مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اور پاکستان

1,028

مشرق وسطیٰ میں اگر کشیدگی مزید بڑھی تو اس سے پاکستان بھی کسی حد تک متاثر ہو گا، کیوں کہ بہت سے معاملات میں پاکستان سعودی عرب پر انحصار کرتا آیا ہے اور قطر سے بھی پاکستان کے تعلقات کی ایک خاص اہمیت رہی ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 21 مئی کو عرب اسلامک امریکن کانفرنس کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد پر زور دیا تھا۔

اگرچہ اُنھوں نے اپنے خطاب میں ایران کو ہدف تنیقد بنایا لیکن بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو دہشت گردی کے خلاف اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن رواں ہفتے مشرق وسطیٰ کی صورت حال یکسر بدلی دکھائی دی اور خطے کے ممالک میں خلیج مزید گہری ہوتی نظر آ رہی ہے۔

سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر، یمن اور مالدیپ نے دہشت گردی کی حمایت کےالزام پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے جس سے ہیجان کی ایک کیفیت پیدا ہو گئی۔

قطر دہشت گردی کی حمایت یا کسی ملک کے معاملات میں مداخلت کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

سعودی عرب اور قطر کے درمیان ایسی کشیدگی کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

آخری یکا یکا ایسا ہوا کیا، وجہ کیا بنی، اس کشیدگی کی؟

اس کا ایک خاکہ تو یہ سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے یہ الزام سامنے آیا کہ قطر شدت پسند تنظیموں القاعدہ اور داعش کے علاوہ مصر میں کالعدم قرار دی گئی جماعت اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے۔

جب کہ دوحا پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ بحرین اور سعودی عرب میں شعیہ آبادی والے علاقوں میں اُن انتہا پسندوں کی حمایت کرتا ہے جنہیں ایران کی مدد بھی حاصل ہے۔

اس کے علاوہ بعض امریکی ذرائع ابلاغ میں بھی حالیہ ہفتوں میں ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں الزام لگایا کہ قطر دہشت گردوں و مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اس نئی رسہ کشی نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اور اس بحرانی کیفیت کا فائدہ خطے کے کسی ملک کو نہیں ہو گا البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ عناصر جو عدم استحکام پھیلانے کے خواہاں ہیں اُنھیں کچھ تقویت مل جائے۔

پاکستان کے قطر اور سعودی عرب دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان حالات میں کیا جائے، حکومت کے لیے ایک اور چیلنج سامنے آ گیا ہے۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے جمعرات کو ایک متفقہ قرار دار منظور کی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب اور قطر کی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ان مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔

تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب اور قطر کو قریب لانے میں کیا پاکستان کچھ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے اور کیا اسلام آباد کی اس بارے میں سنی جائے گی، یہ یقیناً ایک اہم سوال ہے۔

اگرچہ وزیراعظم نواز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت سے قبل قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں مختصراً یہ کہا کہ اسلام آباد، ریاض اور دوحا کے درمیان مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔

لیکن ان حالات میں پاکستان شاید تنہا کچھ نا کر سکے، تاہم ایک حوصلہ افزا پیش رفت ضرور نظر آئی ہے کہ کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح بدھ کو دوحا پہنچے جہاں اُنھوں نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے ملاقات کی۔

کویت کے امیر کی طرف سے ثالثی کی یہ کوشش مثبت سمت کی جانب ایک قدم ہے جب کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ قطر کو تنہا کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

البتہ ترکی اب تک وہ واحد ملک ہے جس کی طرف سے قطر کی کھل کر حمایت کی گئی ہے، واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاع کے شعبے میں تعاون سمیت قریبی تعلقات ہیں۔

قطر میں ترکی کا ایک فوجی اڈہ بھی ہے اور موجودہ کشیدگی کے حالات میں ترکی نے قطر میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اگر کشیدگی مزید بڑھی تو اس سے پاکستان بھی کسی حد تک متاثر ہو گا، کیوں کہ بہت سے معاملات میں پاکستان سعودی عرب پر انحصار کرتا آیا ہے اور قطر سے بھی پاکستان کے تعلقات کی ایک خاص اہمیت رہی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں مقیم لاکھوں پاکستانی سالانہ لگ بھگ 6 ارب ڈالر بطور زرمبادلہ ملک بھیجتے ہیں۔

جب کہ پاکستان نے قطر سے مائع گیس ’ایل این جی‘ کی درآمد 16 ارب ڈالر کے ایک معاہدے پر گزشتہ سال دستخط کیے تھے، اس معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے اور پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح کیا کہ قطر سے ’ایل این جی‘ کی درآمد معاہدے کے مطابق جاری رہے گی۔

مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی پر اگرچہ پاکستان نے بہت حد تک یہ کوشش کہ غیر جانبدار رہا جائے لیکن یہ مکمل طور پر ممکن نا ہو سکا۔

حالات کا تقاضا کہیے یا مجبوری پاکستان کو اپنی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف سعودی عرب کی قیادت میں قائم مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لیے ’این او سی‘ جاری کرنا ہی پڑا، باوجود اس کے کہ ایران کو اس پر تحفظ تھے۔

موجودہ حالات یقیناً ایک بڑا چیلنج ہیں، ایک ایسے وقت جب پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں کو ذکر سامنے آیا ہے۔

وہ ملک جن کے پاکستان سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اگر اُن میں دوریاں بڑھتی ہیں اور پاکستان کا جھکاؤ کسی ایک جانب ہوا تو اسلام آباد کے لیے سفارتی سطح پر رابطوں کے دروازے کم ہی ہوں گے، بڑھیں گے نہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...