پاکستان میں عربی زبان کا فروغ

عربی زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے سعودی سفارت خانہ، اسلام آباد اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں منعقدہ سیمینارز کی رپورٹ

1,638

عربی زبان کو عام کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس کے فروغ سے  ملک و معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا عربی صرف مذہب  کی ہی زبان ہے؟ پاکستان میں عربی  زبان کی کیا صورتحال ہے اور اس کی ترویج کیسے ممکن ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں  جن  کا عربی کے عالمی دن کے موقع پر جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور ملک بھر میں  اس حوالے سے متعدد تقریبات منعقد ہوئیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں  اس خاص دن  کی مناسبت سے دو بڑی  اور اہم تقریبات منعقد ہوئیں جن میں سے ایک کا اہتمام سعودی سفارتخانے نے کیا  جبکہ دوسری تقریب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے فیصل مسجد کیمپس میں   منعقد ہوئی۔

18 دسمبر کو سعودی  سفارتخانے میں منعقدہ تقریب  میں مہمان مقرر ین میں ڈاکٹر انعام الحق ،ڈاکٹر کفایت اللہ ہمدانی، اور ڈاکٹر عبیدالرحمن محمد بشیر کے علاوہ  دیگر شرکاء میں جامعات و مدارس کے اساتذہ،قلمکار اور سفارتکار شامل تھے۔

ڈاکٹر انعام الحق غازی نے اپنے  کلیدی خطبے میں  عربی زبان کی تعلیم کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا اور کہا  کہ  ایسا نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے ،جس میں  زبان دانی کی چاروں مہارتوں اور قواعد کو  جدید انداز سے  بیان کیا گیا ہو اور درسی کتابوں  کے ساتھ  سمعی اور بصری مشقوں کے لیے سی ڈیز بھی تیار کی جائیں۔نمونے کے طور پر انہوں نے حال ہی میں نیشنل بک فاونڈیشن سے شائع ہونے والی کتاب معاصر عربی کا حوالہ دیا   جو کہ بعض  جامعات اور مدارس میں داخل نصاب بھی ہو چکی ہے۔ڈاکٹر کفایت اللہ ہمدانی  کا کہنا تھا کہ صرف یونیورسٹیاں ہی نہیں بلکہ  دینی مدارس بھی عربی زبان کی ترویج میں پیش پیش ہیں  ۔البتہ  مدارس کے طلبا مالی مشکلات کی وجہ سے عصری جامعات میں داخلہ نہیں لے سکتے،اس سلسلہ میں ان کی معاونت کی کوئی راہ نکالی جائے اورعربی کے اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس رکھی جائیں ۔انہوں نے کہا کہ نمل یونیورسٹی میں فارسی کی تعلیم کے لیے پڑوسی ملک کی جانب سے سکالرشپس موجود ہے تو عربی زبان  کے لیے کیوں نہیں؟ عرب  ممالک کو اس جانب بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد  کے صدر  ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی  فروغ عربی کے لیے خدمات  کاجائزہ لیتے ہوئے کہا کہ  پاکستان میں عربی زبان سے محبت اور اسے سیکھنے کا شدید شوق  دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری طرف سے اس باب میں کوتاہی ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر عبیدالرحمن بشیر نے  کہا کہ  کچھ ممالک نے  تجارت وغیرہ کی غرض سے اپنے ملک میں  داخلے  کے لیے  ان کی زبان سے واقفیت کو شرط قرار دیا ہے جس کی وجہ سے  کم اہمیت رکھنے والی زبانوں کے بھی یہاں بڑے بڑے مراکز قائم ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں زبان سیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔اگر عرب ممالک بھی یہ اقدام اٹھائیں  اور ایک سطح تک کی عربی کو اپنے ملک میں داخلے کے لیے لازمی قرار دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی   زبان سیکھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔انہوں نے  کہا  کہ  پاکستانیوں کو عربی سیکھنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ہم   پاکستانیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا،صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ تربیت اساتذہ کورسز کروائے جائیں اور عرب جامعات  کے فضلاء  کی خدمات حاصل کی جائیں۔

انہوں نے دینی مدارس کی خدمات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ عربی زبان  کے مضبوط قلعے ہیں اور جو کام ان مدارس میں ہو رہا ہے وہ عصری جامعات سے کہیں بڑھ کر ہے،ضرورت ہے کہ مدارس کے  چاروں تعلیمی وفاق  اس حوالے سے مشترکہ جدوجہد کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ڈاکٹر عبیدالرحمن نے عربوں کو کڑی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی فصیح عربی زبان کو چھوڑ کر علاقائی لہجات میں بات چیت کرتے ہیں اور جب ہم سے عربی سیکھ کر لوگ عرب ممالک میں جاتے ہیں  اور  عامی زبان کو نہیں سمجھ پاتے تو انہیں ہم پر شک گزرتا ہے کہ شاید ہم نے انہیں صحیح عربی نہیں سکھائی،اس لیے خود عربوں کو بھی فصیح اور سٹینڈرڈ عربی کو اپنانا چاہیے۔سیمینار میں  اعلان کیا گیا کہ  پاکستانی عوام کو عربی زبان سے روشناس کروانے کے لیے جلد ہی پاکستان میں بھی مرکز شاہ عبداللہ برائے عربی زبان  کی شاخ کھولی جائے گی۔

اس سلسلہ کی دوسری  اہم تقریب20 دسمبر کوبین الاقوامی  اسلامی یونیورسٹی کے علامہ اقبال آڈیٹوریم  میں ہوئی،معزز مہمانوں میں سوڈانی سفیر تاج الدین الھادی اور سینیٹر طلحہ  محمود شامل تھے۔

سوڈانی سفیر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سوڈان عربی زبان کے فروغ کے لیے ملک کے اندر اور باہر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے  اور آج کے اس خصوصی دن میں مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی  ہے کہ  ہم نے پاکستان کے طلبا کے لیے  کچھ فیلڈز میں سکالرشپ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں  عربی زبان کے استاتذہ کے لیے تربیتی کورسز بھی شامل ہیں اور سرکاری سطح پر اسلامی یونیورسٹی کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ  یہ زبان اسلامی دنیا کو  آپس میں قریب لانے کا بھی ایک ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ عربی زبان کے فروغ میں بین الاقوامی اسلامی  یونیورسٹی کا نہایت اہم کردار ہے،میری خواہش ہے کہ عربی پاکستان میں رائج ہو ۔میں خود  بھی عربی زبان سیکھنا چاہتا ہوں اور  سرکاری سطح پر سکولوں میں عربی کو لازمی قرار دی نے کے لیے بھی ہم کوشش کر رہے ہیں۔

تقریب میں جامعہ کے طلبا مختلف دلچسپ خاکے پیش کیے گئے جن کو حاضرین نے بہت سراہا،انڈونیشیا کے طلبا نے دف کے ساتھ ایک خوبصورت عربی قصیدہ  پیش کیا،گیلری میں طلبا کی خطاطی کے دلکش نمونے بھی  رکھے گئے تھے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...