افغان طالبان کی اصل طاقت افغان علاقوں میں ان کے اثرو رسوخ اور افغانستان پر بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کے جواز کے لئے پیش کئے گئے مذہبی بیانیے میں پنہاں ہے۔افغان حکمرانوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستانی علماء افغان طالبان کی مسلح مزاحمت کے خلاف فتویٰ جاری کر دیں تو طالبان کی جدوجہد کے مذہبی جواز کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر پاکستانی علماء اور حکومت کو اس کیلئے آمادہ کرنے کی بہت کوششیں کیں، مگر وہ بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ تاہم کابل حکومت ابھی بھی پر امید ہے کیونکہ مبینہ طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان حکومت سے اکتوبر میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی علماء سے طالبان مزاحمت کے خلاف فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر قابلِ غورہے کہ کوئی فتویٰ افغان طالبان جیسی مزاحمتی تحریکوں پر کس قدر اثرانداز ہو سکتا ہے، یہ بھی کہ پاکستانی علماء میں سے کس کی طرف سے ایسا فتویٰ جاری کیا جائے گا، جبکہ پاکستانی علماء کئی مواقع پر طالبان کی مسلح مزاحمت کو جہاد سے تعبیر کر چکے ہیں۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغان طالبان کے بیشتر رہنما پاکستانی مدارس سے تعلیم یافتہ ہیں اور اسی سبب دونوں کے مابین مسلکی ہم آہنگی موجود ہے۔اس کے باوجودحال ہی میں کابل دورہ کرنے والے صحافتی وفد کے رکن کے طور پر راقم نے یہ محسوس کیا کہ افغان افسران کافی پر امید ہیں کہ پاکستانی علماء کی جانب سے جلد ہی طالبان کی مسلح مزاحمت کے خلاف فتویٰ جاری ہو سکتا ہے۔
چونکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی تمام تر توجہ داخلی سیاسی بحران پر ہے، اسی لئے عوامی سطح پرافغانستان کم ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے اور افغان حکومت کی طرف سے حصولِ فتویٰ کی خواہش کی بابت دفترِ خارجہ اور پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے بھی کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔اکتوبر میں پاک فوج کے سربراہ کے دورہ کابل کی خبروں میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے مشترکہ لائحہِ عمل کی تشکیل کے علاوہ محض دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطحی روابط کے انتظام ، فوجی، انٹیلی جنس اور اقتصادی تعاون میں بہتری کیلئے ورکنگ گروپس کے قیام کا تذکرہ رہا۔ اگرچہ یہ مثبت اقدامات تھے اور یقیناً ان کی بدولت دونوں ممالک کے مابین بد اعتمادی کی فضاء کو ختم کرنے میں مدد ملے گی، تاہم ذرائع ابلاغ میں مبینہ فتویٰ کی جزئیات کو زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔
عموماً مذہبی حلقے ایسے معاملات کا علم رکھتے ہیں ، تاہم اس حوالے سے صرف اکابرعلماء سے مشاورت کی گئی ہے۔ کچھ مقتدر حلقے طالبان میں بھارت اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو بدلتے علاقائی منظرنامے میں پاکستانی مفادات کیلئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔جنرل باجوہ کے دورہ کابل کے دوران پر امن سیاسی مصالحتی عمل میں معاونت کیلئے افغان طالبان کوآمادہ کرنے کا پہلو بھی زیرِ غور لایا گیا ، مگر طالبان اپنے اس موقف پر سختی سے کاربند ہیں کہ کابل حکومت سے مذاکرات غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد ہی ممکن ہیں۔ تاہم ایک اسلامی جمہوری ملک کے مسلم حکمرانوں کے خلاف مسلح مزاحمت کی حرمت کی بنیاد پر فتویٰ جاری کرنا پاکستانی علماء کیلئے انتہائی مشکل ہو گا کہ جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف بغیر کسی ابہام کے، پہلا متفقہ فتویٰ رواں سال مئی میں جاری کیا، جس پر تمام مسلم مکاتبِ فکر کے 31 جید علماء نے تصدیقی دستخط کئے ۔ پہلی بار ایک قطعی مذہبی فرمان جاری کیا گیا کہ جہاد کا اختیار ریاست کے پاس ہے اور انفرادی طور پر اسلامی احکامات کی بجا آوری کیلئے جبر کرنا شرعاً ممنوع ہے۔
یہ فتویٰ ملکی سلامتی کے اداروں کی معاونت سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے زیرِ انتظام منعقدہ قومی سطح کی ایک مجلس کے اختتام پر جاری کیا گیا۔اس مجلس میں بھی بیشتر مذہبی علماء پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کی کارروائیوں سے متعلق قطعی فتویٰ دینے سے ہچکچاتے نظر آئے، تاہم انہوں نے اس فتوے کی توثیق ضرور کی۔ماضی میں بھی روایت پرست اور جدت پسند ، ہر دومکاتبِ فکر کے علماء نے اسی نوعیت کے فتاویٰ جاری کیے اور کم از کم دو علماء اسی پاداش میں قتل کردیے گئے، جن میں پشاور سے مولانا حسن جان اور لاہور سے مولانا سرفراز نعیمی قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری، جامعہ اشرفیہ لاہور اور دیگر دیو بندی و سلفی مدارس نے بھی دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ جاری کیے تاہم یہ فتاویٰ جات مشروط اور محتاط انداز میں جاری کیے گئے۔عموماً ان فتاویٰ میں ایسے عوامل کا تذکرہ شامل تھاجو عسکریت پسندوں کو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرنے کا سبب ہو سکتے ہیں، اور اسی لئے دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارے کیلئے غیر ملکی طاقتوں کے کردار، سماجی و اقتصادی تفاوت اور ناانصافی جیسے مسائل کے حل پر زوردیا جاتا تھا۔
ایسے میں جہاں پاکستان میں دہشت گردی کو حرام قرار دینے میں 15 برس کا طویل عرصہ لگا دیا گیا، وہاں یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی علماء افغان طالبان کے خلاف اسی نوعیت کا کوئی فتویٰ جاری کریں گے ، جبکہ وہ یہ دعویٰ بھی رکھتے ہیں کہ ان کی مسلح جدوجہد غیر ملکی قبضے کے خلاف ہے۔ تو کیا پاکستان میں جاری کیے گئے مشروط اور مصلحت آمیز گزشتہ فتاویٰ کی طرز پر افغانستان سے متعلق کوئی فتویٰ ممکن ہے؟پاکستانی علماء کئی پہلوؤں سے ایساممکن بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عوامی اور مذہبی مقامات پر حملے غیر اسلامی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کی طرف سے داعش کے خلاف جاری کیے گئے فتاویٰ کو افغانستان میں بھی قابلِ عمل ٹھہرانے کی سعی کی جا سکتی ہے۔اس طرح کی کوششوں سے بیرونی قبضے کے خلاف افغان طالبان کی مسلح مزاحمت سے متعلق علماء کی رائے پر سمجھوتہ کیے بغیردہشت گردانہ حملوں کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔ مگر ایسے منتخب فتاویٰ عوامی مفادات کے برعکس طالبان کی کچھ کارروائیوں کے جواز کا باعث ہو سکتے ہیں۔
تاہم جہاں تک ان فتاویٰ کی اثر انگیزی کی بات ہے تو پاکستان اور افغانستا ن کے عسکریت پسند گروہ ان کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے ۔ ان کے مطابق یہ فتاویٰ متعلقہ حکومتوں کے ایما پر جاری کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عسکریت پسند گروہ مذہبی معاملات میں اپنی قائم کردہ شوریٰ کی پیروی کرتے ہیں۔مصر سے تعلق رکھنے والے پلاسٹک سرجن سید امام الشریف المعروف بہ ڈاکٹر فضل ، جو القاعدہ کے بانی اراکین میں سے ہیں، نے 2007 میں القاعدہ کے منشور میں تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کیا ، تاہم القاعدہ کی پذیرائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، الا یہ کہ داعش القاعدہ کے عسکری مفادات کے مقابل آ کھڑی ہوئی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے فتاویٰ عوامی تصورات پر تو ضرور اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن عسکریت پسند تحریکیں بہت مشکل سے ان کا اثر قبول کرتی ہیں۔ پاکستانی علماء کی جانب سے جاری کیے گئے فتویٰ کی حیثیت مشکوک رہے گی اور طالبان کی مزاحمتی تحریک پر بھی اس کا کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ہاں البتہ اس طریقے سے عوام میں طالبان کی پذیرائی ضرور کم ہو سکتی ہے اور اس سے سفارتی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی علماء اس نوعیت کا کوئی غیر مقبول قدم اٹھانے کی ہمت کر پائیں گے؟
(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان)
فیس بک پر تبصرے