امرتا پریتم اور محبت کی تثلیث

1,702

ایک زمانہ تھا کہ امرتا پریتم کی نظم کا یہ مصرعہ “اج آکھاں وارث شاہ نوں”  زبان زد خاص و عام تھا۔ اس مصرعے کی گونج ہم آج بھی سنتے ہیں۔یہ گونج اہل پنجاب کے دلوں کی پکار بن کر ابھری تھی۔اس نظم میں کیا ہے؟ ایک عورت کی پکار اور چیخ، ایک للکار  اور بین۔ اس نظم میں پنجاب کی دہائی ہے، اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج ہے۔یہاں وارث شاہ وارث شاہ نہیں، اور نہ ہی پکارنے والی امرتا پرتیم ہے، یہاں پنجاب ہے، دہائی دیتا ہوا، جلتا ہوا اور خون کے آنسو روتا ہوا۔  پنجاب کے وسنیکوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ امرتا پنجاب کے واسیوں کے دل کی صدا بن کر دبستان شعر میں ابھری اور برصغیر کے ادبی منظر نامے پر چھا گئی۔
امرتا پریتم کا ادبی سفر لگ بھگ سات دہائیوں پر محیط ہے۔ اس دوران میں وہ ایک کے بعد ایک ادبی معرکہ مارتی رہی اور عالمی اور قومی سطح پر اعزازات حاصل کرتی رہی۔ پنجر،سنیہڑے اور رسیدی ٹکٹ، ایک سے بڑھ کر ایک شاہ پارہ ا س نے تخلیق کیا اور خاص و عام سے داد وصول کی۔
امرتا کی درد مندی اور تڑپ اس کی شاعری اور نثر دونوں ہی کا طرہ امتیاز رہی۔ اس درد مندی نے اس کی راست گوئی، دلیری اور محبت پسندی کے رویوں سے تقویت حاصل کی تھی۔ یہ تینوں عناصر اس کے مجموعی فنی رویے کے اجزائے ترکیبی تھے۔ امرتا پریتم راست گو ہے اور وہ سچ کو بیان کرنے کی خواہش ہی نہیں، طاقت بھی رکھتی ہے۔ یہ سچ اُتّم اور کھراسچ ہے۔ یہ ایسا شدید ہے کہ پڑھنے والوں کو ان کی روح تک میں بھگو دیتا ہے۔ اسے تقویت ملتی ہے امرتا پریتم کی دلیرانہ طبیعت سے۔ جب کہ یہ دونوں عناصر اس کے فراواں اور بے پناہ جذبہ محبت سے مل کر ایک نیا رنگ تخلیق دیتے ہیں۔ ایسا رنگ جس سے لازوال ادب تخلیق ہوتا ہے۔ جیسا کہ امرتا کا ادب ہے۔ محبت اس کے ہاں اپنی تمام تر جولانیوں سمیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اتنی شدید اور وشال ہے کہ خود اسی کو بہائے لے جاتی ہے۔ یہ محض ایک نشہ نہیں ہے بلکہ ایک جنون ہے جو بے قابو ہے۔ اور اسے بے کل کیے ہوئے ہے۔ اسی جذبے سے بھیگے ہوئے تھے امروز اور ساحر بھی۔ اور شاید انہیں ایسا بنانے والی بھی جیسے کہ وہ اب ہیں، امرتا ہی تھی۔ آج ہم جس امروز کو جانتے ہیں اور جس ساحر سے واقف ہیں وہ اس مصور امروز اور شاعر ساحر سے مختلف ہیں جیسے کہ یہ پہلے تھے اور جو یہ اب بھی اپنی ذات کے ایک ثانوی اور کم اہم پہلو کے طورپر موجود ہیں۔

امرتا کے ہاں محبت ایک تخلیقی جذبہ ہے۔ اسی جذبے کی طاقت سے وہ اپنی دنیا کو اپنی مرضی کے کرداروں سے سجاتی ہے۔ جب کہ ان کرداور ں میں ساحر اور امروز کے ساتھ ساتھ خود اس کا اپنا کردار بھی شامل ہے۔ امرتا ان دونوں کرداروں کی بیک وقت محبوبہ اور عاشق ہے۔ یوں اس نے ان دو کرداروں کے ساتھ ساتھ خود اپنا کردار بھی اپنی طبیعت اور ضرورت کے مطابق تخلیق کیا۔
ساحر ایک معروف شاعر اور گیت کا ر ہے۔ وہ امرتا کے بہت سے چاہنے والوں میں سے ایک تھا اور ایک زمانے میں اس کی یاد میں آہیں بھرتا رہا۔ اس نے امرتا سے محبت کی اور اس کے اظہار کے طورپر اس کا تعاقب کیا۔تب امرتا نے اسے محبت کا جواب محبت سے دیا تو پھر اسے عاشق کے بجائے معشوق کے استھان پر بٹھا دیا اور خود عاشق بن گئی۔ اب امرتا اس کے عشق میں آہیں بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس کے سگریٹوں کے بچے کھچے بجھے ہوئے ٹکڑوں کو سنبھال کر رکھتی اور اپنی تنہائیوں کو ان کی سلگاہٹ سے روشن کرتی ہے ۔وہ اس محبت میں اتنی سچی تھی کہ کبھی اس نے اسے امروز سے بھی نہیں چھپایا، اپنی خود نوشت میں اس کا برملا اظہار کیا اور ساحر کے لیے اپنی بے تابیوں کو ان کی تمام تر شدتوں کے ساتھ لکھا۔ وہ محض اس لیے کہ اپنے بچے کو ساحر کی صورت دے سکے، حمل کے دوران مسلسل اس کی تصویر پر نظریں گاڑے رکھتی ہے۔ وہ اس کے لیے نظمیں لکھتی ہے اور سنیہڑے کی صورت میں انھیں کتابی صورت میں شائع کرتی ہے۔ جب اس کتاب کو انعام ملتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ جس کے لیے یہ سب کچھ لکھا تھا، اسی نے جب اسے نہیں پڑھا تو میرے لیے یہ انعام بے کار ہے۔وہ امروز کی ہمراہی میں ساحر سے ملنے بھی جاتی ہے اور وہ تینوں کردار دیر تک اپنی محبتوں کی داستانیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔
ساحراندر ہی اندر محبت کی آگ میں سلگتا بھی ہے لیکن پورے اعتماد سے امرتا کی محبتوں کا جواب نہیں دے پاتا۔ اس بے اعتنائی سے امرتا اپنے لیے محبت کا گداز ، سوز ، تڑپ اور تشنگی حاصل کرتی ہے اور ٹھکرائے جانے کا تکلیف دہ احساس کماتی ہے۔ یہ بطور تخلیق کار اس کی کمائی ہے۔ اسی سے وہ اپنے فن کی آبیاری کرتی ہے۔ اسے اس کی ضرورت ہے۔ تخلیق میں رس پیدا کرنے کے لیے۔ پھر وہ امروز کو اپنے برابر لاتی ہے۔

 

وہ دہلی کا ایک عام مصورہے جو کتابوں کے سرورق تیار کرکے رزق کماتا ہے اور تصویریں بناتا ہے۔ وہ بھی امرتا کے بہت سے چاہنے والوں میںیہ لمحہ اس کی کایا کلپ کا لمحہ ہوتا ہے۔ وہ ایک معمولی  شامل ہے اور ان خوش نصیبوں میں بھی ہے جس پر امرتا کی نگاہ انتخاب ٹھہرتی ہے۔ مصور اندرجیت نہیں رہتا،امروز بن جاتا ہے۔ امرتا کے ادب کی طرح ادب میں ایک لافانی کردار بن جاتا ہے۔ امرتا کے چھونے سے وہ سونے سے پارس میں ڈھل جاتا ہے۔ ادبی کردار کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔

 

