امید و بیم کے درمیان پنپتی زندگی
سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کے درمیان حصول اختیار کی روایتی کشمکش کے جلُو میں دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا مرحلہ قریب آن پہنچا ہے اور اقتدار کی سیاست کرنے والی جماعتیں نہایت احتیاط کے ساتھ کارزار انتخاب میں اترنے کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ پچھلے ستّر سالوں میں وقت کی رفتار نے سیاسی نظریات میں دراڑیں پیدا کر کے انتخابی سیاست کو پیچیدہ تر بنایا تو بے رحم آمروں کے ہاتھوں پے در پے شکستوں کے بعد قومی سطح کے سیاستدان حوصلہ ہار بیٹھے۔قومی قیادت صداقت کے ہر محاذ سے راہ فرار اختیار کر کے مصلحت کی تنگ گلیوں میں پناہ گزیں ہوتی گئی،اس لیےداستان سیاست میں فہم و فراست کی جگہ صرف المناک واقعات باقی رہ گئے۔ایسے میں قومی لیڈروں کے لیے اپنے ہی ووٹرزکو یہ بتانا دشوار ہوگیا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد کیا ہے۔کیمونزم کے زوال کے بعد بائیں بازو کے سیاستدان ناقابل فہم قنوطیت کے تذکرے کرنے لگے اور دم توڑتی مذہبی تحریکیں اپنے پیرو کاروں کو ایسی بلند امیدیں دلاتی رہیں جن کا پورا ہونا ممکن نہیں تھا۔اس ماحول میں جو فکری،سیاسی اور نظریاتی خلاء پیدا ہوا، اسے عسکری تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ اپنے ہی”فلسفہ طاقت” کے ہاتھوں ناکام ہوگئیں۔لیکن ان سب لن ترانیوں کے باوجود سیاست کا ارتقاء کسی رومان سے کم ولولہ انگیز نہیں تھا ۔اس لیے انتخابی عمل کی کشش مصلحت پسند سیاستدانوں کو بھی مقابلہ کے میدان میں کھینچ لاتی ہے اور اسی جدلیات کی کوکھ سے نوازشریف کی وہ مزاحمتی سیاست ابھری جس نے قوم کے سامنے ایک ایسا واضح نصب العین رکھ دیا جو عوام کے حق حاکمیت کی توضیح اور سویلین بالادستی کا محرک بن رہا ہے۔
اسی تناظر میں ملک گیر سیاسی پارٹیوں کے علاوہ علاقائی گروہ اور مذہبی جماعتیں بھی اپنے دائرہ اثر میں آنیوالے انتخابی حلقوں میں فعال ہو گئیں،ان دنوں عوامی مینڈیٹ کا ہر طلبگار لیڈر سیاست کے افسانے میں رنگ بھرنے کیلئے خوبصورت منشور لیکر میدان میں اتر رہا ہے۔دو بڑی ملک گیر جماعتوں،مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف، کے درمیان پنجاب میں ون آن ون مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو یم کے علاوہ اب جے یو آئی (ف)بھی شریک اقتدار ہونے والی ہے۔یہ ایک حیران کر دینے والی تبدیلی ہو گی جسے تبلیغی جماعت کی خاموش پیش قدمی ممکن بنائے گی۔سوفسطائیوں کی طرح گلی گلی گھوم کے لوگوں کو عام طریقوں سے مذہب کی تعلیم دینے والی یہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والی ٹولیاں تہذیب و ثقافت کی مبادیات کے علاوہ سوسائٹی کے سیاسی تصورات کو بھی بدل دیتی ہیں،جو بھی ان درویشوں کے زیر اثر آ جائے وہ جمہوریت سے نفرت کرنے کے باوجود علماء دیوبندکو ووٹ دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔اسی تبلغی گروہ نے وہاں کے دیہی سماج میں سرایت کر کے سیاسی طور پر جے یو آئی (ف) کو تقویت پہنچا کر اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی بالا دستی کے تصور کو منتشر کر دیا۔ اگر جے یو آئی (ف) نے سندھ کے طول و عرض میں ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اپنائی تو اسے سندھ اسمبلی میں باآسانی سات آٹھ نشستیں مل سکتی ہیں۔بلوچستان کے پشتون علاقوں میں جمیعت کی پوزیشن پہلے ہی مستحکم تھی،اب بلوچ علاقوں میں بھی طالبان اور فرقہ پرست تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثرات سیاسی نظریات کو متاثر کر رہے ہیں۔اگر جمیعت نے بلوچ علاقوں میں بھی قوم پرستوں سے الحاق کا کوئی میکانزم تیارکر لیا تو اسے بلوچستان اسمبلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں مل جائیں گی۔تاہم مولانا فضل الرحمٰن کا اصل ہدف خیبر پختون خوا کی وزرات اعلی ہو گی جہاں اسے دائیں بازو کی پی ٹی آئی جیسی فعال پارٹی کا سامنا کرنا پڑے گا جسے اس ملک کی بالادست قوتوں کی معاونت کے علاوہ مغربی دنیاکی اخلاقی حمایت حاصل ہو گی۔بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمٰن جس ایم ایم اے کی بحالی سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں وہ انکی جماعت کے لئے سنہری پھندہ ثابت ہو گی۔غور طلب بات یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی جسکی سن دوہزار تیرہ کے الیکشن میں اختیار کی گئی انتخابی حکمت عملی تحریک انصاف کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے کا زینہ بنی اور جو پچھلے پانچ سال سے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ شریک اقتدار اورقومی سیاست میں اسکی ہم خیال بنی رہی وہ اپنے فطری تناظر سے نکل کے مولانا لطف الرحمٰن کو وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچانے کی روادار کیسے بن گئی؟ امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی بتدریج قومی سطح کے سیاسی دھارے سے جدا ہو کر خیبر پختون خوا کی دیوار سے آ لگی ہے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کے باعث یہ منظم جماعت اب نظریاتی کشش بھی کھو رہی ہے۔بنگال کے سبزہ زاروں سے لیکر افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں تک جماعت سے کام لینے والی نادیدہ طاقتیں اسے جمعیت کے گلے میں ڈال کے دونوں مذہبی جماعتوں کو آخری بار پاور پالیٹیکس کی بھینٹ چڑھا سکتی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بالخصوص قوم پرست جماعتوں اور جے یو آئی (ف) کے حلقہ ہائے اثر ایک دوسرے میں مدغم ہیں،یہاں کے قوم پرست پٹھان جس طرح بخوشی جمیعت کو ووٹ دے سکتے ہیں،اسی طرح کئی انتہائی دیندار گھرانے نسلی بنیادوں پر اے این پی کو ووٹ دینے میں بھی عارمحسوس نہیں کرتے، اس لیے ایم ایم اے کی تخلیق دراصل مذہبی جماعتوں کو اے این پی اور قومی وطن پارٹی جیسی قوم پرست تنظیموں کے ساتھ الجھاکر تحریک انصاف کا راستہ صاف کرنے کا وسیلہ بنے گی۔
مسلم لیگ نواز کے خیبر پختون خوا کے شمال مشرقی علاقوں خاص کر ہزارہ ڈویژن میں مضبوط حلقے موجود ہیں اور وہ کم و بیش انیس بیس نشستیں لیکر صوبائی اسمبلی میں ہمیشہ ایک موثر دھڑے کے طور پر موجود رہے ہیں،منتشر مینڈیٹ کی صورت میں ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ملکر نواز لیگ کو کئی بار یہاں حکومت بنانے کے مواقع بھی ملے۔جے یو آئی اگر نواز لیگ اور شیر پاؤ گروپ کے علاوہ اے این پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتی تو اسے صوبائی اسمبلی میں واضح برتری ملنے کے امکانات موجود تھے۔اگلے چند ماہ میں اگر کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی نمائندگی علامتی رہ جائے گی اور اے این پی کا سائز گھٹ کر مزید کم ہو جائے گا۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین آصف علی زرداری نے اپنی ناقابل فراموش ذہانت سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی کو قوم پرستوں کے تابع کر کے علیحدگی کے رجحانات کو طاقتور بنانے کی جو پالیسی اپنائی تھی اس سے قوم پرستی کو تقویت تو نہ مل سکی لیکن پیپلزپارٹی کا نظریاتی کارکن معاشرے میں تحلیل ہو گیا۔یہ زرادری کی جادوگری ہی تھی جسں نے اپنے پہلے دور حکومت میں تحریک انصاف کو پنجاب میں نواز لیگ کے خلاف صف آراء کر کے خود ہنستے مسکراتے پنجاب کے میدانوں سے پسپائی اختیار کر لی ،چنانچہ اقتدار میں ہونے کے باوجود اسی جدلیات نے پنجاب میں نواز لیگ کی گرفت کو مضبوط بنایا۔اگر پیپلز پارٹی مسلم لیگ کو خاموشی سے حکومت کرنے دیتی تو وہ غیر محسوس انداز میں اپنی فعالیت کھو دیتی لیکن اس وقت نواز لیگ پنجاب کی سب سے زیادہ فعال اور ایسی توانا جماعت بنکر ابھری ہے جو روایتی مقتدرہ سے ٹکرانے کی جسارت کر رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر بھی پنجاب میں اسکا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔
فیس بک پر تبصرے