دھرنے ۔۔۔پاکستان کی شناخت کے لیے خطرہ
شہری اور ریاست کے درمیان تعلق کا رشتہ محض طاقت و اطاعت سے نہیں بلکہ رضا کارانہ اور تسلی بخش شہری کی موجودگی سے جنم لیتا ہے۔
الیکشن اصلاحات کیلئے ہونیوالی آئینی و قانونی ترمیم کے اختتامی مرحلے،یعنی ایوان بالا سے منظوری کے دوران ایک غلطی کی نشاندہی پر سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے مسودے میں ترمیم کی حمایت کی مگر ایوان بالا میں موجود اکثریتی جماعت و ارکان نے اس اصلاح کو تسلیم نہ کیا۔ چنانچہ بروقت اصلاح کا عمل ممکن نہ ہوسکا ۔جس کے نتیجہ میں ملک میں بھرپور احتجاج کاآغاز ہوا ۔مختلف شرعی فتوے صادر ہوئے اور بالآخر9نومبر کو جڑواں شہروں کے سنگم پر زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے لیےدھرنادیا گیا ۔چنانچہ بیس سے زائد گذرجانے کے بعد حکومت اور مظاہرین کے مابین ایک تحریری معاہدہ طے پایا جس کے مطابق زاہد حامد کو بھی اپنی وزارت سے الگ ہونا پڑا۔ اس معاہدے پر ریاست کے اہم اور سب سے طاقتور ادارے کے ایک افسرکے بھی دستخط موجود ہیں جسکی وساطت سے یہ معاہدہ طے پایا ہے۔اب دھرنا عملاً ختم ہو چکا ہے لیکن جو اثرات چھوڑ گیا ہے اس پر بحث جاری رہے گی۔اس کے منفی اثرات ہماری معاشرت،سیاست،ریاست اور بصیرت کے علاوہ دنیا بھر میں ملک کی شناخت تعارف اور ساکھ کو متاثر کرتے رہیں گے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تاکہ غلطیوں سے سیکھنا ممکن ہو۔ تاہم بنیادی شرط یہ ہے کہ سارے واقعہ کا ازسر نو جائزہ لے کر ملکی ساکھ کی بہتری کیلئے نئی حکمت عملی بنانے کا عزم و ارادہ کریں۔
دھرنوں کی سیاسی دکانداری کا آغاز تو جماعت اسلامی کا کیا ہوا ہے تاہم اس کا احیاء ڈاکٹر طاہر القادری نے کیاہے، بعد ازاں عمران خان نے اس روایت کو مستحکم کیا، اب خادم رضوی نے اس روایت سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔جماعت اسلامی سے لیکر خادم رضوی تک ہمیشہ میں عوامی زندگی اور ریاستی امور کو نشانہ بنایاگیا اور اب تو یہ خدشہ نمایاں ہونے لگا ہے کہ کوئی مذہبی جنونی گروپ کبھی بھی اپنے پانچ چھ ہزار ارکان کے ساتھ اسلام آباد کی چند شاہراہوں پر قبضہ کرکے حکومت کو مفلوج کرسکتا ہے۔ چونکہ حکومت ہی ریاستی اتھارٹی کی واحد نمائندہ صورت ہوتی ہے ،لہٰذا دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں محسوس کیا گیا کہ پاکستان میں حکومت کو مفلوج کرکے ریاست اور اس کی تمام طاقت پر قبضہ ہوسکتا ہے۔اگر چہ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آرہی تاہم وطن عزیز میں احتجاج کے نام پر جاری اس ڈارمے کے تناظر میں دنیا اس منطقی نتیجے پر پہنچ چکی ہے ۔اس دھرنے نے حتمی طور پر دنیا اور خود اہل پاکستان پر یہ بھی عیاں کردیا ہے کہ پاکستان میں حکومت ریاستی اتھارٹی کی واحد مختار و مالک نہیں بلکہ یہاں ریاست اپنی طاقت کے تناظر میں ماورائے قانون ایک ادارے میں مرتکز ہو چکی ہے۔مذکورہ استدلال کی روشنی میں یہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔
اولاً اس نقطے کو مسترد کردیا جائے کہ پاکستان میں کوئی تنظیم یا جماعت حکومت اور انتظامیہ کو مفلوج کرکے طاقت کے بنیادی ریاستی مرکز پر براجمان ہوسکتی ہے، چنانچہ یہ نقطہ اعتراض منطقی طور پر برقرار نہیں رہتا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہے اس کے ایٹمی اثاثوں پر کوئی گروہ قابض ہوسکتا ہے۔لیکن اس مثبت نتیجے کے بطن میں پاکستان کی ایک جمہوری دستوری ریاست کی شناخت اور ساکھ ختم ہوگئی ہے اور یہ زیادہ بھیانک ہے کیونکہ اس پس منظر میں ریاست کاوجود مسدود ہوجاتا ہے۔میرا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کا شہری ریاست کے حوالے سے ریاستی وجود محض آئین کا مرتب کردہ ہے ،اگر ہم اپنے کئے گئے اقدامات جو محض سطحی،عارضی اور گروہی مفادات کیلئے اٹھائے گئے ہوں،سے اپنی ریاستی ہیئت اور قانون کے اطلاق کی طاقت کو زائل کردیں گے اور فطری و سیاسی اصولوں کی بنیاد پر ریاست کا وجود بھی زائل ہوتا جائے گا۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور آئین پاکستان کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھا جائے تو اس سے دنیا بھر میں پاکستان کےتشخص میں توانائی پیدا ہوگی بلکہ پاکستان کی داخلی سالمیت جو آئین پر ہی استوار ہے مستحکم ہوگی۔شہری اور ریاست کے درمیان تعلق کا رشتہ محض طاقت و اطاعت سے نہیں بلکہ رضا کارانہ اور تسلی بخش شہری کی موجودگی سے جنم لیتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے