کے سینکڑوںشہری تہہ تیغ ہو چکے ہیں۔ نہ معلوم کب تک سفاکیت کا یہ عمل جاری رہے گا۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مقتول یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے بھتیجے اور سینئر فوجی افسر  طارق محمد عبداللہ صالح بھی اپنے متعدد ساتھیوں سمیت  حوثیوں  کے ساتھ ہونے والی لڑائی میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل 2011 میں ابھرنے والے عرب انقلابات کے نتیجے میں لیبیا کے انتہائی مضبوط اور طاقتور ڈکٹیٹر کرنل قذافی  بھی  اپنے ہی عوام کے  ہاتھوں  مارے جا چکے ہیں۔  علی عبد اللہ صالح کی ہلاکت کے  بعد تو عرب دنیا کے سوشل میڈیا پر  سابق عراقی صدر صدام حسین کا یہ قول وائرل ہو چکا ہے  کہ  مجھے تو  امریکہ قتل کر رہا ہے،جبکہ تم اپنے ہی عوام کے ہاتھوں مارے جاو گے۔

یمن  پر ڈھائی سال سے مسلط جنگ کی وجہ  سے یمنی عوام ایک طرف بموں،گولیوں اور میزائلوں کا نشانہ بن رہے  ہیں جبکہ دوسری طرف زندہ  بچ جانے والے عوام کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اشیائے خورد ونوش کی قلت کی وجہ سے  عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد  لقمہ اجل بن چکے ہیں اورپانی  کی قلت،بیماری، جنگ  کی وجہ سے ہونے والی معذوری اور بھوک کی وجہ سے یہ ملک شدید انسانی بحران  کا شکار ہے۔ یمن  کے شہریوں پر اپنی ہی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ایک طرف  ایران کا حمایت  یافتہ گروہ  ہے تو دوسری طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادی ہیں۔مشرق وسطی کی دونوں بڑی طاقتیں خطے میں اپنی طاقت اور تسلط قائم کرنے کے لیےیمن کی سرزمین پر جنگ لڑ رہی ہیں ۔ دونوں طاقتوں کو یمن کے اندر سے سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ صرف اور صرف یمن ہے۔ اگر فائدہ ہوا تو وہ سعودیہ یا ایران  کا  ہو گا اور یمن کو اس جنگ  کے نتیجہ میں کچھ نہیں  ملنے والا۔نیشنلزم کی تحریک کے بعد سے امت مسلمہ کا تصور عملی طور پر معدوم ہو چکا ہے اور  اس وقت ہر ملک کے پیش نظر  صرف اور صرف اپنا  قومی مفاد  ہوتا ہے۔ اس لیے یمن سمیت کسی بھی ملک و قوم کا کسی دوسرے ملک سے مدد حاصل کرنا اور اسے اپنے ملک کے عوام یا حکمرانوں تک رسائی دینا  ایک سنگین غلطی ہے۔مدد دینے  والا ملک چاہے امریکہ ہو یا روس،سعودی عرب ہو یا ایران،اس کے پیش نظر صرف اپنے ہی مفادات ہوتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے  کسی دوسرے ملک یا قوم کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے، طاقت رکھنے والے اور مدد بہم پہنچانے والے ممالک  کو اس سے قطعاً کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

اطلاعات کے مطابق مقتول یمنی صدر  نے اپنے عوام کی اسی حالت زار کو دیکھتے  ہوئےیمن کو جنگ سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اپنی ایک نشری تقریر میں  اتحادی  افواج سے یمن کا محاصرہ ختم کرنے  اورفوجی اور شہری مقاصد کے لیے ہوائی اڈے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ امدادی قافلے ملک میں داخل ہوسکیں اور  قحط کا خاتمہ ہو لیکن صالح کے قتل کے بعد یہ ممکن نہیں رہا ہے۔یمن کے استحکام کے لیے سب سے پہلے داخلی قوتوں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا اور کسی بھی قوم کے رہنما کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کو تقسیم  ہو نے سے بچائے اورانہیں  متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کرےورنہ  جہاں باہمی تفرق ہو اور قوم مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہو۔رہنمایان قوم بھی فریق بن جائیں تو  ایسےرہنماؤں کا یہی مقدر ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کے ہاتھوں قتل ہو جائیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...