خارجی تذویراتی گہرائی کا متبادل
بھارت کے ساتھ تنازعات کا تسلسل اور کشیدگی کا بڑھتا ہوا دو طرفہ گراف،خطے میں جنگ کے خدشات کو تقویت دیتا ہے۔عالمی سطح پر بھی اور علاقائی و ملکی پالیسیوں میں بھی
پاکستانی میں جمہوری نظام کا قیام تسلسل اور استحکام پیدائشی و فطری اعتبار سے مشکوک خیال کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت کی نوعیت کے موضوعات عملی سیاست کا حصہ کم ہی رہے ہیں جبکہ عوام کی حاکمیت کی نظری و تنظیمی بنیاد روز اول سے ہی مخدوش تھی۔ تاریخی مواد کا جائزہ اس مضمون کا مقصد نہیں۔اجمالاً عرض کردوں کہ بانی سیاسی جماعت کی سیاسی ثقافت ہی جمہوری قیادت مہیا کرنے سے عاری تھی۔مسلم لیگ کا سیاسی کلچر جس پر معدرے چند رہنما و شخصیات کو حاصل استثنیٰ کے اکثریتی قیادت جاگیری کلچر سے وابستہ تھی۔بانی جماعت کے قائدین اپنے آبائی انتخابی حلقوں سے محروم ہو چکے تھے۔جماعت کے اندر قیام پاکستان کے متعلق ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں تھی۔قیام کے اعتبار سے ہی دوھرے فکری میلان کی نشاندہی کیلئے تاریخی کتب سے متعدد حوالے درج کیے جاسکتے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ بانی جماعت میں نئی مملکت کو چلانے کیلئے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں ہوتی تھی۔جذباتی نعروں کے علاوہ برصغیر ،نو آبادیاتی نظام کے تسلسل مگر اقتدار کی منتقلی پر منحصر نظر آتی ہے۔
نئی ریاست کا آئینی فریم ورک کیا ہوگا؟ معاشی پالیسی خارجہ حکمت عملی،اقتصادی ترقی کی سمت وغیرہ ایسے اہم موضوعات ہیں جن کے متعلق مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں بحث مباحثہ نہیں ہوا۔کسی بھی نوعیت کا پیپر ورک نہیں کیا گیا اس کے برعکس کانگریس کا ثقافتی سیاسی کلچر واضح طور پر غیر زمیندارانہ،صنعتی و تجارتی یا پیشہ وارانہ سرگرمیوں سے وابستہ تھا۔ اس جماعت میں موجود ورکنگ کلاس کی اکثریت وحیثیت،بھارت کے بعد آزادی،ریاستی تناظر کو غیر اعلانیہ طور پر ہی سہی،اظہر من الشمس تھی۔
پاکستان اپنے قیام سے پہلے اور بعد ازاں شعوری طور پر سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ جس کا آغاز ہورہا تھا۔اپنے لئے صف اوّل کا کردار ترتیب دے رہا تھا جو حتمی طور پر مغرب نواز ،انحصار پسندی اور عسکری ریاست کے خدوخال کی نشاندہی کرنے والا عمل تھا بعد میں یہ سب کچھ عمل میں ڈھل گیا۔
سرد جنگ کے آغاز میں مغربی دنیا کے حلیف اور صف اوّل کی ریاست بننے کی روئیداد ونکنٹے رامائن نے سرکاری دستاویز کے شواہد کے ساتھ مرتب کی ہے۔داخلی اعتبار سے ریاست کی مقتدرہ پر قائداعظم کی رحلت کے بعد سیاسی گرفت مزید کمزور ہوگئی۔کشمیر میں قبائلیوں کو داخل کرنے کا واقعہ جہاں سیاسی قیادت کی لا علمی یا دور اندیشی سے محرومی کا غماز ہے تو دوسری طرف اس اقدام سے نومولود کمزور ریاست کو سیکیورٹی کے خدشات سے دوچار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
