تُو عرب ہو یا عجم ہو ، تیرا لا الٰہ الّا

1,400

قطر کی حکومت اور قطر کے عوام چونکہ فلسطینیوں کی تحریکِ آزادی کے حامی ہیں اس لیے انھیں خلیج کے ان پانچ ممالک سے دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔ ایران کا قصور بھی یہی ہے۔

جاننا چاہیے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی اور سعودی شاہ سلمان کی قیادت میں متحرک سُنّی ممالک کا اتحاد سراسر ایک سیاسی اتحاد ہے، دینی اشتراک ہر گز نہیں۔ یہ خاندانی بادشاہت اور سلطانئ جمہور کے مابین روز افزوں کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب شہنشاہِ ایران خطے میں امریکی مفادات کی نگرانی پر مامور تھا۔ سی آئی اے نے  جن سازشوں کے ذریعے ڈاکٹر مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر پہلوی خاندان کو شاہی تخت پرلابٹھایا تھاوہ آج اظہر من الشمس ہے۔ پہلوی خاندن نے سی آئی اے کے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ مرتا مر گیا مگر خطے میں امریکی مفادات کی چاکری میں مصروف رہا۔ امام خمینیؒ کی قیادت میں عوامی جمہوری انقلاب برپا ہوا اور یوں پہلوی خاندان کی ذمہ داریاں سعودی شہنشاہیت کے سپرد کردی گئیں۔ سعودی شہنشاہیت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہنمائی میں سلطانئ جمہور کی راہیں مسدود کرنے کی خاطر ایرانی جمہوریت کے خلاف سُنّی ممالک کا ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کرلیا ہے جو ایران میں مستحکم ہوتی اور تیزی کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی جمہوریت کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں سرگرم عمل ہو گیا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بحرین کی حکومت نے سب سے بڑی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کردی ہے۔ 
بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت پر ایک سنی خاندن کی آمریت مسلط ہے۔دو تین روز پیشتر ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نیشنل ڈیمورکریٹک ایکشن سوسائٹی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔وزارتِ انصاف کا کہنا ہے کہ ایک سیاسی جماعت طاقت کے ذریعے سیاسی تبدیلی میں کوشاں ہے۔ بحرین گزشتہ چھ سال سے ملک میں آئینی حکومت کے قیام کے اُس مطالبہ کو بزورِ قوت ردکرتا چلا آ رہا ہے جو اس سیاسی جماعت کا منشور ہے۔ گزشتہ برس ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت الوفاق پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس جماعت کے قائد شیخ علی سلمان گزشتہ دو برس سے قیدت و بند کی صعوبتیں سہتے چلے آ رہے ہیں۔ ا س جماعت کے ایوانِ زیریں کے تمام اراکین بیک وقف مستعفی ہو گئے تھے۔اس صورتِ حال پر مغربی دنیا کی انسان دوست تنظیمیں چیختی چلاتی رہتی ہیں مگر بحرین کی حکومت اس بین الاقوامی دباؤ کے باب میں بڑے فخر سے Zero Tolerance کا مظاہرہ کرنے پہ نازاں ہے۔ 
ٹرمپ اسلامی اتحاد کا ایک اور کارنامہ یہ سامنے آیا ہے کہ خلیج کی پانچ ریاستوں نے قطر کا حُقہ پانی بند کر دینے کی حکمتِ عملی اپنا لی ہے۔ قطر کے دنیا بھر سے بری ، بحری اور فضائی رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں۔ قطر کا قصور صرف یہ ہے کہ وہاں کے چند دینی اور سیاسی حلقوں کے اخوان المسلمون اور حماس سے گہرے روابط کا شبہ ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون عوامی جمہوری عمل کے ذریعے عوام کی بھاری تائید و حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ اقتدار سنبھالتے ہے انھوں نے فرقہ واریت سے بلند و برتر ہو کر ایک طرف ترکی اور دوسری جانب ایران سے برادرانہ تعلقات قائم کر لیے تھے۔ اُن کا یہ عمل نہ امریکی جمہوریت کو پسند آیا اور نہ سعودی شہنشاہیت کو۔ چنانچہ سعودی سرمائے اور امریکی سازش سے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر امریکی تابعداری پر نازاں فوجی آمریت قائم کر دی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمہوری عمل کی وہ بہار جس کے شگوفے پہلے پہل تیونس میں کھلے تھے مرجھاتی چلی گئی۔ اب صرف تیونس اور ایران میں جمہوری عمل استحکام کے مراحل طے کر رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا یہ’’اسلامی‘‘اتحاد درحقیقت اسرائیل کی بقا اور توسیع کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ قطر کی حکومت اور قطر کے عوام چونکہ فلسطینیوں کی تحریکِ آزادی کے حامی ہیں اس لیے انھیں خلیج کے ان پانچ ممالک سے دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔ ایران کا قصور بھی یہی ہے۔ 
اب وقت آ گیا ہے کہ خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے۔یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ایران اور قطر میں فلسطین کی تحریکِ آزادی کے باب میں گرمجوشی موجود ہے مگر یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ عرب ہو یا عجم ، ہر دو خطہ ہائے زمین تحریکِ آزادئ کشمیر کی حمایت میں لب کشائی سے گریزاں چلے آ رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ بھارت کی مسلم کُش حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنا کر ہمارے یہ مسلمان بھائی بھارت کی دہشت گرد حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس باب میں میں حیران ہوں کہ ایران کی خارجہ حکمتِ عملی مرتب کرتے وقت ایرانی قائدین کو مقبوضہ کشمیر کیوں یاد نہیں آتا جہاں سید علی ہمدانی کی قیادت میں سینکڑوں فرزندانِ توحید نے اپنے روحانی تصورات کی روشنی میں مادی زندگی کو نور علیٰ نور کر دیا تھا اور دُور و نزدیک اِس خطہ کشمیر کی پہچان ایرانِ صغیر ہو کر رہ گئی تھی۔ حیران ہوں میرے ایرانی بھائیوں کی قریب کی نظر اتنی کمزور کیوں ہے؟ 
یہاں میں پاکستان کی حکومتوں کی غلطیوں کو اس کا جواز نہیں مانتا۔ بات حکومتوں کی نہیں عوام کی ہے، عامۃ المسلمین کی ہے، صدیوں پر پھیلے ہوئے دینی اور تہذیبی تعلقات کی ہے۔ ہاں ، آپ بھارت کی دہشت پسند قیادت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے؟ بھائی میاں! صدر ٹرمپ بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ ایرانی قیادت کو یہ حقیقت کسی صورت میں بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تحریکِ آزادئ کشمیر کے پہلے مجاہد علامہ اقبال تھے۔ وہی علامہ اقبال جنھوں نے چاہا تھا کہ: 
تہراں ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے 
پاکستان میں اقبال کی اسی انقلابی آرزو مندی کا ثمر ہے اور تحریکِ آزادئ کشمیر کا پہلا نظریاتی اور عملی مجاہد بھی علامہ محمد اقبال ہے۔ مجھے یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج اقبال تو پاکستان سے زیادہ ایران میں زندہ ہے۔ تو پھر میرے ایرانی بھائی علامہ اقبال کی قیادت میں تحریکِ آزادئ کشمیر کا جھنڈا کیوں نہیں اٹھاتے؟ جب وہ یہ جھنڈا بھی اُٹھا لیں گے تب اقبال کی یہ صدا پوری دنیائے اسلام میں کراں تا کراں گونج اُٹھے گی:
تُو عرب ہو یا عجم ہو تیرا لا الٰہ اِلا
لغتِ غریب ، جب تک تیرا دل نہ دے گواہی!

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...