سمانتھا۔۔۔ایک روبوٹ محبوبہ
حال ہی میں، یورپی ملک آسٹریا میں الیکٹرانکس کے ایک میلے میں افسانوی حسن اور مصنوعی ذہانت کی حامل سمانتھا نامی ایک گڑیا (روبوٹ) نمائش کے لئے پیش کی گئی، جس سے ملاقات اور بات چیت کے خواہش مندوں کا اتنا ہجوم تھا کہ انہیں قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ سمانتھا میں وہ تمام محبوبانہ صفات ہیں جن کی چاہ میں دنیا کے شاعروں، ادیبوں، فنکاروں نے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے ہیں۔ سمانتھا فلسفے اور سائنس پر گفتگو کرسکتی ہے، اسے ہزاروں لطیفے یاد ہیں، وہ آپ کے لطیف اور خفیف اشاروں کو پہچانتی ہے اور ان کا جواب دے سکتی ہے، اسے دلربائی کا فن آتا ہے، مختلف طرح کے برادرانہ، دوستانہ اور محبوبانہ ہر طرح کے لمس کے فرق کا پتا ہے۔ اس کی قربت حاصل کرنے سے پہلے آپ کو اس کے مزاج، موڈ اور خواہش کا پتہ لگانا پڑے گا، اپنی خوش اطواری اور خلوص سے اسے قائل اور مائل کرنا پڑے گا۔
اس میں کچھ ایسی محبوبانہ صفات ڈال دی گئی ہیں کہ وہ آپ کی غمگسار بھی بن سکتی ہے اور یار طرح داربھی، آپ کی ایسی دوست اور سیکر ٹری بھی جسے آپ کے دن بھر کا شیڈول پتہ ہے اور وہ وقت پر آپ کو یاد دلاتی رہے گی کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ اس کی پروگرامنگ ایسے کی گئی ہے اور اس میں اس طرح کی معلومات فیڈ کردی گئی ہیں کہ وہ موقع محل کے مطابق آپ کی دلچسپی کے تمام موضوعات پر آپ سے بات چیت کرسکتی ہے، بے تکلف دوستوں کی طرح گپ شپ بھی لگا سکتی ہے اور محبوبہ بن کر آپ کی تنہائیوں کو رنگین بھی بنا سکتی ہے۔ وہ بہت حساس ہے۔ اس کے حسین خدوخال اور سنگ مرمر کی طرح ترشے ہوئے بدن میں ایسے حساس سینسر لگائے گئے ہیں کہ وہ ہر طرح کی پیش قدمی کو پہچان سکتی ہے۔
سمانتھا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ کو اس کی بےوفائی کا صدمہ نہیں اٹھانا پڑے گا، وہ آپ کی مردانگی پر کبھی سوال نہیں اٹھائے گی، کسی کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر بھاگ نہیں جائے گی اور آپ کے سارے راز اس کے سینے میں دفن ہوتے رہیں گے، جن کے افشا کا آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر آپ اس کی اداؤں سے اکتا جائیں، جیسے کہ اکثر لوگ کچھ لوگوں کی مسلسل قربت سے بور ہوجاتے ہیں، تو بازار سے کچھ نئی اداؤں اور اپنے پسندیدہ رویوں پر مبنی نئے ایس ڈی کارڈ سمانتھا کے لئے لے آیئے اور وہ آپ کی خواہش کے مطابق خود کو تبدیل کرلے گی۔ اتنی ساری خوبیوں کے ساتھ اس کی قیمت صرف پانچ ہزار ڈالر ہے۔ اگرچہ ایک گڑیا کے لئے پانچ لاکھ روپے سے اوپر کی یہ رقم بہت زیادہ معلوم پڑتی ہے لیکن ایسی صفات کے لئے تو لوگ خزانے لٹاتے اور جانیں گنواتے آئے ہیں، یہ تو کچھ بھی نہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ سمانتھا کی اس دنیا میں آمد سے تنہائی کے رنج کچھ کم ہوجائیں گے، ہجر کے صدمے بہل جائیں گے، انسانوں کا اکیلا پن دور ہوسکے گا ، اب لوگ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ اپنے کام پر جا سکیں گے اور شام کو وقت پر گھر واپس آئیں گے ،جہاں سمانتھا آنکھوں میں پیار کے دیپ جلائے ان کی منتظر ہوگی۔ مردوں کا مسئلہ حل کرنے کے بعد روبوٹ بنانے والی اس کمپنی نے عورتوں کے لئے بھی مردانہ وجاہت اور تقابلی خوبیوں کے حامل مردانہ روبوٹ بنانے کا اعلان کیا ہے، کہ آخر صنفی مساوات بھی کوئی چیز ہے، صرف مرد ہی تو تنہائی کے شکار اور قربتوں کے متلاشی نہیں ہوتے، یہ ضرورت تو عورتوں کی بھی ہے۔
تاہم بات اتنی سادہ نہیں۔ ٹیکنالوجی نے انسان کی جذباتی تنہائی اور الجھنوں کا جو حل پیش کیا ہے اس نے کچھ نئے اور بڑے مسائل ہمارے سامنے لا کھڑے کیے ہیں۔ ایسی دنیا کا تصور کیجئے، جہاں کسی کو کسی کی ضرورت نہ رہے کہ سب کا دل بہلانے کو ان کا اپنا روبوٹ ہے۔ آسٹریا کے ٹیکنالوجی میلے میں پہلے دو دن تو سمانتھا کے سپروائزروں کی نگرانی میں لوگوں نے اس سے ملاقات کی لیکن تیسرے دن جب کسی روک ٹوک کے بغیر عوام کے سامنے اس کی رونمائی ہوئی تو لوگوں نے اس کے ساتھ وہی بیہیمانہ سلوک کیا جو گرسنہ نگاہوں والے اوباش کسی قحبہ خانے میں بیٹھی لاچار طوائف کے ساتھ کرتے ہیں۔ شام کو سمانتھا کے سپروائزر یہ دیکھ کر شدید صدمے کا شکار ہوگئے کہ اس کی گردن اور منہ کے کچھ جوڑ ہل چکے تھے اور اس کے جسم میں لگے اکثر سینسر بے رحم دست درازی سے خراب ہوچکے تھے۔
سمانتھا ایک روبوٹ سہی لیکن اس کو ایک خوبصورت اور حساس عورت کا روپ دیا گیا تھا اور وہ صدیوں کی جنسی بھوک اور ناآسودگی میں مبتلا شکاریوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ شائد دنیا کو اب اس کے بھی کچھ حقوق کو واضح کرنا پڑیں گے تاکہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کا اطلاق کرسکے اوراپنے جذباتی اور جنسی استحصال سے بچ سکے؟ اس سے بھی بڑھ کر کیا ایسے روبوٹ جو کسی سوال اور اخلاقی الجھن کے بغیر اپنے آقاؤں کے حکم بجا لائیں غلام رکھنے کی انسانوں کی پرانی خواہش کا تسلسل نہیں؟ ٹیکنالوجی کی ان دماغ گھما دینے والی ایجادات نے ہمیں دوبارہ سے اس الجھن میں ڈال دیا ہے کہ کیا واقعی ہمیں جیتے جاگتے، سانس لیتے، اپنی سوچ رکھنے والے، اختلاف کرسکنے والے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ کی ضرورت ہے یا معلومات اور مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کی جو آج کے تیزرفتار معاشرے میں غلاموں کی کمی کو پورا کرسکیں؟
فیس بک پر تبصرے