سعودی سلطنت کا مستقبل

893

سعودی عرب مالی بحران کے بعد اب انتظامی انتشار کے دلدل میں اترنے والا ہے۔ شاہی خاندان کے حالیہ تنازعات انہی انتظامی مشکلات کا مظہر ہیں۔آل سعود نے 1930 میں  شہنشاہ کی جانشینی کا جو میکانزم تشکیل دیا تھا ،وہ خاندان کی عددی وسعت کی وجہ سے قابل عمل نہیں رہا اور معاشی طور پہ زوال پذیر مملکت اب زیادہ دیر تک ہزاروں شہزادوں کی غیر محدود اتھارٹی اور بھاری اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔شاید خلافت عثمانیہ کی وارث آل عثمان کی طرح اب سعودی سلطنت کو بھی  بقاء کی خاطر آل سعود کے خون  کی ضرورت پڑے۔اس آشوب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ  شاہ فیصل سے لیکر شاہ سلیمان تک پچھلے پچاس سالوں میں سعودی سلطنت کو کوئی فعال اور جواں سال حاکم نہیں ملا۔اگر جانشینی کا یہی فرسودہ فارمولا  لاگو رہتا تو مستقبل میں بھی کسی نوعمر شہزادے کے بادشاہ بننے کے امکانات معدوم ہوتے۔چنانچہ شاہ سلیمان نے 72 سالہ محمد بن نائف کو برطرف کر کے چھتیس سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا کر بادشاہت کی رگوں میں تازہ خون شامل کرنے کا ناگزیر مگر خطرناک تجربہ کیا، جس نے سعودی سلطنت کے داخلی ڈھانچہ کو ہلا کے رکھ  دیاہے۔شہنشاہ نے بیماری کو عذر بنا کے ریاست  اپنے ولی عہد کے سپرد کی تو ولی عہد محمد بن سلیمان نے پہلے قدم پر ہی  متمول شہزادوں کو گرفتار کر کے کرپشن کے ذریعے جمع کی گئی  194ارب ڈالرز کی خطیر رقم واپس  کروانے کی کوشش کی۔اگر  وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے  تو ریاست کو بہت بڑی دولت مل جائے گی اور شاہی خاندان کا ایک بڑا حصہ اقتدار کے سنگھاسن سے اتار دیا جائے گا۔ بصورت دیگر سلطنت خانہ جنگی کی آگ میں جل سکتی ہے۔کیا مڈل ایسٹ میں امریکہ اور روس کے پیدا کردہ انتشار کی لہریں ایک اذیت ناک جغرافیائی تقسیم پہ منتج ہو سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمیں ڈیفنس آن کے امریکی تجزیہ کار جیمز فلّو  کے سعودی سلطنت کے مستقبل بارے غیر معمولی آرٹیکلPreparing for the Collapse of the Saudi Kingdom میں ملتا ہے۔

“In fact, Saudi Arabia is no state at all. There are two ways to describe it: as a political enterprise with a clever but ultimately unsustainable business model, or as an entity so corrupt as to resemble a vertically and horizontally integrated criminal organization. Either way, it can’t last. Its past time U.S. decision-makers began planning for the collapse of the Saudi kingdom.”

“سعودی عرب دراصل کبھی کوئی ریاست نہیں رہا،صرف دو طریقوں سے اسے بیان کیا جا سکتا ہے،یہ نہایت چالاکی سے تشکیل دی گئی ایسی پولیٹیکل انٹرپرائز اور لامحالہ،زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکنے والا کاروباری ماڈل ہے ،یا پھر یہ ایک ایسا وجود ہے جس کو عمودی اور افقی طور پہ مربوط مجرمانہ آرگنائزیشن سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔بہرحال کسی بھی صورت میں یہ قائم نہیں رہ سکتی،امریکن پالیسی سازوں نے سعودی سلطنت کے انہدام کی منصوبہ بندی مرتب کرنا شروع کر دی ہے۔”