امروز امرتا کا سہارا بنتا ہے۔ اسے وہ اعتماد اور حوصلہ دیتا ہے جو اسے اونچی اڑان بھرنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ امروز کی ہمراہی میں اور اسکی مدد سے عروج اور شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرتی ہے۔ اب کھلا آسمان اس کے آگے ہے اور وہ اس میں دور تک سفر کرتی ہے۔ اپنی چمک سے دور دور تک پڑھنے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو روشنیوں سے بھردیتی ہے۔
ساحر، امروز اور امرتا محبت کی قدیم روایتی مثلث کے تین زاویے ہیں۔  تینوں اپنی ذات میں منفرد اور یکتا ہیں۔تینوں مل کر ایک کہانی بناتے ہیں جسے امرتا نے لکھا۔ جی ہاں !امرتا جانتی تھی کہ اگر ساحر اسے مل گیا تو اصل میں وہ اسے کھو دے گی کیوں کہ وہ اس ساحر سے بہت مختلف تھا جس کی تصویر اس نے اپنے نہاں خانہ دل میں ٹانگ رکھی تھی۔ وہ اس کی یاد میں آہیں بھرتی تھی، اس سے اپنے حصے کا ضروری دکھ اور درد لیتی تھی اور اس درد کے بیج بو کر ان سے ادب کی کاشت کرتی تھی۔وہ اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں ساحر کے بارے میں لکھتی ہے”ساحر ایک خیال تھا، ہوا میں چمکتا ، شاید میرے اپنے ہی خیالوں کا جادو۔”ایک اور موقع پر اس نے لکھا کہ ” سالا جولاہا، ساری عمر خواب بنتا ہی رہا، کسی کا خواب نہ بنا۔”یہی امرتا کا مقام تھا۔ محبت کرنے والی ایک ان تھک عورت۔ وہ تو پریتم کو بھی اپنی محبت سے محروم نہیں رکھ سکی، جس کے بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اس نے جس سے علیحدگی اختیار کرلی۔لیکن اس کے نام کو سینے سے لگائے رکھا۔محبت کے اظہار میں اسے خود پر بھی اختیار نہیں تھا۔ پریتم سے جدا ہونے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا لیکن اس کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنائے رکھنے کا فیصلہ اس کے اختیار سے باہر کسی دائرے میں ہوا تھا۔ یہ محبت کا دائرہ تھا۔

رسیدی ٹکٹ اپنی اشاعت کے فوراً بعد ہی ایک متنازعہ کتاب کی صورت اختیار کرگئی تھی۔امرتا کی کئی دوسری تحریروں اورخود اس کی اپنی زندگی کی طرح۔ اس کی وجہ محض یہی تھی کہ اس نے اپنی محبتوں کے بیان میں کسی مقام پر سچ لکھنے سے تردد نہیں کیا تھا۔ کوئی بات اخفا نہیں رکھی۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ورنہ آپ بیتی ہی کیوں لکھی جائے۔ سچ اس کے لیے اک ناگزیر بات تھی۔ وہ لکھتی ہے”سچ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔” ایک جگہ وہ اس کی وضاحت کرتی ہے۔”سچ سے میری مراد اس ایمان دار سوچ سے ہے جو دل اور بدن کے عمل میں یکسانیت پیدا کرتی ہے۔ کسی ساز کے تاروں کی سروں کو ہم آہنگ کرنے کی طرح۔”

یوں ہمارے سامنے ایک ایسی امرتا ظاہر ہوتی ہے جورد کیے جانے سے ڈرتی نہیں بلکہ الٹا وہ رد کیے جانے کی خواہش کی پالن ہار تھی، وہ سچ بولے اور لوگ اس کے سچ کی چکاچوند کو سہار نہ پائیں، اسے رد کردیں اور یوں اسے اس کی محنتوں کا صلہ ملے، وہ اس کی جھولی اپنی نفرت اور دھتکار سے بھردیں، یہی تو وہ چاہتی تھی۔ اس کی تحریر میں اس خواہش کا اتاؤلا پن بہت نمایاں ہے۔اس نے ایسی عزت افزائی کی کبھی خواہش نہیں کی جو اسے مشروط انداز میں ملے۔ وہ اسے بھی اپنی شرطوں پر چاہتی تھی۔ رسیدی ٹکٹ میں ایک جگہ وہ لکھتی ہے”جب تک میری نگاہوں میں میری عزت ہے، میرے ناموس پر حرف نہیں آسکتا۔ میری طرح میری عزت نے بھی ساری عمر کسی پر انحصار نہیں کیا۔”

یہ سچ اور محبت امرتا پریتم کو پنجاب کی ایک مثالی عورت کی صورت دیتے ہیں۔ جو ہیر بھی ہےاور سوہنی بھی، کچے گھڑے کی پرواہ کیے بغیر دریا میں کود جانے کی ہمت سے بھری ہوئی۔ یہ سسی بھی ہے جو پنوں کی یاد میں زندگی کے ریگستان میں بھٹکتی رہتی ہے۔

اس محبت پسندی اور راست گوئی کی خو نے امرتا پریتم کے لکھے ہوئے لفظوں میں بھی ایک آگ بھردی جن کی تپش آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ ہمارے دلوں میں خوف اور وسوسوں کی برف کو پگھلادینے کی شکتی رکھتی ہے۔ امرتا پریتم اپنی عظیم جذبہ محبت کے باعث خود دیوی کے استھان پر بیٹھنے کے لائق ہوگئی۔وہ اپنی تحریروں میں جو اس کی زندگی بسر کرنے کے طریقہ کار سے مختلف نہیں ہیں، ایک دیوی ہی کی مانند طاقتور ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...