کلام، مولانا کی حکایت اور انصاف کا بیانیہ
یعنی جب موسیؑ نے اس چرواہے کو تلاش کیا تو اسے کہا کہ تیرے لیے خوشخبری ہے کہ تو کوئی آداب اور ترتیب اپنے اور خدا کے مابین مت رکھو جو بھی تیرا اداس دل چاہے کہہ دے۔ تیرا کفر بھی دین ہے اور یہ دین نور جان ہے تیرا امن دنیا کے امن کا ضامن ہے۔
کلام کرنا ایک فن بھی ہے اور مجبوری بھی۔ آج جتنی پیچیدگی پیدا ہوئی ہے وہ بولنے سے پیدا ہوئی ہے اور وہ بھی غلط بولنے سے۔ ابلاغ بولنے والا کا مسئلہ ہے نہ کہ سننے والوں کا ، وجہ چاہے سننے میں ہو یا سننے والے میں ۔ بات کرنے کارنگ ڈھنگ ہونا چاہیے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ سمجھناہی نہیں چاہتے یا پھروہ ہر بات کو اپنے مفاد کے عین مطابق سننا چاہتے ہیں۔اب ایسے لوگوں کے ساتھ نہ فصاحت کام آتی ہے نہ بلاغت ۔ فقط صنعت تضاد اور اور تناقضات کا عمل دخل باقی رہتا ہے۔
انفارمیشن کے طوفان میں معاشرتی مکالموں اور انجذاب کا عمل جس طرح سے یکتائی اور انسانی وحدت کو سامنے لا سکتا تھا ، وہ نہیں ہو پایا۔کیوں کہ اس ریلے میں بہت سے چھوٹے بڑے نسلی ، لسانی، مذہبی گروہوں کویک دم سے دیگر نامعلوم قسم کے گروہوں سے واسطہ پڑنے لگا اور وہ بھی ایک چھوٹی سی ٹیکنالوجی کی کھڑکی سے اوربغیر تاروں سے کسی کے بھی ساتھ رابطہ میں سہولت سے اور وہ بھی تقریباً تقریباً مفت ۔۔۔ تشخص کا بحران اور عدم تحفظ کا احساس تو پیدا ہونا تھا۔
مولانا رومی کی ایک حکایت میں حضر ت موسی علیہ السلام راہ چلتے کسی چرواہے کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ وہ خدا سے یوں مخاطب ہے کہ جیسے وہ ہماری طرح کا کوئی عام آدمی ہو جس کو بعینہ وہی مسائل ہوتے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ خلاصہ کلام موسی علیہ السلام نے اس چرواہے کو اس انداز تخاطب پہ سخت سست کہا اور اسے عذاب عظیم کا حقدار گردانا ۔ یہ سننا تھا تو چرواہا جو ہمیشہ سے ایک ایسے خدا سے شناسا تھا جو اسی کی طرح کا اسے لگتا تھا، لیکن اب ایک پیغمبر سے جب یہ سنا کہ تجدید ایمان کی گنجائش تک نہیں تو وہ دیوانہ وار سرپٹ دشت و بیاباں کی طرف دوڑا ۔ایسے میں خدا کی طرف سے وحی آتی ہے کہ :
وحی آمد سوی موسی از خدا بندۂ مارا زما کردی جدا
تو برای وصل کردن آمدی نی برای فصل کردن آمدی
یعنی موسیؑ کی جانب وحی آئی کہ میرے بندے کو تو نے مجھ سے جدا کردیا، تو تو جوڑنے کے لیے آیا تھا نہ کہ توڑنے کے لیے۔۔۔
اب جب خداوند کی طرف سے موسیؑ کو اس بابت وحی اللہ میں بہت کچھ کہا گیا تو حضرت موسیٰ نے بعد از تلاش بسیار جاکر اس چرواہے کو ڈھونڈا اور مژدہ سنایا:
عاقبت دریافت اورا و بدید گفت مژدہ دہ دستوری رسید
