پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات
خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے تازہ واقعات سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ابھی تک نہ صرف شدت پسند عناصر باقی ہیں بلکہ یہ عناصر منظم طریقے سے دہشتگردانہ کاروائی کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ گزشتہ دو، تین ہفتوں میں دہشت گردی کے چھ بڑے واقعات ہوئے ، جن میں پشاور میں زرعی تربیتی مرکز ، ڈیرہ اسمعیل خان میں پاک آرمی کے میجراسحاق، پشاور میں ایڈیشنل آئی جی اشرف نور اور شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان سمیت مہمند ایجنسی میں سکیورٹی فورسز پر حملے شامل ہیں۔خیبر پختونخوا ،فاٹاکے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز پردہشت گردوں کی جانب سے اس پے درپے حملوں کی تازہ لہر سے ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی ابھی تھمی نہیں ہے۔ آج سے تین سال پہلے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے دہشتگردوں کو ختم کرنے کے لئے جو فیصلے کیے تھے ،ان پر مکمل عمل نہ ہوسکا۔سانحہ اے پی ایس پشاورپر ہونے والے حملے نے پاکستان کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کو اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے نئی حکمت عملی مرتب کریں۔ یوں بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا جس پر عمل درآمد کیلئے عسکری اور تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ مدرسہ ریفارمز، جسٹس سسٹم اور فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے خاتمہ کے لیے جامع حکمت عملی کو اپنانا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نیشنل ایکشن پلان سے چھ ماہ قبل شروع ہونے والے ضرب عضب آپریشن میں فوج کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور شمالی وزیرستان جو زیادہ تر غیرملکی دہشت گرد گروپوں کا گڑ ھ تھا، کو ان سے صاف کیا گیا۔ آپریشن ردالفساد، آپریشن خیبر ون، ٹو، تھری اور فور کے نام سے بھی آپریشن کروائے گئے، جن میں کامیابی کے دعوے بھی کیے گئے۔ وزیرستان سے خیبر ایجنسی تک کا علاقہ دہشت گردوں سے کلیئر کرانے کے دعوے کیے گئے۔اگر چہ ہماری فورسز نے کا فی سارے قبائلی علاقے دہشت گردوں سے خا لی بھی کروائے لیکن اس سے صرف علاقے کلیئر ہوگئے ہیں نہ کہ دہشت گرد۔ زیادہ تر دہشت گرد یاتو زیرزمین چلے گئے یا افعانستان بھاگ گئے، جو وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب پشاور کے لوگ اے پی ایس سانحہ کی تیسری برسی کی تیاری کر رہی تھے جس میں ایک سو پچاس لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ دہشت گردوں نے پشاور میں ایک بار پھر اسی طرح کے ایک اور تربیتی ادارے جہاں 150سے زائد طلباء قیام پذیر تھے پر حملہ آور ہوکر اپنی موجودگی کا احساس دلایاہے۔یہ تو شکر ہے کہ ہماری پولیس نے پانچ منٹ کے اندر موقع پر پہنچ کر پشاور کو ایک بڑے سانحہ سے بچالیا۔
اگرنیشنل ایکشن پلان کے بیس نکاتی ایجنڈے پرعمل درآمد کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نکات بھی ملک کے باقی قوانین اور پالیسیوں کی طرح صرف کاغذی کارروائی کی حد تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی قیادت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے برابر رہا۔ حکومت اور عسکری قیادت کو چاہیے تھا کہ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بلا امتیاز کارروائی کی جاتی اور یہ کارروائیاں صرف بیانات اور دعووں کی حد تک محدود نہ ہوتیں بلکہ عملی اقدامات کیے جاتے۔حالیہ واقعات کے بعد قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ہر دفعہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ،مگر دہشت گرد ٹوٹی کمر کے ساتھ ہمارے اوپر پھر سے حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ایسے وقت میں جب امریکہ ہمیں حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے نہ صرف دھمکی دیتا چلا آرہا ہے بلکہ ان کے ٹھکانوں پر حملوں اور پاکستان پر پابندی لگانے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔ پاک آرمی جو عموماً پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دخیل ہوتی ہے ، پر امریکی اعتماد کرتے نظر نہیں آتے۔ اسی طرح افغانستان سے متعلق ٹرمپ پالیسی کے بعد اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے باوجود اگر اشرف غنی کی حکومت طالبان نیٹ ورک کے خاتمے سے متعلق ہمارے دعووں اور اقدامات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیتی تو پاکستان کو یہ بد اعتمادی ختم کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑیگا۔ بقول ہمارے آرمی چیف کے ہر حملہ سرحد پار سے ہوتا ہے،افغان بارڈ ر پر باڑ لگانے،مانیٹرنگ سسٹم اور پہاڑی علاقوں میں چیک پوسٹیں لگانے کے باوجود دہشت گردوں کی آمدورفت جاری ہے تو پھر اس کا حل نکالنے کے لیےکچھ مزید کرنا پڑے گا۔
فیس بک پر تبصرے