پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قابل تقلید اقدامات
اچھی صحت کا دارومدار اچھی خوراک پر منحصر ہوتا ہے۔ہر حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی عوام کو اچھی اور معیاری خوراک کی فراہمی یقینی بنائے اور جو ادارے اس بزنس سے منسلک ہیں ان پر پورا چیک اینڈ بیلنس رکھے تاکہ کوئی بھی عوام کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ہمارے ہاں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ صارف اپنے حقوق سے لاعلم ہیں۔ہمارے ہاں صارف اچھے پیسے دے کر بھی اچھی خوراک حاصل نہیں کرسکتا اور حکومت کے کسی ادارے سے اس کی شکایت بھی نہیں کرسکتا۔اپنے تجربات کی روشنی میں اسے یہ شکوہ بھی ہے کہ اس کی شکایت پر کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی ۔لیکن اگر ہم پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موجودہ اقدامات کو دیکھیں تو وہ یقیناًقابل ستائش ہیں۔خوراک کے حوالے سے قانون سازی کے ساتھ ساتھ وہ عوام میں مختلف چیزوں کے استعمال اور نقائص کے بارے میں شعور بھی اجاگر کررہے ہیں اور ہماری لاعلم عوام کو یہ بھی باور کروارہے ہیں کہ کون سی چیز ان کی صحت کیلئے اچھی ہے اور کون سی مضر صحت ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی اپنے یہ پیغامات سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچارہی ہے کیونکہ پاکستان میں سوشل میڈیا یعنی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 32ملین ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کو اس چیز کا ادراک ہے اس لیے وہ اپنے پیغامات عوام میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں اور ان پیغامات کو زیادہ سے زیادہ عوامی پذیرائی بھی مل رہی ہے،جس کا واضح ثبوت پنجاب فوڈ اتھارٹی کے فیس بک پیج پر لائیک اور شیئر کی کثیر تعداد ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے14اگست2017 سے پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں انرجی و کولا ڈرنکس پر مکمل پابندی عائد کی تھی، کیونکہ ان ڈرنکس میں موجود فاسفورک ایسڈ اور کیفین بچوں کی نشوونما خصوصاً ہڈیوں کیلئے نقصان دہ ہے۔اس پابندی کا اطلاق کتنا ہوا یااس پر کتنا عمل درآمد کیا گیا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن عوام کو اس بارے میں آگاہی تو ملی کہ یہ ڈرنکس بچوں کیلئے فائدہ مند نہیں ہیں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ اکثر ماؤں کو بڑے فخر کے ساتھ کہتے سنا ہے کہ میرا بچہ پیپسی پیتا ہے۔ایک چھوٹا بچہ جب چھوٹی عمر سے ہی ان کولا ڈرنکس کی عادت میں مبتلا ہو جائے گا جو اس کی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہیں تو وہ کیسے اچھی نشوونما اور صحت پاسکتا ہے۔
اسی طرح ایک پیغام میں بتایا گیا ہے کہ دماغی نشوونما کیلئے خالص دودھ اور مکھن نہایت ضروری ہیں۔اس سے جسمانی اور دماغی عضلات نشوونما پاتے ہیں جبکہ بلیو بینڈز کے نام کی پراڈکٹVegetable fatسے بنائی گئی ہے جو نہ تو مکھن ہے اور نہ مکھن کا متبادل۔
اس طرح اس پیغام میں بتایا گیا ہے کہ Walls کمپنی کی پراڈکٹ میں کوئی کھویا نہیں بلکہ Fat Vegetableسے بنا فروزن ڈیزرٹ ہے۔عوام میں اس آگاہی کی بہت ضرورت ہے کہ وہ آئس کریم اور فروزن ڈیزرٹ میں فرق محسوس کرسکیں اور دلکش اشتہارات سے دھوکہ نہ دکھائیں۔
ایک اور پیغام جس کا ہماری عوام کو نہیں پتا اور اس پیغام کو ہماری عوام میں عام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عوام دودھ اور ٹی وائٹنرز میں فرق محسوس کریں۔ہمارے لوگ ٹی وائٹنرز کو ہی دودھ سمجھ کے پی جاتے ہیں۔
حالانکہ یہ Fat Vegetable سے بنتے ہیں۔ اسی طرح گرمیوں میں جب لوگ Tang استعمال کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصلی پھلوں کی خوبیوں کے ساتھ Energy Drinks ہیں جبکہ یہ ڈرنکس مصنوعی ہیں، ان میں صرف خالی کیلوریز ہوتی ہیں۔اسی طرح گرمیوں میں پیکٹ والے جوس کی فروخت بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے، یہ گھٹیا جوس فروٹ سے اور فیکٹریوں میں تیار نہیں ہوتے بلکہ گھروں میں بالٹیوں میںEssence کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں، جس میں سیب،آم اور مختلف پھلوں کا فلیور شامل کردیا جاتا ہے۔یہ جوس بس اڈہ،سکولز اور ہاسپیٹل کی کینٹین پر اس لیے فروخت ہوتے ہیں کیونکہ اس میں دکان دار کو پروفٹ مارجن زیادہ ملتا ہے۔اچھی کمپنیوں کے جوس میں دکان دار کو اتنی بچت نہیں ہوتی جتنی اس میں ہوتی ہے۔یہ پیکٹ والے جوس فرضی نام اور ایڈریس کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں اور سیزن ختم ہوتے ساتھ ہی مارکیٹ سے غائب ہو جاتے ہیں۔ جوس پینے والا یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کو پینے کے بعد اس میں قوت آئے گی ،جبکہ یہ صرف میٹھا پانی ہوتا ہے اور ناقص سکرین کی وجہ سے اس کا گلا بھی خراب ہوسکتا ہے۔یہ گھٹیا سکرین جوس کو میٹھا بنانے کیلئے چینی کی جگہ استعمال ہوتی ہے تاکہ پروفٹ مارجن کو مزید بڑھایا جاسکے۔ ان پیکٹ والے جوسز کے خلاف بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ صرف اپنے منافع کیلئے لوگوں کی صحت سے نہ کھیل سکیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے یہ سب کام یقیناًقابل فخر اور قابل ستائش ہیں اور دوسرے صوبوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔
ان سب سے قطع نظر کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتی ہے۔سب سے بڑا افائدہ جو نظر آرہا ہے وہ عوام کو آگاہ کرنا اور ان میں احساس بیداری پیدا کرنا ہے ۔جب عوام میں اچھی بری چیز کے بارے میں آگاہی پیدا ہو جائے گی تو وہ چیز خود بخود بند ہو جائے گی، جب اس کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ نہیں ہوگی تو دکان دار بھی چیزوں کا معیار بہتر بنائیں گے تاکہ اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکیں ۔
فیس بک پر تبصرے