سعودی عرب پچھلے پچاس سال سے امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کا اہم پرزہ  اور دنیا بھر میں امریکی اسلحہ کاسب سے بڑا خریدار ہے۔اس وقت بھی سعودیہ امریکہ سے 110 بلین ڈالرز کا اسلحہ خرید رہا ہے۔امریکہ تیل سپلائی کی گرانٹی کے عوض سعودی سلطنت کو تحفظ فراہم کرتا رہا، لیکن وہ وسائل جو بڑے مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اب بتدریج سکڑ رہے ہیں۔یعنی جوں جوں تیل کی سپلائی کم ہو گی، امریکی تحفظ کی گرانٹی بھی کمزور ہوتی جائے گی۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک قسم کا کاروباری تعلق تھا جو معیشت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ تغیر پذیر رہا اور اب یہی عبرت انگیز انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔تاہم ان تازہ معاملات کو سمجھنے کیلئے مشرق وسطیٰ کو تاریخی تناظر میں  دیکھنے کی ضرورت ہے۔سن 1920ء سے 1947 ء تک مڈل ایسٹ پہ  برطانیہ کے جیو پولٹیکل کنٹرول کے تحت فلسطین میں آبادی کا تناسب بدلا گیا۔انہی ستائیس سالوں میں لاکھوں یہودی یورپ و امریکہ سے نقل مکانی کر کے فلسطین آئے۔اسی عہد میں فرانس اور برطانیہ نے  یہاں شدید نوعیت کا سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے  پہلی جنگ عظیم کے دوران عرب ریاستوں میں عثمانی خلافت کے خلاف بغاوت کا جوش بھرا ۔  1917ء میں  ہی برٹش وزیر خارجہ لارڈ آرتھر بالفور  نے فلسطین میں یہودیوں کے لئے قومی ریاست کے قیام  کا تصور پیش کر کے اس خطہ میں جغرافیائی تقسیم کا عندیہ دے دیا تھا۔جس کے بعد صیہونی تحریک نے بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس سالوں میں جیو پولیٹیکل حکمت عملی کے تحت مڈل ایسٹ  میں بدستور عدم استحکام کو دوام دیکر بلاد عرب میں استبدادی حکومتوں کے قیام کی راہ ہموار کی، جس کی بدولت یہاں جمہوری نظام کے ارتقاء کی گنجائش پیدا نہیں ہو سکی۔بالکل ایسے جیسے اب امریکہ اور روس مشرق وسطیٰ میں زرخیز بدامنی کی آبیاری کر کے ایک نئی جغرافیائی تقسیم پر اتفاق رائے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔امریکی حکومت اب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا جو فیصلہ کر رہی اور یو این بظاہر جسکی مخالفت کر رہا ہے، یہ ستر سال قبل کی اقوام متحدہ کی ان قرارادوں کا تسلسل ہےجو دنیائے عرب میں صیہونی ریاست کی تخلیق کا محرک بنیں۔

1947 ء میں جب یو این کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے اور یروشلم کو یو این کے زیر انتظام رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی فارمولے کے مطابق مسلمانوں کو فلسطین کے 43 فیصد اور یہودیوں کو 57 فیصدعلاقوں پر تصرف کا حق دیا گیا۔اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین نے بائبل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہودیوں کی بقاء کے لئے اسرائیل کا قیام بہترین مدوا ثابت ہو گا، لیکن 1953 میں صیہونی تحریک کے صدر امانوویل نومن نے  انکشاف کیا کہ اسرائیل کی تخلیق میں ٹرومین کا کردار ثانوی تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈیموکریٹ پارٹی میں بڑے پیمانے پر انتشار ابھر سکتا تھا،بعد میں ٹرومین نے تسلیم کیا کہ اس کے اسٹاف کے سینئر ممبران اور کئی اہم کاروباری دوستوں نے انہیں ایسا کرنے پہ قائل کیا تھا۔  1969 میں اسرائیل نے بغیر کسی اشتعال کے مصر، اردن اور شام پر حملہ کر کے عرب مملکتوں کو مغلوب اورتزویری اہمیت کے حامل گولان کے پہاڑی سلسلے پہ قبضہ کر لیا تو یو این نے ریسکیو کر کے  1978 میں قیام امن کی خاطر مصر،اسرائیل اور امریکہ کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرایا لیکن یہ مساعی بھی دراصل فریب ثابت ہوئی۔ اس معاہدہ سے مڈل ایسٹ میں مصنوعی امن کے عوض فلسطینیوں اور عربوں کو گولان کی پہاڑیوں سمیت وسیع علاقائی حقوق کو سرنڈر کرنا پڑا،چالیس سالوں سے گولان کی پہاڑیاں اور پچاس سالوں سے یروشلم یو این کی وساطت سے اسرائیل کی تحویل میں ہیں۔ 1980 کی دہائی کے آخری سالوں میں انتفادہ تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے لیکن  1993 میں امریکہ نے یو این کے ذریعے دباؤ ڈال کے فرضی داخلی خود مختاری کے عوض فلسطینی قیادت کو پوری اسرائیلی مملکت پر اپنے اصولی دعوے سے ستبردار ہونے کا  معاہدہ کرا لیا۔  یوں انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے علمبردار مغرب کی قیام امن کے لبادوں میں لپٹی ہر سیاسی پیشقدمی فلسطینی مسلمانوں کو بنیادی حقوق اور اپنی دھرتی پہ حق حاکمیت سے دورکرتی گئی۔ فلسطینی آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے عاری اور اپنے منفرد کلچر،مذہب اور خوبصورت روایات کو برتنے کے حق سے محروم ہیں۔