تقسیم ہند کے تلخ واقعات کے پس منظر کشمیر کی لڑائی دونوں ملکوں کے بیچ بھیانک عدم تحفظ پیدا کرنے والا لامتناہی عامل بن گیا۔اقتدار پر سیاسی گرفت کی کمزور پڑتی صورتحال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم بنا کر ،ملک غلام محمد گورنر جنرل بن گئے۔یہ عہدہ قانون تقسیم ہند کے تناظر میں آئینی سربراہی سے بڑھ کر سیاسی بالادستی کا حامل تھا بلکہ طاقت کا اصل منبع تھا۔یوں دھیرے دھیرے بیورو کریسی نے اقتدار پر اپنی گرفت مستحکم کی جس دوران اسے عسکری درکار معاونت بھی بہ آسانی میسر آگئی۔جنرل ایوب خان(آرمی چیف) کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔وزیر دفاع کی حیثیت میں انہوں نے ریاستی مقتدرہ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی و شراکت داری مستحکم بنائی۔جو اپنے باطن اور اغراض میں سیکیورٹی خدشات پہ مبنی حقیقی و نیم حقیقی پالیسی کے ساتھ اقتدار سنگھا سن کا مرکزی نقطہ نظر بن گئی۔
بھارت سے لاحق خدشات سے نمٹنے کیلئے مغرب اور امریکہ کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعاون کو ایک ذریعہ بنایا گیا۔سوویت یونین کے سامنے صف اوّل کی ریاست کے طور پر حاصل ہونے والی عسکری ایڈز نے فوج کو مضبوط و طاقتور بنایا۔اور یوں سیکیورٹی ریاست کے اعلانیہ و مخفی اغراض کی تکمیل ممکن بنالی گئی۔1965ء کی جنگ سے لے کر ضیاء الحق کی آمریت تک سیاسی طاقت کا توازن سیاسی دائرے سے نکل سول بیوروکریسی حتمی و کلی صورت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں جا چکا تھا۔جیسے افغان رد انقلاب کارروائیوں کے عرصہ میں بیئرد ڈائر امداد نے ناقابل تسخیر بنا دیا۔خود ساختہ،خوف،علاقائی عدم تحفظ اور ضبط عظمت کا داخلی خالی پن حمید گل کے وہبی و سلبی نقور۔تذویراتی گہرائی کی شکل میں سامنے آیا اور اس کیلئے افغانستان کو پاکستان کی دفاعی جنگ کا محفوظ حصہ بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔طالبان کی حکومت ایسی منفی اور بعد از قیاس تصور کی صورت گری کی عملی تصویر تھا۔گو کہ تذویراتی گہرائی کا وسیع تر تصور پاکستان افغانستان ایران و وسطی ایشیائی ریاستوں کے فوجی اتحاد باادغام تک پھیلا ہوا تھا لیکن معروف معنوں میں افغانستان کی جغرافیائی حدود پر مبنی قیاس کو بھی زیر بحث رکھا ہے۔
اس اجمالی تاریخی ارتقائی صورتحال کا بیانیہ لمحہ موجود کی درپیش الجھنوں کو سلجھانے کیلئے درج کیا گیا ہے کیونکہ افغانستان میں ہماری خارجہ حکمت عملی کا منطقی نتیجہ ایک ہمسایہ مسلم ملک کو دوست بنانے میں ناکامی کی صورت میں نکلا ہے تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ نیو کلیاتی اسلحہ کی موجودگی کے باوصف ایک قابل اعتماد استحکام اور محفوظ ملک ہونے کا تعین پیدا نہیں ہوسکا۔ بھارت کے ساتھ تنازعات کا تسلسل اور کشیدگی کا بڑھتا ہوا دو طرفہ گراف،خطے میں جنگ کے خدشات کو تقویت دیتا ہے۔عالمی سطح پر بھی اور علاقائی و ملکی پالیسیوں میں بھی۔
اگر حمید گل کی مفروضہ تذویراتی گہرائی میسر بھی آجاتی تب بھی پاکستان کیلئے اس کے محفوظ معنی و مفہوم ناممکن تھا۔ جنگ کی ہر صورت میں پاکستان کے صنعتی مراکز و اہم شہر ،دریائے سندھ کے زیریں حلقے میں ہیں۔کراچی ،لاہور،گوجرانوالہ،پنڈی ،جہلم،سیالکوٹ،سکھر،حیدر آباد تذویراتی گہرائی ان کی طبعی موجودگی کو تبدیل کرنے سے قطعاً قاصر تھی۔جنگ روائتی انداز کی ہو یا نیو کلیائی ہتھیاروں پر مبنی۔ہر دو صورتوں میں مذکورہ صدر صنعتی و تجارتی مراکز اور فوجی چھاؤنیاں غیر محفوظ ہی رہتی تو حتمی طور پر تذویراتی گہرائی کا ملک کی جغرافیائی حدود سے باہر کوئی قابل عمل حقیقی تصور موجود نہیں۔یہ ایک واہمہ یا خوف کا سایہ تھا جس کا تعاقب ان غلطیوں کے اعادہ پر مجبور کرتا رہا جس کا آغاز1947ء میں ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہوا تھا۔
