شریف برادران کی سعودیہ روانگی

1,077

27 دسمبر کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سعودیہ عرب روانہ ہوئے ،جبکہ  گذشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں محمد  نواز شریف بھی سعودیہ عرب پہنچے ہیں۔ آج  دونوں بھائیوں کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات طے ہے جس میں پاکستان کو امریکہ کی طرف سے درپیش مسائل  اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ممکن ہے۔

پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں یہاں مسلسل اس بات پر اصرار کررہی ہیں  کہ سعودیہ پاکستانی سیاست میں مداخلت کرکے سول ملٹری تعلقات میں توازن قائم کرنے اور ایک مرتبہ پھر شریف برادران کی پشت پناہی میں مصروف ہے جبکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ سعودیہ نے شریف برادران کی پشت پناہی کرنا ہوتی تو وہ نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلے سے پہلے پاکستانی سیاست میں مداخلت کرتا اور نوازشریف کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ اس سے بچ جاتے۔ مزید یہ کہ شریف برادران کی سعودی دعوت پر سعودیہ روانگی اور ترکی کے وزیر اعظم کی سعودیہ میں موجودگی اور شہباز شریف سے طویل ملاقات کسی اور خبر کا پتہ دیتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت دفاعی سطح پرجن  شدید خطرات کا سامنا ہے،اس کا تصور بھی شاید اس سے پہلے کبھی  نہیں کیا گیا۔ امریکہ میں عمران خان جیسے کرداروگفتار کے مالک شخص کی حکومت ہے اور وہ پاکستان کو  محض دھمکیاں نہیں دے رہا بلکہ ان پر عملدرآمد کی حکمت عملی پر غور بھی کررہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے 12 دسمبر 2017کو افغانستان کے دورے کے موقع پر کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی ختم نہ کرائی تو دہشت گرد اسلام آباد پر بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ 15 دسمبر 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سینیٹ میں ایک دستاویز جمع کرائی کہ اس وقت پاکستان امریکہ سے تعاون کررہا ہے، اگر اس نے تعاون نہ کیا تو اس کے خلاف مناسب اقدامات اٹھا سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں، پاکستان اُن کو ختم کرے اور اُن کے ساتھ تعاون بند کرے ۔اس کے بعد امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا کہ امریکی صدر نے پاکستان کو نوٹس دے رکھا ہے، پاکستان کو امریکہ سے تعاون کرنے پر بہت کچھ مل سکتا ہے اور تعاون نہ کرنے پر بہت کچھ کھو سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک طرزعمل ہے، ٹرمپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ برق رفتاری کے ساتھ اپنی تربیت یافتہ اسپیشل فورسز کے ذریعے کسی بھی ملک میں سرجیکل اسٹرائیک کرسکتے ہیں اور اس طرح کرسکتے ہیں کہ میڈیا کو اس وقت پتہ چلے جب ہماری فورسز واپس لوٹ چکی ہونگی۔اب  امریکہ نے  پاکستان سے ایسی تنظیموں کے خاتمے کا مطالبہ بھی  کیا ہے جو کالعدم ہونے کے باوجود بعض قوتوں کے ہاں قیمتی اثاثہ تصور کی جاتی ہیں ۔ماضی کے برعکس  ان دنوں پاکستان کے بڑے شہروں کے قرب وجوار میں جہاں ڈرون حملوں کا خطرہ ہے، وہیں پاکستان میں ایبٹ آباد طرز کے آپریشنز کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔ امریکہ خطے میں بھارت کو بالادست بنانے اور افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے لیے تلا ہوا ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدرافغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اور انکی موجودہ انتظامیہ  پاکستان کے خلاف انتہائی حد تک جانے پر آمادہ ہے۔

اس منظرنامے میں پاکستان پر امریکہ کا دباؤ، دھمکیاں اور عملی اقدامات کے خدشات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان دھمکیوں نے ہماری مقتدرقوتوں کو نہ صرف چونکا دیا ہے بلکہ اس بحران سے نکلنے کے لیے یکسوئی کے ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کردیا ہے ۔ جنرل مشرف  نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر تاویل پیش کی تھی کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو امریکہ ہمیں تورا بورا بنا دیتا،واقفان حال جانتے ہیں کہ  آج صدر ٹرمپ ہمیں تورا بورا بنانے پر مصر ہے۔

ہمارے  بعض طاقتور اداروں نے پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے شریف برادران اور ترک حکمرانوں کا سہارا لیا ہے۔ ترک وزیر اعظم، سعودی حکمران اورشریف برادران سعودیہ میں قادری دھرنا یا عمران خان سے بچنے کی صورتوں پر بحث نہیں کررہے بلکہ اس خطے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف امور پر غور کررہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت اور ملٹری  اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہوں تاکہ افواج پاکستان اتحاد و اتفاق کے ساتھ دفاعی بحرانوں سے نمٹ سکیں۔ سعودیہ پاکستان کے دفاعی این آر او کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ سعودیہ کا اس وقت جتنا تعلق امریکہ کے ساتھ ہے، ایسا شاید ہی کسی اور کا ہو۔ سعودیہ اس بحران سے پاکستان کو نکال سکتا ہے جیساکہ ہمیشہ اس کا کردار رہا ہے۔ اس بحران سے نکلنے میں سعودی کردار کیا ہوسکتا ہے اور وہ امریکہ پر پاکستان کے معاملے میں کتنااثر انداز ہوسکتا ہے، یہ سب باتیں اس وقت سعودیہ میں زیر غور ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے مقتدر ادارے بھی کبھی اپنے آپ پر غور کریں گے اور بحرانوں کے پیدا ہونے سے پہلے کوئی سوچ،بچار کی مجلس قائم کرنے کے عادی ہونگے۔ آخر کیا وجہ کہ ان کالعدم تنظیموں کو ہم کنٹرول نہیں کررہے جنہیں کنٹرول کرنے کا امریکہ،سعودیہ،چین اور اقوام متحدہ جیسے ادارے اور ممالک  ایک دفعہ نہیں بارہا مطالبہ کرچکے ہیں۔ہم انہیں محفوظ رکھنے کے لیے نائن الیون کے بعد سے اب تک نامعلوم کتنے بے گناہوں کو بھینٹ چڑھاچکے ہیں مگر مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ہم اپنے ہی آئین و قانون کے خلاف جاکر جماعۃ الدعوہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کو بچانے کی جس تگ و دو میں مصروف ہیں،آج ہماری یہی کوشش ہمارے گلے کی ہڈی بن چکی ہے ،جسے ہم اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔ جماعۃ الدعوہ کے امیر حافظ سعید کےہمراہ ایک جلسے میں شرکت کی بناء پر فلسطینی سفیر کی پاکستان سے واپسی بھی یہ واضح کررہی ہے کہ ان تنظیمو ں کا وجود اور ان سے میل ملاپ کتنا حساس معاملہ ہے  اور دیگر ممالک اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔اہم سوال  مگر یہ  ہے کہ ہمارے دیرینہ دوست اور ہمدرد ہمیں ایسے  بحرانوں سے کب تک نکالتے رہیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...