عرب دنیا میں رمضان ڈراموں کی مقبولیت اور داعش کے ’’کالے کوے‘‘
ایک صحافی کو دکھایا گیا ہے جس کی منگیتر اپنا مسیحی عقیدہ چھوڑ کر شدت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کر لیتی ہے اور پھر ایک کلیسا کو دھماکے سے اڑانے کی کارروائی کرتی ہے۔
ہمارے ہاں رمضان میں ٹی ڈراموں کی طرف رجحان کم ہو جاتا ہے اور عموما لوگ ایسے پروگرام دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں جن سے دین سے متعلق فہم میں اضافہ ہو اور اعمال دینیہ کی رغبت پیدا ہو،اس کے علاوہ ایسے معلوماتی پروگرام بھی مقبول ہوتے ہیں جن میں انعامات کی بارش ہو رہی ہو اور “جائز” تفریح بھی فراہم ہو رہی ہو جیسا کہ مختلف چینلز اپنے اپنے انداز سے ’’رمضان ٹرانسمیشن‘‘کے عنوان سے متعدد شو پیش کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نئے ڈرامے ے کے لیے یہی اعلان سامنے آتا ہے کہ عید کے بعد سے شروع ہو گا۔عرب دنیا میں لیکن ایسا نہیں ہے۔وہاں کے دینی پروگرام بھی الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ٹی وی ڈرامے بھی چلتے رہتے ہیں،بلکہ رمضان کے لیے خصوصی ڈرامے تیار کیے جاتے ہیں جو عموما 30 قسطوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور پورا رمضان ان کے ناظرین اپنے محبوب ڈرامے کے ساتھ گزار تے ہیں۔ممکن ہے کہ وہ ایسا روزہ گزارنے کے لیے کرتے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب دنیا میں جس پائے کے ڈرامے رمضان میں نشر ہوتے ہیں سال بھر اس طرح کے ڈرامے کم ہی ملتے ہیں،رمضان میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے عموما تاریخ اور مقصدیت کو اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں اور ہر ڈرامہ سماج کو ایک خاص رخ پر ڈھالنے پر مرتکز ہوتا ہے۔معلوم نہیں کہ یہ ڈرامے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن انتا ضرور ہے کہ وہ معاشرے کو ایک جہت ضرور دے دیتے ہیں۔
ہر سال رمضا ن سے قبل ہی مختلف چینلز اپنے تیار کردہ ڈراموں کی ایسی تشہیر کرتے ہیں کہ عرب ناظرین کے لیے بسا اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف چینلز پر چلنے والے ان ڈراموں میں سے کون سا ڈرامہ پرائم ٹائم میں دیکھا جائے اور کسے نشر مکرر میں دیکھا جائے۔ گذشتہ برس حسن بن صباح کی طلسماتی شخصیت پر مبنی سب سے زیادہ مقبول ہونے والا ڈرامہ ’’سمرقند‘‘رمضان میں ہی ٹیلی کاسٹ ہوا تھا،اس سے قبل خلافت عثمانیہ کے سقوط پر بننے والا ڈرامہ ’’سقوط الخلافہ‘‘ بھی رمضان میں ہی نشر ہوا تھا۔
رواں برس کے ماہ رمضان میں مشرق وسطی میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ’’غرابیب سود‘‘ ہے جو اول رمضان سے ہی انگلش سب ٹائٹلنگ کے ساتھ ’’ بلیک کروز‘‘کے نام سے ایم بی سی چینل پر پیش کیا جا رہا ہے۔اردو میں اس کا مطلب ہے’’کالے کوے‘‘جو کہ کالے جھنڈوں اور کالے نقاب والی بدنام زمانہ تنظیم ’’داعش‘‘ کی طرف سے حالیہ برسوں میں کی جانے والی دہشتگردانہ اور سفاکانہ کارروائیوں کے سچے واقعات پر مبنی ہے۔
غرابیب سود کی ایک قسط میں دکھایا گیا ہے کہ ’’داعش‘‘ کے جنگجو بچوں کو بھرتی کر کے تربیت دے رہے ہیں تا کہ انہیں اپنی صفوں میں شامل کیا جا سکے،جبکہ ایک اور قسط میں ایک صحافی کو دکھایا گیا ہے جس کی منگیتر اپنا مسیحی عقیدہ چھوڑ کر شدت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کر لیتی ہے اور پھر ایک کلیسا کو دھماکے سے اڑانے کی کارروائی کرتی ہے۔
’’غرابیب سود‘‘میں خواتین کی داعش میں شمولیت کو بطور خاص فوکس کیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور پڑھے لکھے ،کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین کیونکر اس تنظیم میں شامل ہو رہی ہیں اور یہ کہ کس طرح دہشتگرد اسلام کا چہرہ مسخ کر کے اس کا نام بدنام کر رہے ہیں۔
اسلامی احکام کی سر عام دھجیاں اڑاتے دکھائی دینے والے مناظر سے جہاں خلافت کے نام پر بنی نام نہاد ’’دولت اسلامیہ ‘‘ کی حقیقت ناظرین کے سامنے کھل کر آتی ہے وہاں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی سامنے آتا ہے جو ان امور کی تردید کرتا ہے یا ایسے مناظر کے فلمانے کو بھی دین کی توہین سمجھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ ڈرامہ بے پناہ مقبول ہو رہا ہے وہاں اس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
امریکا کے ڈیوڈسَن کالج میں عربک اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ریبیکا جوبن کے مطابق ایم بی سی گروپ کی ڈرامہ سیریل’’غرابيب سود
‘‘کو دہشت گردی کی دنیا میں گہرائی کے ساتھ غوطہ لگانے والی پہلی ڈرامہ پروڈکشن شمار کیا جا رہا ہے۔ا یم بی سی نیٹ ورک کو امید ہے کہ ڈرامہ سیریل’’غرابیب سود‘‘ کا ایک انگریزی ورژن بھی تیار کیا جائے گا تا کہ اس کا پیغام وسیع تر پیمانے پر پھیل سکے۔ہمارے ہاں نہ تو اس طرح کے ڈرامے تیار کیے جا رہے ہیں نہ ہی ان کے ترجمے اور ڈبنگ کا رجحان ہے۔
بہرحال عرب دنیا کے ٹی وی چینلز اس بات پر داد کے مستحق ہیں کہ ان کے پروگرام ہماری طرح بے ہنگم نہیں ہوتے کہ کچھ پتا ہی نہ چل رہا ہو کہ ڈرامے کا مقصد کیا ہے؟ اور اگر کوئی مقصد ہے بھی تو اتنا معمولی یا سطحی کہ جو اس قدر سرمائے اور وقت کا بالکل بھی مستحق نہیں ہوتا۔
اسی طرح دینی پروگرام بھی بڑے مقبول ہیں جن میں علماء کرام اور سکالرز قرآن،احادیث،سیرت اور دیگر واقعات کو آج کے سماج پر منطبق کر کے ان کی عملی شکل بتاتے ہیں کہ ہمارے آج کے فلاں سماجی مسئلے کا آج کے دور کے مطابق شرعی حل کیا ہے؟مثال کے طور پر ڈاکٹر عمرو خالد کے پروگرام ’’کنوز رمضانیہ‘‘ کا نام لیا جاسکتا ہے۔اس معاملے میں بھی ہمارے دینی پروگرام اعمال کے فضائل اور ان کے ثواب تک ہی محدود ہوتے ہیں۔کاش ہمارا میڈیا بھی عرب میڈیا سے اس باب میں کچھ سیکھے۔
فیس بک پر تبصرے