14اگست1947ء قیام پاکستان کے پہلے ہی روز۔گورنر ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں میجر جنرل اکبر خان نے قائداعظم سے انگریز افسروں کی موجودگی پر گلہ مندانہ شکایت کی تھی جس کے جواب میں قائداعظم نے غصے سے فرمایا تھا
’’یہ کبھی موت بھولو‘‘۔ڈاکٹر اشفاق لکھتے ہیں ۔’’کہ آپ ریاست کے ملازم ہیں ،پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں،یہ ہم یعنی عوام کے نمائندوں کا کام ہے کہ ملک کو کس طرح چلایا جائے۔آپ کا کام سول عہدیداروں کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے‘‘۔(پاکستان عسکری ریاست)
قائداعظم کے واضح فرمان سے انحراف کے نتائج اور تاریخ ہمارے سامنے ہیں۔ ریاض کانفرنس اور مبینہ مسلم عسکری اتحاد کی فوجی قیادت کا حصول اور کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ روا رکھے گئے طرز عمل تک،ہر چیز واضح ہے۔تاہم میں یہاں اس گمشدہ تذویراتی گہرائی کے احیا کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ملک کی داخلی سرحدوں کے اندر موجود ہو۔جو کسی دوسرے کے انحصار پر مبنی نہ ہو اور قومی یکجہتی و ملکی استحکام و ترقی کے ممکنات بڑھاتا ہو۔
آباد شہروں کی رونقیں اور خوشحالی آباد رہے،گئے دنوں کو پلٹانا ممکن نہیں تو مستقبل کیلئے دانشمندانہ حکمت عملی مرتب کرنا ممکن بھی ہے اور لازم بھی۔
گوادر بندرگاہ،وسط ایشیائی اور مشرق وسطیٰ و افریقہ تک دو طرفہ تجارت گیٹ وے بننے جارہا ہے۔بندرگاہ کا بنیادی تصور وسط ایشیائی خطے کو دنیا کے ساتھ منسلک کرنا تھا جسے اوبور نے اُچک لیا اور اب سی پیک نے اسے چین کی ذیلی بندرگاہ تک محدود کردیا ہے۔لمحہ موجود کی عملی حقیقت کے حوالے سے۔
بہر حال میں اسی محدود تناظر میں بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر بھارت کے ساتھ عدم اعتماد کا فقدان اور دو طرفہ مسائل کا پرامن حل،سردست ممکن نہیں اور دونوں ملکوں کے بیچ فوجی تصادم کا شائبہ نما خدشہ برقرار ہے تو د انشمندی کا تقاضا ہوگا کہ سی پیک کے زمینی رابطوں بشمول ریل و سڑک اور پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے زیادہ سے زیادہ پاکستان کو ہر تذویراتی گہرائی کے منطقے یعنی بلوچستان سے گزارا جانا چاہیے۔سی پیک کے دیگر ممالک کو جانے والے راستوں کے ساتھ سی پیک کی بنیادی سپلائی لائن گوادر تربت ہوشاب خضدار،رتو ڈیرو،قلات،نوشکی کوئٹہ ژوب سے گزرے تو اس کے دفاعی نقطہ نظر سے وہ فوائد بھی بین السطور میں دستیاب ہوں گے جن کی تشکیل کیلئے افغانستان میں ،طالبان کے ذریعے،معاشرتی نظری و سیاسی کھدائی کی گئی تھی۔گم شدہ تذویراتی تحفظ اور استحکام بلوچستان کو پالیسی سازی،ترقی و خوشحالی اور تجارتی مراکز میں بدلنے میں مضمر ہے اور یہی رویہ ریاض کانفرنس کے منفی اثرات سے بھی بچانے کی تدبیر ہے۔ایسا کرتے ہوئے ہم ایران و افغانستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے پراعتماد عہد میں اسر نو داخل ہوسکتے ہیں جو امن ،ترقی و استحکام کا ضامن ہوگا اور تذویرائی گہرائی کا بھی قابل قبول عمل ہوگا۔
فیس بک پر تبصرے