ھیچ آدابی و ترتیبی مجو ھرچہ می خواھددل تنگت بگو
کفر تو دین است و دینت نور جان ایمنی ، وز تو جھانی در امان
یعنی جب موسیؑ نے اس چرواہے کو تلاش کیا تو اسے کہا کہ تیرے لیے خوشخبری ہے کہ تو کوئی آداب اور ترتیب اپنے اور خدا کے مابین مت رکھو جو بھی تیرا اداس دل چاہے کہہ دے۔ تیرا کفر بھی دین ہے اور یہ دین نور جان ہے تیرا امن دنیا کے امن کا ضامن ہے۔
ایسا کیوں ہے اس لیے کہتے ہیں:
ھر کسی را سیرتی بنھادہ ایم ھر کسی را اصطلاحی دادہ ایم
یعنی میں نے ہر ایک کی سیرت الگ الگ رکھی ہے اور ہرایک کو جدا اصطلاح(زبان) دی ہے۔
من نکردم خلق، تا سودی کنم بلکہ تا بر بندگان جودی کنم
ھندوان را اصطلاح ھند مدح سندیان را اصطلاح سند مدح
یعنی، اللہ کہتا ہے کہ میں نے انسانوں کو اس لیے خلق نہیں کیا فائدہ اٹھاؤں بلکہ اس لیے کہ اپنے بندوں پر سخاوت کروں۔ہند کے رہنے والوں کے لیے ہند کی باتیں قابل تعریف ہیں اور سندھ کے لیے سندھ کی۔
بنیادی طور پر مولانا رومی کی اس مثنوی میں ایسے بہت سارے اشعار ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے جہاں انہوں نے خدا اور بندے کے آپسی رشتے کی موسیٰ علیہ السلام اور چرواہے کی تمثیل سے واضح کیاہے۔جیسا کہ کہا گیا:
ما برون را ننگریم و قال را ما درون را بنگریم و حال را
ہم ظاہر کو نہیں دیکھتے نہ خالی خولی باتوں کو، ہم تو باطن کو دیکھتے ہیں اور کیفیت کو۔۔۔
درج حکایت کے مصداق اگر ہم سب ایک دوسرے کے دائروں احترا م کا کریں اور اعلیٰ انسانی مقصد حیات کو ذہن میں رکھیں تو گفتگو اور مباحث کا خاطر خواہ نتیجہ نکل ہی آئے گا۔یعنی پرامن نتیجہ۔ہاں ، مگر، اگر کوئی یہ نہ چاہے تو یہاں سے وہ کھیل شروع ہوسکتا ہے جس کے تحت کسی بھی انسانی معاشرے کو شدید ترین نقصان ہوگا۔جیسا کہ اطراف و اکناف میں ہم نفسوں کو ہورہاہے۔اس وقت دنیا کا کونہ کونہ دہشت و کشت وخون کی زد میں ہے ہر انسان ایک مثبت اور مناسب مکالمے کے فقدان کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ بعض اہل دانش کی رائے یہ ہے کہ لڑتا وہی ہے جس کے پاس دلیل ختم ہوجاتی ہے حالانکہ یہ لڑائی نہیں یہ محض اور محض دہشت گردی ہے اور ایک با ضابطہ جرم اور انسانی قتل عام، جس کے تحت انسانوں کو ہراساں کرنے اور ان سے زندگی کا حق چھیننے تک کا عمل قبیح سرزد ہورہاہے۔فی الواقع یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ مقتدر اداروں اور سیاسی سماجی قوتوں کو اس ضرورت کو جان لینا چاہیے کہ ملک کو ان مسائل سے نکالنے کا فوری اور قابل عمل حل سامنے لانا چاہیئے۔ بیانیہ ایک ہی ہوسکتا ہے وہ انسانی حق کے تحت انصاف نہ کہ رعایتی نمبروں سے انصاف سے چشم پوشی۔
فیس بک پر تبصرے