اس پورے منظرنامہ میں سعودی سلطنت کا کردار خطہ کی عرب ریاستوں پہ اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور عالم اسلام کو مڈل ایسٹ بارے مغربی قوتوں کی پالیسیز سے منسلک رکھنا تھا،بیسویں صدی میں امریکہ مڈل ایسٹ کی چھوٹی ریاستوں کو بالخصوص اور مسلم دنیا کو بالعموم سعودی لیڈر شپ کے ذریعے ڈیل کرتا رہا۔ لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مڈل ایسٹ میں عراق وار کے ذریعے تراشیدہ تشدد کی لہروں کو مہمیز ملنے اور عرب مملکتوں کی باہمی جنگوں کے مہیب خطرات کے پیش نظر  بڑے پیمانے پہ ناقابل برداشت دفاعی اخراجات کے بوجھ نے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں کو اقتصادی طورپہ مضمحل کر دیا اور اب اسی معاشی وبال نے سعودی سلطنت کو  موت کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے۔بظاہر تو  تیل کی کم ہوتی قیمتوں کے باعث معاشی مشکلات اور جانشینی کے87 سالہ پرانے معاہدہ کی تحلیل سعودی سلطنت کو سول وار کی طرف لے جانے کا سبب بن  رہی ہے، لیکن دراصل اس آشوب کے پیچھے مغرب کے وہ پوشیدہ عزائم کارفرما ہیں جس کے تحت عرب مملکتوں کو داخلی تنازعات کے ذریعے کمزور کر کے مڈل ایسٹ پہ اسرائیلی غلبہ کا دائرہ وسیع کرنا تھا۔جنوری 2006 سے تیل کی معیشت  گرنا شروع ہوئی جس میں ہر سال چودہ فیصد کمی ہوتی گئی ۔تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے سعودی معیشت کو کمزور بنایا تو بادشاہ  نے سرکاری اہل کاروں اور عوام کو پہلے سے میّسرسہولیات واپس لے لیں جس سے داخلی بے چینی میں اضافہ اور حکمران اشرافیہ کے خلاف تنقید کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔چنانچہ کفایت شعاری کی اس مہم میں رعایا کے ساتھ متمول شہزادوں کو بھی اپنا بہت کچھ دینا  پڑگیا۔ مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے والی عظیم سعودی سلطنت کے امکانی زوال کو دیکھتے ہوئے ترکی اور ایران اپنے آپ کو مڈل ایسٹ کے لیڈر کے طور پر تیار کرنے میں مصروف ہیں،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم ریاستیں سعودی سلطنت کو بچانے کی بجائے کسی متوقع خلاء کو پُر کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ شمالی کوریا،ایران اور کیوبا سمیت جو ملک امریکہ سے ٹکرایا، وہ زندہ رہا اور مصر ،سعودیہ اور لبنان سمیت جنہوں نے دوستی کی پینگیں  بڑھائیں وہ بتدریج کمزور ہوتے گئے۔ ان حالات میں سعودیہ سمیت مڈل ایسٹ کے تمام مسلم ممالک کی بقاء اسرائیل کے خلاف جنگ میں مضمر ہے، لیکن امریکی پالیسی ساز بغیر کسی مزاحمت کے انہیں خاموشی سے موت  قبول کر لینے پہ مائل کر رہے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...