قومی داخلی سلامتی پالیسی
1970 کی دہائی پاکستان میں پر امن ، انتہاء پسندی سے پاک ، سیاسی وثقافتی طور پر پاکستان کی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ جب میں اپنے طالب علمی اور بعد میں سرکاری نوکری میں آنے کا وقت اپنے ذہن میں واپس لاتا ہوں تو جو آج کے تنگ نظر ، مذہبی انتہاء پسندی ، جنگی جنونیت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رویہ دیکھتا ہوں تو 70 کی دہائی پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ختم ہوا۔ اس کو مزید تقویت ضیاء الحق کی پالیسیوں نے دی جب ہم نے افغانستان میں امریکہ کے لیے روس کے خلاف جنگ لڑی ۔ اس دوران پاکستان میں عدم برداشت ، ہیروین اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔ ساتھ ہی سیاسی و ثقافتی انتہاء پسندی اور جنگی جنون کادور شروع ہوا۔ حکومت ِ وقت نے اس کو دوام بخشا اور جہادی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ مذہب کو ریاست نے ڈھال کے طور پر سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا اور اس کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ نتیجے میں مختلف مذہبی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ جن کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ امریکی ڈالرز اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ مدارس تک بھی پہنچے ہیں ، حتیٰ کہ امریکی اعلیٰ قیادت پاکستانی سرزمین پر کھڑے ہوکر جہاد کی ترغیب دیتی رہی ہے۔
آج جبکہ حکومت پاکستان 40 سال بعد اپنی ان پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہی ہے جو ہمارے فوجی افسران ، پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کی جان کی قربانیوں کا باعث بنی ہیں ۔انہیں اب یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان پالیسیوں کی سب سے زیادہ قیمت ہمارے عوام نے برداشت کی ہے۔ 16 دسمبر 2014 کے اے پی ایس حملے نے حکومت اور عسکری قیادت کو ایک ساتھ بیٹھنے پر مجبور کیا تو بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ۔ ایک ریٹائرڈ جنرل کو وفاقی وزیر کے برابر عہدہ دے کر قومی سلامتی کا مشیر بنایا گیا۔حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے لئے کوئی ایک جامع پالیسی دوبارہ سے ترتیب دیں ۔وزیر موصوف سابقہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی کابینہ میں وزیر ترقیاتی منصوبہ بندی تھے ۔ یہ بھی شہرت ہے کہ سی پیک منصوبے کی نگرانی بھی آپ ہی کررہے تھے، آپ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی مسلسل علالت اور خود ساختہ اختیار کی گئی جلاوطنی کے دوران قومی اقتصادی کمیشن کا ممبر بھی بنا دیا گیا۔ اب بھی آپ صرف کل وقتی وزیر داخلہ جیسے اہم اور مصروف عہدے پر ہی نہیں ان تمام عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز ہیں ۔ پارٹی کی سیاسی مصروفیات اور ذمہ داریاں اس کے سوا ہیں۔
وزیر موصوف نے اس سال 2018 کے شروع میں ایک تقریب کے دوران فرمایا کہ موجودہ حکومت ایک قومی سلامتی کی داخلی پالیسی پر کام رہی ہے ، جس کا مقصد امن، استحکام اور ترقی ہوگا۔ سننے کی حد تک تو یہ اعلان بہت اچھا تھا مگر سوال یہ ہے کہ یہ نیشنل سیکورٹی پالیسی کیا ہوگی ؟
اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی افرادی قوت میں اضافہ کرنے اور انہیں جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے سے ہی یا یہ کہ روس اور دیگر ممالک سے ہیلی کاپٹرز خریدنے سے یہ پالیسی کامیاب ہوسکتی ہے تو شائد یہ اندازہ قبل از وقت اور زائد از توقع ہوگا۔ اگرچہ یہ سب ضروری اور اہم اقدامات ہیں لیکن پائیدار امن اور ترقی کے لئے مزید انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہی موجودہ وقت کا تقاضا ہے۔قومی داخلی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ عام آدمی کے جان و مال کو تحفظ دیا جائے۔ اس کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ اس کی خوراک اور دیگر لازمی ضروریات کو پوراکیا جائے اور اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ جب بھی داخلی سطح پر سلامتی کی پالیسی ترتیب دی جائے تو مرتبین پر لازم ہے کہ عوامی فلاح کو بنیادی طور پر اہمیت دیں ۔ یہی اس کی کامیابی کا ذریعہ اور ضمانت ہوسکتی ہے۔کسی بھی ملک میں داخلی امن ، پائیدار استحکام اور ترقی اس کی خارجہ پالیسیوں کا آئینہ ہوتے ہے۔ انہی معاملوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کوئی ملک کس قدر کامیاب ہے۔ ہماری جغرافیائی سرحدیں چین ، انڈیا ، ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں اور ان چار ہمسائیوں میں افغانستان پچھلی چار دہائیوں سے حالت ِ جنگ میں ہے۔ بہت سی سیاسی و سماجی وجوہات کی بناء پر اس جنگ کا پاکستان کی سرزمین پر براہ راست اثر پڑا ہے ۔ حالات اس نہج تک آگئے ہیں کہ اب اگر افغانستان میں تخریب کاری کا کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے تو وہ اس کا الزام پاکستان پر دھر دیتا ہے اور اس الزام کو لیے وہ ہر اس فورم پر اس کا شور کرتا ہے جہاں پہ اس خطے میں قیام امن کی کوئی بامعنیٰ گفتگو ہونے جارہی ہوتی ہے۔ انڈیا اس ساری کارروائی میں افغانستان کا معاون ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری سیاسی اور فرقہ ورانہ منافرت کے تاریک سائے پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں ۔ اب تو پاک ایران تعلقات بھی مثالی نہیں رہے ۔ صورتحال یہاں تک بگڑی ہے کہ چین جس کو ہم اپنا سب سے زیادہ مضبوط دوست سمجھتے ہیں وہ بھی اپنے مسلم اکثریتی صوبے میں ہونے والی بد امنی کی جڑیں ہمارے ہی ملک اور معاشرے میں دیکھتا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہماری قومی سلامتی کی داخلی پالیسی کی بنیاد اپنے ہمسائیوں سے بہتر اور پرامن تعلقات پر استوار ہو مگر اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں ۔
افغانستان کو اپنی کالونی سمجھنے کی روش اب ہمارے گلے کی وہ ہڈی بن چکی ہے جس کو اگر فی الفور نہ اگلا گیا تو وہ ہماری شہ رگ کاٹ دے گی ۔ افغان اپنے قومی سفر میں اس حد تک بالغ نظر ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنے دوست دشمن کی خود تمیز ہوچکی ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کی ہماری کوششیں ہماری اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ہم چین ، ایران اور افغانستان کے تحفظات دور کرکے ہی پاک بھارت خلش میں اپنے مفادات کے لئے انہیں قائل کرسکتے ہیں ۔ اگر خارجی سطح پر ہمسائیوں سے تعلق پرامن ہوگا تو ہم اپنے داخلی امور میں امن اور ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ خارجہ پالیسی کی ترتیب میں وزارت خارجہ اور خارجہ امور کے ماہرین کی رائے لینی چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گذشتہ ستر سال سے ہمارے ہمسائے ہم سے خوش کیوں نہیں ہیں؟ کیوں دنیا ہمارا بیانیہ تسلیم نہیں کرتی ؟ کیوں ہمیں دنیا کو یہ ہمیشہ بتانے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ یہ تمام اقدامات ہمار داخلی سطح کی قومی سلامتی پالیسی کا لازمی حصہ ہونے چاہیئں۔ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اب معاشرے میں موجود ہر طرح اور ہرنام کے انتہاء پسند عناصر کی بیخ کنی کرنا ہوگی ۔ یہ اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ہم دنیا سے الگ تھلگ روش اپنا کر امن قائم نہیں کرسکتے۔
دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی سرکاری حکمت عملی میں اگر کوئی ابہام ہوا اور اس کے مرتبین نے اس معاملے کو غیر پیشہ ورانہ انداز میں دیکھا تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ لاکھوں نوجوانوں سے کئے جانے والے ایسے معاملے کے اثرات کس قدر تباہ کن ہوسکتے ہیں ۔ اس معاملے سے وابستہ دینی حلقوں کی حساسیت کو نظر انداز کرکے کوئی بھی حکمت عملی بنائی گئی تو بہت ممکن ہے کہ وہ ناکام ہو اور بجائے کسی فائدے کے مزید نقصان کا باعث ہو۔ دینی مدارس سے فارغ طلبہ کو معاشرے میں صرف دینیات کی ضروریات کو پورا کرنے والے افراد تک محدود رکھنا نہ صرف مدارس کے طے شدہ مقاصد کے منافی ہے بلکہ سماجی ضرورت میں اس کی وجہ سے خلاء باقی رہنے کا بھی اندیشہ ہے۔ ہمیشہ ایسے خلاء میں انتہاء پسند عناصر اور دہشت گرد پنپتے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو بھی دنیاداری کے شعبہ جات میں ضم کرنا اور انہیں سماجیات کا کار آمد پرزہ بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ علمائے کرام کے تعاون سے جدید اذہان پر تحقیق ضروری معاملہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹیز اور کالجز جیسے جدید اداروں سے منسلک طلبہ بھی مذہبی انتہاء پسندی کی لپیٹ میں آرہے ہیں ۔ یہ ماننا ہوگا کہ انسداد انتہاء پسندی کی کوئی بھی سرکاری کوشش علمائے کرام کی معاونت کے بغیر ادھوری ہوگی۔
ہمارے پالیسی سازوں کو اپنے عوام کی خوراک کی ضروریات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان کی زراعت اور اس سے جڑی معیشت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہماری قیمتی زرعی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر ہورہی ہیں۔ صوبہ پنجاب جوکہ پاکستان کی زرعی معیشت میں سب سے اہم ہے وہاں ضلع ساہیوال کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانے نہ صرف ہزاروں ایکڑ زرعی رقبہ کھا گئے ہیں بلکہ ان سے پیدا ہونے والا خطر ناک فضلہ زمینی اور فضائی آلودگی کی بڑی وجہ بن چکا ہے۔ اس علاقے میں صحت کے مسائل لوگوں کی پہلے سے موجود مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں ۔ دیگر دنیا کوئلوں پر انحصار کرنے والے انرجی یونٹس کو بند کر رہی ہے جبکہ ہمارا انحصار دن بدن انہی پر بڑھ رہا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ ہماری معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے جبکہ زراعت کا دارومدار پانی کی وافر دستیابی پر ہے۔ ہندوستان سے سندھ طاس معاہدے کے باوجود ان کی جانب سے ہمارے مغربی دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر اور اس پر ہمارے اداروں کی مجموعی ناکامی ہماری قومی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ آبی وسائل پر معاہدہ ہونے کے باوجود ہمارا یہ حال ہے تو دوسری جانب افغانستان جس کے ساتھ آبی تقسیم کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے، وہاں بھی ہندوستان کی وہ سرمایہ کاری جو دریائے کابل پر ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے ہے، ہماری پریشانی کا باعث ہونی چاہیئے۔ پانی کے معاملے پر اگر دونوں ہمسائیوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو اپنے ہی ملک میں دریائے سندھ میں ٹھٹھہ اور سجاول جیسی زرعی زمینوں کے حامل شہر تیزی سے سمندر برد ہورہے ہیں۔ ماحولیات پر نگاہ رکھنے والے اداروں کی توجہ اس معاملے کی سرکوبی کی طرف نہ گئی تو ایک نیا انسانی المیہ جلد ہی جنم لے گا۔
کامیاب داخلی سلامتی کی پالیسی کے لیے لازم ہے کہ وہ جامع ہو ۔ مربوط ہو اور اداروں کے درمیان مکمل اور آسان رابطوں کو ممکن بنا کر اس پر عملدرآمد کیا جا رہا ہو۔ سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، پارلیمان اور انتظامی ادارے اگر ایک ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کوشش نہیں کریں گے تو آئندہ ترتیب دی جانے والی قومی سلامتی کی پالیسی کا بھی وہی حال ہوگا جو اس سے پہلے بنائی گئی پالیسیز کا ہوچکا ہے۔
فیس بک پر تبصرے